تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     03-06-2019

انڈین بالادستی اور پاکستان

کابل سے لے کر برما تک چوہدراہٹ انڈیا کا پرانا خواب ہے۔ بحر ہند میں انڈمان سے لے کر خلیج عدن تک کے پانیوں پر انڈیا بالادستی چاہتا ہے۔ پاکستان نے جب بھی کوئی بڑا سٹریٹجک فیصلہ کیا تو انڈیا نے سخت اعتراض کیا۔ سیٹو اور سینٹو کی ممبر شپ سے لے کر سی پیک تک انڈیا کو یہی زعم رہا کہ اسے پاکستان کے بنیادی فیصلوں کو ویٹو کرنے کا حق حاصل ہے ۔دوسرے لفظوں میں پاکستان کو ہر فیصلہ اپنے بڑے ہمسائے سے پوچھ کر کرنا چاہیے۔ پاکستان جب سیٹو اور سینٹو کا ممبر بنا تو انڈیا کشمیر میں ریفرنڈم کرانے سے منحرف ہو گیا تھا ‘الزام یہ تھا کہ پاکستان امریکہ کو برصغیر میں لے آیا ہے اور آج انڈیا خود امریکہ کا بڑا حلیف ہے۔ آج امریکہ کے بحری اور ہوائی جہاز جب چاہیں‘ جہاں چاہیں انڈیا میں مرمت کے لئے رک سکتے ہیں۔
انڈیا کے حالیہ انتخابات میں پاکستان مخالف نعرہ خوب لگا اور اس سے ووٹ بھی زیادہ ملے۔ پلوامہ کا الزام پاکستان پر لگایا گیا؛ حالانکہ اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا اور پھر انٹرنیشنل انکوائری کی تجویز بھی پاکستان نے خود دی تھی‘ لیکن مودی سرکار نے ووٹ بینک بڑھانا تھا ؛چنانچہ بالا کوٹ پر حملہ کر کے کہا کہ ''ہم نے گھس کر مارا ‘‘اور پھر ابھی نندن جیسے معمولی فائٹر پائلٹ کو یہ کہہ کر ہیرو بنانے کی کامیاب کوشش کی کہ ''اُس نے پیرا شوٹ استعمال کرنے سے پہلے پاکستان کا ایف سولہ جہاز گرایا‘‘ جبکہ پاکستان کے پورے ایف 16طیارے صحیح سلامت نکلے۔ کذب و افترا کی ایک لمبی کہانی ہے ‘جو مودی اپنے سادہ لوح ووٹر کو سناتے رہے اور ووٹروں نے آنکھیں بند کر کے جھوٹ کو سچ مان لیا‘ لیکن اس سے ایک بات ثابت ہو گئی کہ عام انڈین پاکستان مخالف پراپیگنڈہ کا شکار ہو چکا ہے۔انڈین لوک سبھا میں ایک تہائی سے زیادہ ایسے لوگ آئے ہیں‘ جنہیں فوجداری مقدمات کا سامنا ہے۔ انڈین میڈیا کے مطابق ‘اچھی خاصی تعداد نو دولتیوں کی بھی ہے اور یہ لوگ اُس نئے انڈیا کی بنیاد رکھنے جا رہے ہیں جہاں ہر حکومتی ادارے کو ہندوتوا کا بخار چڑھا ہوگا۔ جہاں اقلیتوں کی بقا بہت مشکل ہو جائے گی۔ ذرا غور فرمائیے ‘انڈیا کے اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کو صرف چھبیس نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔
انڈیا میں پاکستان مخالف نعرے کو اب ووٹر کی حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا کہ بی جے پی کی جیت پاک ہند تعلقات کے لئے اچھی ہوگی‘ غالباً اس مفروضے پر تھا کہ ماضی میں دوطرفہ تعلقات میں بڑی پیش رفت بی جے پی کے عہد میں ہی ہوئی مثلاً واجپائی صاحب کے زمانے میں۔ لیکن ہمیں یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رکھنی چاہیے کہ واجپائی اور مودی میں بڑا فرق ہے۔ مذہبی رواداری کے اعتبار سے انڈیا معکوس ترقی کر رہا ہے۔ وہاں کی گائے مسلمان سے زیادہ محفوظ ہے‘ لہٰذا اگلے پانچ برسوں کے بارے مجھے کوئی خوش فہمی نہیں‘ کیونکہ انڈیا سیکولر نہیں رہا‘ وہ مہا بھارت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ ہندو متعصب برتری کا خواب پورا کرنا حکمران پارٹی کا نصب العین ٹھہرا ہے۔ معروف تاریخ دان اور میرے دوست الحان نیاز نے اپنے حالیہ ٹویٹ میں لکھا ہے کہ انڈیا کا مستقبل جاننا درکار ہے تو پاکستان کی تاریخ پڑھ لیں۔ جب پاکستان انتہا پسندی سے نکل رہا ہے تب پورے زور شور سے انڈیا انتہا پسندی میں داخل ہو رہا ہے۔مجھے اگلے پانچ سال لائن آف کنٹرول پر امن نظر نہیں آتا۔ انڈیا پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیاں ہمارے ہی لوگوں کے ذریعے کراتا رہے گا کہ ففتھ جنریشن وار کا اصل مقصد اکانومی کو تباہ کرنا ہوتا ہے‘ لیکن ساتھ ساتھ کبھی کبھار مذاکرات بھی ہوتے رہیں گے تاکہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ انڈیا کتنا امن پسند ملک ہے۔ بڑی جنگ خارج از امکان ہے کہ دونوں ملک ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں۔اب انڈین سٹریٹجی یہ ہو گی کہ پاکستان پر عسکری دباؤ بھی قائم رکھا جائے اور تخریب کاری بھی کرائی جائے۔ اصل میں مقصد ایک ہی ہے کہ پاکستانی اکانومی اٹھنے نہ پائے‘ سرحدوں پر دباؤ برقرار رہے گا تو پاکستان کا دفاعی بجٹ بڑھتا رہے گا ‘ترقیاتی کاموں کے لئے پیسے کم ہوں گے تو اقتصادی شرح نمو سست رہے گی۔ اقتصادی طور پر کمزور پاکستان تابعداری کی طرف راغب ہوگا۔
نریندرمودی کی حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم عمران خان کو نہ بلا کر پاکستان کو سنگل آؤٹ کیا گیا ہے اور ہمیں قطعاً کبیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیے ۔اس طرح نہ تو پاکستان کا قد و قامت کم ہوا ہے اور نہ ہی ہمارے وزیراعظم کا۔ دوسرے اگر انڈین لیڈر شپ ہماری طرف مسکرا کر دیکھ لے تو بھی زیادہ خوشی کی بات نہیں‘ مثلاً: بشکیک میں شریمتی سشما سوراج نے ہمارے وزیرخارجہ کو ماضی کی تلخی دور کرنے کے بہانے مٹھائی کا ڈبہ پیش کیا تو یار لوگ بڑے خوش ہوئے‘ لیکن چند منٹ بعد وہ شاہ محمود قریشی صاحب کے ساتھ گروپ فوٹو میں کھڑے ہونے سے انکاری تھیں۔ کشمیر میں پچھلے پانچ سال میں مودی سرکار نے بہت کوشش کی کہ آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35-A سے چھٹکارامل جائے۔ پہلے اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے کی ہر طریقے سے کوشش ہوئی‘ یہ آرٹیکل کشمیر اسمبلی کی منظوری کے بغیر تبدیل نہیں ہو سکتے ‘جب اسمبلی میں بات نہ بنی تو عدالتوں سے رجوع کیا گیا۔ عدالتی فیصلے بھی دہلی سرکار کے خلاف آئے‘ مگر کشمیر میں ظلم کی رات ابھی طویل لگتی ہے ؛اگر کچھ اور نہ ہو سکا تو ہو سکتا ہے کہ ریاست کو جموں‘ لداخ اور وادی کے تین حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو کیاکرنا چاہیے؟انڈیا چاہتا ہے کہ پاکستان کشمیر کو بھول جائے۔ انڈیا کو زمینی راستے سے افغانستان تک راہداری مل جائے اور پاکستان سی پیک سے دست بردار ہو جائے۔ خیر سی پیک سے دست بردار ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ کشمیر پر بھی پاکستان کو اپنا اصولی موقف نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہمیں امن کی ضرورت ہے‘ لیکن انڈیا سے مرعوب ہونے کی نہیں۔نان سٹیٹ ایکٹرز کا رواج مکتی باہنی سے شروع ہوا تھا اور القاعدہ کے ساتھ ختم ہو رہا ہے۔ پاکستان کو کسی نان سٹیٹ ایکٹر کو اپنی سرزمین پر قدم جمانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ہماری پوری توجہ اس بات پر مرکوز ہونی چاہیے کہ اکانومی مضبوط ہو اور اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے بیرونی سرمایہ کاری بے حد ضروری ہے‘ کیونکہ ہماری قومی بچت کی شرح کم ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے اندر اور سرحدوں پر امن ہو۔ لائن آف کنٹرول پر انڈیا کچھ نہ کچھ کرتا رہے گا؛ البتہ اندرونی امن کے حصول میں ہمیں خود اور ہماری سکیورٹی کے اداروں کو ہر وقت چوکس رہنا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں ہم دنیا کے سامنے اپنا کشمیر کیس ٹھیک طرح پیش نہیںکر سکے۔ فارن آفس کو ایک کشمیر ایڈوائزی کمیٹی بنانی چاہیے‘ جس میں بین الاقوامی قانون کے ماہر اور نئی دہلی میں ہمارے سابق ہائی کمشنر شامل ہوں ہمارا کیس بہت مضبوط ہے‘ لیکن اسے لڑنے والے یا تو کمزور تھے یا غیر سنجیدہ۔ ہمیں انڈیا کو امن تجاویز دیتے رہنا چاہیے ‘لیکن مذاکرات کی بھیک مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اتنی بھاری اکثریت سے جیتنے کے بعد وزیراعظم مودی کی رعونت میں مزید اضافہ ہوگا ‘لہٰذا ہمیں اپنی اندرونی لڑائیاں ختم کرنا ہوں گی۔ ایسے متعصب دشمن کے سامنے ثابت قدم رہنے کے لئے اندرونی اتحاد ضروری ہے ۔اور‘ ہاں! آخری بات کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم میں انڈیا کا مقابلہ کرنا بے حد ضروری ہے۔
نریندرمودی کی حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم عمران خان کو نہ بلا کر پاکستان کو سنگل آؤٹ کیا گیا ہے اور ہمیں قطعاً کبیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیے ۔اس طرح نہ تو پاکستان کا قد و قامت کم ہوا ہے اور نہ ہی ہمارے وزیراعظم کا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved