تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     03-06-2019

ہم تسلیم کیوں نہیں کرلیتے؟

آخر ہم تسلیم کیوں نہیں لیتے کہ اب ہمارے سدھرنے کی بظاہر تو کوئی گنجائش نہیں رہی۔خوش فہمیوں کی شکار قوم‘ جسے ہمیشہ اپنے بارے میں اچھا اچھا بیان کرنا‘ اچھا اچھا گمان کرنا بھلا محسوس ہوتا ہے اور پھر دوسروں سے بھی یہی توقع رکھنا کہ وہ ہمارے جھوٹ کو بھی سچ تسلیم کرلیں۔ آخر ہم کیوں تسلیم نہیں کرلیتے کہ ہم سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی حقیقت کو جھٹلانے کے عادی ہوچکے ہیں ۔ آخر کیا امر مانع ہے کہ ہم اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے‘ ہروقت ہم زندہ قوم ہیں‘ پائندہ قوم ہیں‘ کے نعرے لگاتے رہتے ہیں۔ کوئی انصاف نہ کھانے کو روٹی‘ کوئی اخلاقیات نہ قانون کی پاسداری‘ لیکن نعرے اتنے بڑے بڑے کہ سن کر شرم آئے کہ آخر جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ہمارے بچے بچیاں ‘ ہمارے ہی ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں کہ ہرروز فرشتہ جیسی کسی نہ کسی بچی کا قتل پرانے زخموں کو پھر سے تازہ کردیتا ہے۔ اُف میرے خدا ! جب سے فرشتہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ پڑھی ہے‘ تب سے جیسے اندر ہی اندر کچھ ٹوٹتا جارہاہے۔ بچیاں تو ایک طرف رہیں‘ ہمارے بچے کب ہمارے ہی ہاتھوں محفوظ ہیں ۔ بچوں سے بد اخلاقی‘ ہمارے معاشرے کا ایسا پہلو‘ جسے ہر کوئی چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسا گند‘ جسے ہمیشہ قالین کے نیچے دھکیل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ موت ہی کیوں نہیں آجاتی کہ جہاں دودوسال کی بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہورہے ہوں ۔ایک این جی او کی رپورٹ میرے سامنے ہے کہ گزشتہ سال کم از کم 3ہزار 8سو بچوں کو کسی نہ کسی صورت میں بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا‘ جو 2017ء میں پیش آنے والے واقعات کی نسبت گیارہ فیصد زیادہ رہے۔بعض بچوں کو زندہ چھوڑ دیا گیا کہ جاؤ اور تمام عمر اس صدمے کو محسوس کرتے رہو ‘ اُن کے والدین کو جیتے جی مار ڈالا گیا کہ جو ہمیشہ اِس دکھ کو ساتھ لے کر ہی جئیں گے کہ آخر اُن کے بچے یا بچی کے ساتھ ہی یہ سلوک کیوں ہوا؟متعدد کو پہچانے جانے کے ڈر سے مار کر پھینک دیا گیا۔ آخریہ ہمیں کیا ہوتا جارہا ہے کہ ہم اپنے ہی بچوں کو بے عزت کرنے پر تل گئے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ بیشتر کیسز میں اپنے قریبی ہی ملوث نکلے‘وہ جن پر بچوں کے والدین نے اعتبار کیا ‘ اعتماد کیا کہ وہ ان کے بچوں کی بہتر دیکھ بھال کریں گے‘ لیکن وہ خود ہی بھیڑئیے نکلے۔اللہ کا واسطہ ہے کہ اپنے بچوں کی خود حفاظت کیجئے ۔ اِن کے حوالے سے کسی پر یقین مت کیجئے ‘ شاید قانون پر نہیں کہ جس کی بالادستی کا دور دورتک کوئی نام و نشان دکھائی نہیں دیتا۔
آخر ہم تسلیم کیوں نہیں کرلیتے کہ ہمارے کبھی انصاف کا بول بالا نہیں ہوسکتا۔ کہنے کو ہمیشہ یہی نعرہ لگایا اور سنایا جاتا ہے کہ جن معاشروں میں انصاف نہیں ہوتا‘ وہ معاشرے ختم ہوجاتے ہیں۔ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے ‘ وغیرہ وغیرہ ۔ ہمارے ملک میں انصاف کا کبھی بھی بول بالا نہیں ہوسکا ‘پھربھی یہ چل رہا ہے۔ثابت ہوا کہ انصاف ہو یا نہ ہو ‘ زندگی چلتی ہی رہتی ہے‘ فرق صرف یہ پڑتا ہے کہ جن معاشروں میں انصاف ملتا ہے‘ وہاں دنیا میں ہی جنت ہوتی ہے اور جہاں بے انصافی کا بول بالا ہوتا ہے‘ وہاں دنیا میں ہی جہنم کے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تو کیا ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم جو دن رات روتے دھوتے رہتے ہیں‘ اُس کی بڑی وجہ انصاف کا نہ ہونا ہے۔ زندگی چل تو رہی ہے‘ لیکن بہت بھیانک طور سے۔ ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں کہ ہمارے ہاں کب انصاف کا بول بالا ہوگا ‘ کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو سرداریاں‘ تمن داریاں‘نمبرداریاں ‘ سب ختم ہوجائیں گے اور ایسا ہم ہونے نہیں دیں گے۔ انفرادی طور پر یا اداروں کی سطح پر‘ جس کے ہاتھ میں بھی طاقت ہے اور وہ اس کا بے دریغ استعمال بھی کرتا ہے‘ تو وہ کب چاہیں گے کہ اُن کی طاقت میں کمی واقع ہو۔ بے گناہوں کی زندگیاں قید میںگزر جاتی ہیں اور پھر معلوم پڑتا ہے کہ یہ تو بے گناہ تھا۔ ہم کیا اندھے اور بہرے ہیں‘جو ہمیں یہ تمام صورت حال دکھائی نہیں دیتی۔ سب کچھ معلوم ہے ہمیں‘ سب کچھ کرسکتے ہیںہم‘ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم کرنا ہی نہیں چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہیں اور ہماری جوتیاں کھاتے رہیں۔ یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب نا انصافی کا بول بالا ہوسو‘‘ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں‘اور جنتا ہی جارہا ہے۔ اس کے مقابلے میں انصاف کبھی صاحب اولاد ہوسکا‘ نہ شاید ہوسکے گا۔
اگر آپ برا نہ مانیں تو ہمیں اب رشوت کو بھی قانونی شکل دے دینی چاہیے ‘جو کمیشن کے نام پر تقریباً قانونی شکل اختیار کرہی چکی ‘تو کیوں نہ اسے باقاعدہ طور پر قانونی حیثیت دے دی جائے۔ اب یہ مثالیں مت دینا شروع کردیجئے گا کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہوتے ہیں۔ اس پر ہمارا یقین ہوتا تو کیا آج ہمارے ملک کا شمار دنیا کے بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں ہوتا۔ انتہائی نچلی سطح سے لے کر انتہائی بالائی سطح تک ‘ ہرجگہ جس دھڑلے سے رشوت وصول کی جاتی ہے تو پھر کیا امر مانع رہ جاتا ہے کہ اسے قانونی شکل نہ دی جائے۔یہ بھی شاید رشوت کا ہی اثر ہے کہ اب ہمارے بچے بھی ہمارے ہاتھوں سے پھسلتے چلے جارہے ہیں۔ایک وقت وہ تھا‘ جب والدین جوان اولاد کو بھی مارپیٹ لیتے تھے اور وہ مارکھا بھی لیتے تھے۔ کل کی بات ہے جب اپنے والد صاحب کا ہاتھ پکڑ کر پہلی جماعت میں داخلے کے لیے ماسٹر طالب صاحب کے روبرو پیش ہوا۔دراز قد‘ لیکن دبلے پتلے سے ماسٹر جی نے سر سے پاؤں تک بغور جائزہ لیا ۔ والد صاحب کہنے لگے کہ آج توں منڈے دا گوشت تہاڈا تے ہڈیاں ساڈیاں۔مطلب یہ کہ لڑکا پڑھنا چاہیے‘ چاہے اس کے لیے اس گوشت بھی اُدھیڑنا پڑے۔ وہ تو اللہ کا شکر ہوا کہ ایسی نوبت ہی نہیں آئی اور پرائمری کا مرحلہ بخیروخوبی گزر گیا۔بعد میں اچھا برا کام چلتا ہی رہا‘ لیکن یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کسی طالب علم نے اُستاد سے بدتمیزی کی ہو۔ رات نوبجے کا خبرنامہ ہوتا تھا اور گھر کی تمام لائٹس آف‘نیند آئے یا نہ آئے ۔کروٹیں بدلتے رہو‘ لیکن آنکھیں نہیں کھولنی۔ یہ صحیح ہے کہ ہمیشہ وقت ایک سا نہیں رہتا ‘لیکن کم از کم اچھی باتوں کو تو ساتھ لے کر چلنا ہی چاہیے۔درجنوں چینلز پر چلنے والے ڈراموں میں سے بیشتر میں جو درس دیا جارہا ہے‘وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ بیٹی ‘ باپ کے سامنے تن کر کھڑی ہوتی ہے اور بلند آواز میں چلا رہی ہوتی ہے کہ پاپا آپ کو اس معاملے میں دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘ اپنا اچھا برا میں خود سمجھتی ہوں۔ بچے یہ سب دیکھتے ہیں‘ کھلکھلا کر ہنستے ہیں‘ لیکن ذہنوں میں کیا لے کر اُٹھتے ہوں گے‘ یہ وہی بہتر جانتے ہیں کہ ہم تو صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔
تسلیم کرلیجئے کہ ہرگزرنے والے دن کے ساتھ پستی کی طرف ہمارا سفر تیز تر ہوتا جارہا ہے۔یہ مزید تیز ہوتا چلا جائے گا؛ اگر ہم نے حقیقت سے نظریں چرانا نہ سیکھا۔خوش فہمیوں سے نکل کر حقیقت کو جاننے کی کوشش کرنی چاہیے ‘ ورنہ خوش فہمیوں کا شکار ہوکر ہم آدھا ملک تو گنوا ہی چکے ہیں اوراب ایک مرتبہ پھر جو آوازیں اُٹھنا شروع ہوچکی ہیں‘ تو اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنا رحم فرمائیں۔(آمین)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved