پٹرول کی ''چھترول‘‘ کے بعد گیس اور بجلی مزید مہنگی کر کے عوام پر ایک اور ''بجلی‘‘ گرائی جانے والی ہے۔اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عوام کو بے حال کر کے بدحالی تک پہنچانے میں پہلے ہی کامیاب ہو چکی ہیں۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اپنے اختتام پر ہے۔ حکومت نے پورا مہینہ روزہ داروں کو سستی اور معیاری اشیا فراہم کرنے کی چیمپئن شپ جیت لی ہے۔ رمضان بازاروں میں محنت کشوں اور غریبوں کی خریداری کا کوٹہ مخصوص کر دیا گیا تھا۔ ایک کلو چینی اور ایک پاؤ لیموں سے زیادہ خریداری پر پابندی تھی‘ جبکہ بڑے ڈیپارٹمینٹل سٹوروں پر رمضان بازار کی اشیا کے انبار دیکھ کر احساس کو ضربیں لگ جاتی ہیں۔ شہر لاہور میں ہی ایک ڈیپارٹمینٹل سٹور پر چھاپہ مار کر بھاری مقدار میں وہ سٹاک برآمد بھی کیا جاچکا‘ جو رمضان بازاروں میں فروخت ہونا چاہیے تھا۔
اس مقدس مہینے کی برکتیں ایک ‘ دو دن کی مہمان ہیں۔ افطاریوں کی بہار ختم ہوتے ہی گرفتاریوں کے موسم کی شنید ہے۔ چیئرمین نیب‘ آصف علی زاداری کے وارنٹ جاری کر چکے ‘جبکہ دائیں بائیں سے بھی کچھ لوگ گرفتاریوں کی زد میں آنے والے ہیں۔ایمنسٹی سکیم اور ''بندھی ہوئی‘‘ چھوٹ کے باوجود کاروباری طبقہ تاحال حکومت پر اعتماد کرنے سے گریزاں اور ٹیکس نیٹ میں آنے سے انکاری دِکھائی دیتا ہے۔تحریک انصاف کو برسراقتدار آئے سال بھر ہونے آیا ہے۔ اب کہیں جاکر زمینی حقائق کی چکاچوندنے حکومتی چیمپئنز کی آنکھیں چندھیا ڈالی ہیں۔ مزید جھانسے‘ جھوٹ اور دلاسوں کی بجائے صاف کہنا پڑ گیا ہے کہ حکومت مراعات نہیں دے سکتی ہے۔ عوام کو ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ حکمران اپنی زبان و بیان کی پکڑ میں آچکے ہیں۔ وہ سارے اقدامات‘ جنہیں شجرممنوعہ‘ ناممکن‘ ناقابلِ برداشت اور عوام دشمنی قرار دے کر یہ گھن کھایا کرتے تھے‘ آج یہی سب کچھ کرنے پر آمادہ اور انہیں اقدامات کے دلدادہ ہو چکے ہیں۔
روزِ اوّل سے ہی وزیراعظم دو ٹیمیں لے کر میدانِ اقتدار میں اُترے ؛ ایک ٹیم منتخب نمائندوں پر مشتمل‘ جو عوام کا ووٹ لے کر آئے تھے‘ جبکہ دوسری ٹیم کپتان کے ذاتی رفقا اور مصاحبین پر مشتمل تھی‘ جن میں اکثریت کی اہلیت اور قابلیت تاحال نامعلوم اور کار کردگی صفر ہے۔ بیان بازی سے لے کر زبان دانی تک ایک سے بڑھ کر ایک پایا گیا۔ کئی ایک کی شعلہ بیانوں نے وہ کام کردِکھایا کہ صاف نظر آتا تھا کہ ''اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ ۔ غیر منتخب ذاتی رفقا کار اور مصاحبین کے انتخاب سے لے کر اُن کے مشوروں اور فیصلوں کے نتیجے میں حکومت کو کئی بار سُبکی کا سامنا بھی رہا ہے‘ لیکن پرانی یاری سب پر بھاری نکلی... کپتان نے ہر سُبکی کے بدلے تھپکی دے کر ان کے حوصلے اور عزائم بلند ہی رکھے۔
اب تو فواد چوہدری بھی پھٹ پڑے ہیں‘ کہتے ہیں کہ پارٹی سرد جنگ کا شکار ہے۔ وزارتیں غیر منتخب لوگوں کے کہنے پر تبدیل کی گئیں اور غیر منتخب لوگ وہ ہیں‘ جو سیاست کی الف ب سے بھی واقف نہیں۔ فواد چوہدری کے بیان پر فردوس عاشق اعوان کا '' جواب آں غزل‘‘ بیان آچکا ۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے‘ انہیں عمران خان نے جتوایا ہے۔پارٹی معاملات میڈیا پر لانا نہیں چاہتی... وزیر کی اصل اتھارٹی اہلیت اور صلاحیت سے ہوتی ہے ‘جبکہ زلفی بخاری بھی ''غیر منتخب کلب‘‘ کی ترجمانی میں پیچھے نہیں رہے... کہتے ہیں‘ فواد چوہدری لیبارٹری میں مصروف اور حکومتی فیصلوں سے لاعلم ہیں... مزید کہتے ہیں‘ جو کونسلر نہیں بن سکتے ‘وہ اسمبلیوں میں جا بیٹھے ہیں۔ زلفی بخاری کا یہ بیان بھی احساسِ تفاخر سے لبالب نظر آتا ہے۔ وہ اس احساس سے ہی پھولے نہیں سما رہے کہ ''غیر منتخب کلب‘‘ ووٹ لے کر آنے والوں پر غالب اور حاوی ہے۔ زلفی بخاری کی تقرری کے لیے حکومت کو کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑے؟ اسی طرح نعیم الحق بھی خود کو ''برحق‘‘ثابت کرنے کے لیے کئی بار حکومت کو دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کر چکے ہیں۔ خیر یہ محلاتی سازشیں تو ہر دور میں ہوتی ہیں۔ شہر اقتدار کی بڑی بڑی شاہراہوں سے لے کر گلی کوچوں اور کونوں کھدروں تک یہ محلاتی سازشیں جابجا اور ہرسو نظر آتی ہیں۔ ایسے ایسے انوکھے فیصلے حکمرانوں سے باآسانی کروا لیے جاتے ہیں کہ عمومی سمجھ بوجھ رکھنے والا آدمی بھی سٹپٹا کے رہ جائے‘ لیکن فیصلے کروانے والے بھی مہا کلاکارہوتے ہیں‘ وہ حکمرانوں کو سمجھ ہی نہیں آنے دیتے کہ آج کے اس فیصلے کی قیمت بھی کل خودانہیں ہی ادا کرنا پڑے گی۔
ایک تازہ ترین اور نمونے کا فیصلہ‘ جس نے حکومتی میرٹ اور گورننس کو مزید چار چاند لگا کر کپتان کے دعووں اور وعدوں پر کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دئیے ہیں۔ وزیر مملکت زرتاج گل کی بہن کو نیکٹا کا ڈائریکٹر لگا دیا گیا ہے۔ ہے ناں ‘کمال مہارت ان چیمپئنز کا... جو روزِ اوّل سے ہی ایسے فیصلے کروانے میں کامیاب ہیں‘ جن کی توجیہہ اور وضاحت کسی کے پاس نہیں... پی ٹی وی سے لے کر نیکٹا تک ایک طویل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے... جن فیصلوں کی قیمت نہیں خمیازہ ہوتا ہے۔
قارئین گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران چند منتخب خبروں پر مبنی منظرنامہ کی ایک جھلک پیشِ خدمت ہے۔ایک دن کی چند خبروں نے ہی کالم کا کوٹہ پورا کر ڈالا ہے‘ جبکہ دیگر اہم خبریں بھی اسی توجہ اور شاملِ اشاعت ہونے کے لیے بے تاب ہیں۔ ایک اور ایسی خبر شیئر کرنا ضروری اور مجبوری ہے‘ جس نے ناصرف ہوش اُڑا دئیے ‘بلکہ یہ خبر دل میں ایک پھانس کی طرح چبھ کر رہ گئی ہے۔ بیت المال کے مرکزی ایم ڈی عون عباس بپی کی عدم توجہ کی وجہ سے میلسی کے ایک محنت کش کا تھیلیسیمیا کا شکار چوتھا اور جواں سال بچہ بھی زندگی کی بازی ہار گیا‘ جس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ میلسی کے نواحی گاؤں کے رہائشی محنت کش خاندان کے گھر محمد عثمان سمیت چار بچے تھیلیسیمیا کا شکار پیدا ہوئے۔ عثمان نے اپنے دو بھائیوں اور ایک بہن کی موت کے بعد جینے کی تمنا کی اور تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کے لیے جدوجہد کا فیصلہ کیا۔ مسلسل علاج معالجہ پر زندہ رہنے والے محمد عثمان نے اپنے والدین کا ہاتھ بٹانے کے لیے ریڑھی لگا کر محنت مزدوری بھی کی اور تحصیل بھر میں تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا بھی کیا۔ ایک سماجی شخصیت کی معاونت سے پرائیویٹ شعبے میں تھیلیسیمیا کے سینٹر کا قیام بھی ممکن بنا دیا۔ یہاں تھیلیسیمیا کے 105مریض بچے رجسٹرڈ ہیں۔ چند ماہ قبل بیت المال کے مرکزی ایم ڈی میلسی آئے اور بیت المال کے فنڈ سے ان مستحق مریض بچوں کے علاج معالجہ کا اعلان کیا‘ جو محض ایک اعلان ہی ثابت ہوا۔ ایم ڈی بیت المال نے ان مریض بچوں کے لیے ایک روپے کی بھی مالی امداد فراہم نہ کی ‘ اس تحصیل کے مریض بچوں کی حالت غیر ہو چکی ‘ جبکہ تھیلیسیمیا کا مریض اور سالارِ کارواں محمد عثمان اسی جدوجہد میں زندگی کی بازی ہار گیا۔ کیا ایم ڈی بیت المال اس تلخ حقیقت سے واقف نہیں کہ ہرپندرہ دِن بعد تھیلیسیمیا کے مریض کو انتقالِ خون اور دیگر علاج معالجہ نہ کیا جائے‘ تو اس کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے‘ تو پھر وہ ان بچوں سے جھوٹا وعدہ کیوں کیا گیا؟شاید و ہ اسی قسم کے وعدوں کے عادی ہیں۔ حال ہی میں گورنر پنجاب اور صوبائی وزیر صحت کی موجودگی میں تھیلیسیمیا کی ایک فیڈریشن کی تقریب میں جوش خطابت سے جو وعدے کر گئے تھے‘ وہ بھی آج تک پورے نہیں ہو سکے۔
لمحہ لمحہ اور قطرہ قطرہ اپنی موت کی آہٹ محسوس کرنے والے تھیلیسیمیا کے یہ مریض بچے کس کا گریبان پکڑیں؟ سیاست اور ریاست میں الجھے ہوئے حکمرانوں کا؟ یا چیئرمین بیت المال کا؟اس کا جواب نہ تو منتخب حکمرانوں کے پاس ہے اور نہ ہی غیر منتخب رفقا و مصاحبین کے پاس... مرنے والا تو مر گیا ‘جبکہ دیگر متاثرہ بچے اپنی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی اپنی موت کی ہر آہٹ پر لمحہ لمحہ مرنے پر مجبور ہیں۔
آخر میں وزیر صحت پنجاب محترمہ ڈاکٹر یاسمین راشد کی کارکردگی کا ذکر بھی ضروری ہے... پولیو کا مرض صوبائی دارالحکومت سمیت دیگر شہروں میں وبائی صورت اختیار کر چکا ہے ‘لیکن وزیر صاحبہ نہ جانے کہاں اور کن کاموں میں مگن ہیں؟ جبکہ صوبے بھر میں صحتِ عامہ کی صورتحال پہلے ہی ناقابلِ بیان اور مایوس کن ہے... ایسے میں بے وسیلہ اور بیچارے عوام علاج معالجے کے لیے کہاں جائیں؟ یا پھر تھیلیسیمیا کے ان بچوں کی طرح اپنی موت کی آہٹ کا انتظار کریں۔