تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     02-06-2019

اٹھائیسویں پارے کا خلاصہ

اٹھائیسویں پارے کا آغاز سورت مجادلہ سے ہوتا ہے۔ سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے سیدہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللّٰہ عنہا کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ جن کے شوہر نے ناراضگی میں ان کو کہہ دیا تھا کہ تم میرے لیے میری ماں کی پشت کی طرح ہو ۔وہ اس معاملے پر راہنمائی حاصل کرنے کے لیے رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں تو رسول اللہ ﷺنے بھی اس مسئلے پر رخصت دینے سے انکار فرمادیا (سیدہ خولہ رضی اللّٰہ عنہا نے اس مسئلے پر آپ ﷺ سے مزید بات کرنا چاہی تو نبی کریم ﷺ نے ان سے اعراض کرلیا)۔ اس پر سیدہ خولہ رضی اللّٰہ عنہانے بارگاہ رب العٰلمین میں دعا مانگی کہ اے اللہ! اس سلسلے میں میری مدد فرما ۔اللہ تعالیٰ نے سیدہ خولہ رضی اللّٰہ عنہا کی فریاد سن لی اور حضرت رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل فرمائی کہ اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ دونوں کا مکالمہ سن رہا تھا‘ بے شک اللہ خوب سننے اور بڑا دیکھنے والا ہے ۔اس کے بعد اللہ نے ''ظہار‘‘ کے کفارے کے لیے حکم نازل فرمادیا کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ''ظہار‘‘ کرلیں اورپھر اپنی کی ہوئی بات سے رجوع کرنا چاہیں تو انہیں یا تو ایک غلا م آزاد کرنا ہوگا یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے ہوں گے اور ایسا کرنا ممکن نہ ہوتو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے محبت اور نفرت کا معیار بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والا کوئی شخص ایسا نہیں‘ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے دشمن کے بارے میں محبت ہو ۔جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے لیے محبت ہے‘ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے نفرت کرتا ہے‘ چاہے وہ اس کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔ 
سورہ مجادلہ کے بعد سورہ حشر ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ‘جو رسول اللہ ﷺ عطا کرتے ہیں‘ اس کو پکڑ لیا کرو اور جس سے روکتے ہیں اس سے رک جایا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے تین طبقوں کا ذکر کیا ہے ۔ایک طبقہ وہ کہ جنہوں نے انپے ایمان کی حفاظت کے لیے ہجرت کی اور اپنے گھر بار اور اموال کو اللہ کے فضل اور خوشنودی کے حصول کے لیے خیر باد کہہ دیا اور دوسرا طبقہ انصاری صحابہؓ کا تھا جو مہاجرین سے محبت کرتے تھے اور ان کو دیئے گئے مال کے بارے میں اپنے دل میں معمولی سی تنگی بھی محسوس نہیں کرتے تھے اور انہیں اپنے آپ پر ترجیح دیتے تھے چاہے انہیں خود تنگی کا سامنا کرنا پڑتا۔اور تیسرا طبقہ مہاجرینؓ اور انصارؓ کے بعد آنے والے اہل ایمان کا تھا جنہوں نے مہاجرینؓ اور انصار صحابہ کرامؓ کے لیے یا اپنے سے پیشتر دنیا سے چلے جانے والے مومنوں کے لیے دعا مانگی کہ اے ہمارے رب ! تُو ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما ‘جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اورہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے بارے میں کینہ پیدا نہ فرما ۔بے شک تو بڑی شفقت اور رحم کرنے والا ہے۔ اللہ تعا لیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ قرآن مجید کو کسی پہاڑ پر نازل فرماتے تو پہاڑ اللہ تعالیٰ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ 
سورت حشر کے بعد سورت ممتحنہ ہے ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اسلام کے دشمنوں سے برأت کرنے کاحکم دیا ہے اور اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے کردار کو نمونے کے طور پر اہل ایمان کے سامنے رکھا ہے کہ جنہوں نے مشرکوں اور غیر اللہ کے پجاریوں سے کامل برأت کا اظہار کیا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ وہ کافر جو مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں اور ان کے خلاف سازشیں نہیں کرتے ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے اور جو کافر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں‘ ان کے ساتھ سختی والا معاملہ کرنا چاہیے۔ 
اس کے بعد سورت صف ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں ‘جو اللہ کے راستے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف باندھ کر لڑتے ہیں۔ 
اس کے بعد سورت جمعہ ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے ان علماء کا ذکر کیا ہے‘ جو تورات کو پڑھتے تو ہیں ‘لیکن اس پر عمل نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘ ان کی مثال ایسی ہے‘ جیسے گدھے پر کتابوں کو لاد دیا جائے‘ جو کتابوں کا بوجھ تو اٹھاسکتا ہے ‘لیکن اس کے معنی اور مفہوم کو سمجھ نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو جمعہ کے آداب بتلائے ہیں کہ جب جمعہ کی اذان ہو تو کاروبار چھوڑ کر فوراًجمعہ کی طرف متوجہ ہو جانا چاہیے اور جب جمعہ کی نماز ادا کر لی جائے‘ تو کاروبار کرنے کی اجازت ہے۔ 
سورہ جمعہ کے بعد سورہ منافقون ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کیا کہ منافق رسول اللہ ﷺ کے پاس آکے زبان سے شہادت دیتے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ کو پتا ہے کہ آ پ اس کے رسول ہیں ‘لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹ بولتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ذکر کیا کہ دنیا کا مال‘ دولت اور ان کے جسموں کی کیفیت دیکھ کر انسان متاثر ہو تا ہے‘ لیکن منافقوں کے لیے آخرت میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد سورہ تغابن ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو مصیبت بھی آتی ہے اللہ کے حکم سے آتی ہے اور جو کوئی اللہ پر ایمان لاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی فرما دیتے ہیں۔ 
اس کے بعد سورہ طلاق ہے۔سورہ طلاق میں اللہ تعالیٰ نے طلاق کی مختلف عدتوں کا ذکر کیا ہے کہ بوڑھی عورت کی عدت تین ماہ ہے‘ جبکہ عام عورت کی عدت تین حیض ہے‘ جبکہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے فوائد کا بھی ذکر کیا کہ جو تقویٰ کو اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی تنگیوں کو دور فرماتے ہیں۔ اس کے بعد سورت تحریم ہے ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کوایمان و عمل سے مشرو ط کیا ہے اور ازواج ِ مطہرات اور اہل ایمان کو سیدنا نوحؑ اورسیدنا لوط ؑکی بیویوں کا حوالہ دیا ہے کہ وہ نبیوں کی رفاقت میں رہ کر بھی اپنی بدعملی کی وجہ سے ناکام ہوگئیں اور ان کے مد مقابل فرعون کی بیوی آسیہ سلام اللّٰہ علیہااورسیدہ مریم سلام اللّٰہ علیہا کامیا ب رہیں کہ جنہوں نے اللہ کی بندگی کو اختیار کیا اور اپنے کردار کو ہر طرح کی آلودگی سے بچالیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید میں مذکورمضامین سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین!) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved