ہماری تینوں بڑی پارٹیاں اس کنجوس سیٹھ کی طرح ہیں جس سے کچھ لوگ یہ کہہ کر چندہ مانگنے گئے تھے کہ ہم ایک نیک مقصد کے منصوبے پر عمل کررہے ہیں، اس لیے ہمیں چندہ دیا جائے، جس پر سیٹھ نے کہا، میرا باپ ضعیف اور بیمار ہے، کیا اس کی خدمت کرنا نیک کام نہیں ؟انہوں نے جواب دیا، یقینا یہ ایک بہت نیک کام ہے۔ پھر سیٹھ بولا کہ میری ایک بیوہ بہن ہے۔ کیا اسے سہولیات بہم پہنچانا اور اس کے بچوں کے تعلیمی اور دیگر اخراجات اٹھانا نیک عمل نہیں؟ اس پر چندہ مانگنے والوں نے کہا کہ بیشک یہ بہت نیک عمل ہے۔ اس کے بعد سیٹھ نے کہا کہ میری ایک بیٹی معذور ہے ، کیا اس کی ضروریات کا خیال رکھنا نیک کام نہیں ؟ انہوں نے کہا، یقینا یہ بھی بہت نیک کام ہے تو سیٹھ نے کہا کہ میں جو یہ سب کام نہیں کرتا تو تمہیں چندہ کس خوشی میں دوں ؟یہ سب معززین ان عوام سے ووٹ کا چندہ مانگ رہے ہیں جن کے لیے نہ صرف یہ کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا بلکہ ان کے مسائل میں گونا گوں اضافے کرکے ان کی زندگی موت سے بدتر کررکھی ہے کہ یہ پارٹیاں کئی بار اقتدار کے مزے لوٹ چکی ہیں اور جوخون ان کے منہ کو لگ چکا ہے وہ انہیں چین سے بیٹھنے ہی نہیں دے رہا۔ میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ عمران خان خود فرشتہ ہے یا اس کی جماعت میں اولیاء اللہ ہی بھرے ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ نظام ہی ایسا ہے کہ اس میں عوام کی مصیبتیں رفع کرنے کا رواج ہی نہیں رہ گیا اور دوسرے کچھ ایسی ظاہری اور مخفی طاقتیں ملک میں برسرکار ہیں جن کا مطمح نظر محض سٹیٹس کو ہے اور اگر حکمران صاف نیت سے کام کرنا بھی چاہیں تو ان کے خلاف سازشوں کا جال پہلے دن سے ہی بننا شروع کردیا جاتا ہے اور آخر انہیں میدان سے بھاگنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ حکومتیں بھی اب اس راز کو اچھی طرح سمجھ گئی ہیں اور اسے ایک مجبوری جانتے ہوئے اس شیطانی چکر کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جن نعروں کی طلسم کاری کے ذریعے انہوں نے انتخابات جیتے تھے، بالآخر وہ طاقِ نسیاں کی زینت بنادیئے گئے اور مرحوم انہی ٹوانوں، قریشیوں، کھوسوں، نوابزادوں اور مخدوم زادوں کے گھیرے میں جاکر بیٹھ گئے جن سے گلوخلاصی کا انہوں نے نعرہ لگایا تھا اور آخر کہنا پڑا ؎ ہم نے جدوجہد کرنا تھی ظفرؔجن کے خلاف وہ سبھی آکر ہماری صف میں شامل ہوگئے حتیٰ کہ ایک نظریاتی اور انقلابی پارٹی اپنے نعروں سے دست بردار ہوکر دوسروں ہی جیسی ہوگئی اور جنہوں نے پارٹی کو ایک زبردست منشور تیار کرکے دیا تھا انہیں یا تو پارٹی سے مکھن سے بال کی طرح نکال باہر کیا گیا یا وہ رفتہ رفتہ خود ہی سابقین میں شمار ہونے لگے یعنی ؎ کچھ ہوئے باغی یہاں ، کچھ لوگ بیدل ہوگئے اور کچھ شائستہ معیارِ محفل ہوگئے البتہ بھٹو نے عام آدمی کو اس کی عزت اور اہمیت کا جواحساس دلایا تھا، اس کا وہ کرشمہ خاصی حدتک اب بھی قائم ہے ۔چنانچہ عمران خان نے تبدیلی کا جو شگوفہ چھوڑا ہے وہ اس جادو سے کچھ زیادہ مختلف نہیں جو بھٹو نے ساری قوم پر ایک بار کرکے دکھا دیا تھا۔ اس لیے اگر خاطر خواہ تبدیلی نہیں بھی آتی تو اس کی بنیادضرور رکھ دی گئی ہے اور اس سے دامن چھڑانا بھی اتنا ہی مشکل ہوگا جتنا کہ بھٹو کے سحر کو توڑنا تھا کہ یہ اب لوگوں کے لہو میں داخل ہوچکا ہے۔ فرض کیجیے عمران خان اقتدار میں نہیں آتے اور آکر بھی عوام کے لیے کچھ نہیں کرتے تو اس صورت میں تبدیلی کا سلوگن زیادہ جاندار ہوکر اُبھرے گا۔ بھٹو کے برعکس ، عمران خان کسی طلسماتی شخصیت کے بھی حامل نہیں ہیں اور نہ ہی تحریکِ انصاف کے امیدوار کسی خصوصی شناخت یا اہمیت کے حامل ہیں ، لیکن ہم سب نے دیکھا کہ نہایت قلیل عرصے میں اس کی پارٹی، خصوصاً پنجاب میں، صفر سے شروع ہوکر یہاں کی اُس سب سے بڑی پارٹی کی ابھی سے ہم پلہ ہوچکی ہے جسے کچھ عرصہ پہلے یہ گمان بلکہ یقین تھا کہ وہ کلین سویپ کرنے والی ہے اور یہ سلسلہ نامحسوس طورپر آگے بڑھ رہا ہے اور وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کی یہ بات پھینکنے کے قابل نہیں کہ انتخابات کے نتائج دیکھ کر کچھ لوگ سرپکڑ کر بیٹھ جائیں گے اور کچھ روئیں گے ! چنانچہ فارسی کا یہ قول کہ ’آزمودہ را آزمودن جہل است‘ جتنا اب سچ ہونے جارہا ہے اس کا اندازہ ابھی لوگوں کو اُس طرح نہیں ہے جس طرح الیکشن 70ء سے پہلے پیپلزپارٹی کے حوالے سے نہیں تھا ۔ لوگ اب سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ انتخاب ایک ایسا موقعہ ہے جس پر وہ اپنی قسمت آپ بدل سکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اپنی قسمت تبدیل کرنے کی جتنی ضرورت عوام الناس کو آج ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھی اور بعض معاملات اور لحاظ سے ایسا ماحول بن چکا ہے جو بھٹو کی حیران کن کامیابی کا باعث بناتھا۔ بیشک اسے بھیڑ چال کہہ لیں لیکن ایک ہوا ہے جو چل جایا کرتی ہے اور جس کے بارے میں کوئی ٹھوس پیش گوئی بھی نہیں کی جاسکتی۔ عمران خان میرا رشتے دار نہیں ہے اور نواز شریف سے میری کوئی دشمنی نہیں لیکن تبدیلی اگر آنی ہے تو زیادہ تر اسی حوالے سے آنی ہے جسے خوش آمدید کہنے والوں میں میں بھی شامل ہوں گا۔ اصول تو یہ ہے کہ نوکر بھی اگر صحیح کام نہیں کرتا تو اسے فوراً تبدیل کیا جاسکتا ہے، اسی طرح انتخابات بھی ایک ایسا ہی موقعہ فراہم کرتے ہیں جب ناکام اور ناپسندیدہ حکمرانوں کو تبدیل کردینا عوام کے اپنے بس کی بات ہوتی ہے۔ تاہم مسئلہ میرا بھی تبدیلی ہے اور اگر نواز شریف اسے رُوبراہ کرسکتے ہوں تو سات بسم اللہ کہ اس کی اہمیت اور ضرورت کو اب وہ بھی اچھی طرح جان اور سمجھ چکے ہیں کہ سٹیٹس کو اب زیادہ دیر برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ تبدیلی کی اس تحریک سے عوام میں ایک زبردست خوداعتمادی بھی پیدا ہوگی، یعنی اگر عمران خان ان کی توقعات پر پورا نہیں اترتے تو انہیں یقین ہوگا کہ ان کی بھی چھٹی کرائی جاسکتی ہے یعنی ایک ایسا موسم اس ملک پر چھا سکتا ہے کہ لوگ آہستہ آہستہ اپنی تقدیر کے مالک آپ بن جائیں اور یہی وہ طاقت ہوگی جوان مخالف طاقتوں کو پسپائی پر مجبور کردے گی اور جس کی ابتدا ہوبھی چکی ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن بظاہر لاکھ کمزور سہی، لیکن عدلیہ، میڈیا اورخود سول سوسائٹی اتنی طاقت حاصل کرچکے ہیں کہ عوام کی اس طاقت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ آج کوئی امیداگر ہوسکتی ہے تو اس کی علامت عمران خان ہی ہیں اور عمران خان سمیت الیکشن کے نتائج سے بہت سے لوگ بہت سے سبق سیکھیں گے بشرطیکہ انتخابات کو ہونے دیا گیا اور طالبان یا کسی بھی اور بہانے سے انہیں یرغمال بنانے کی کوشش نہ کی گئی کیونکہ ہماری اپنی کمزوریاں بھی اس کے سدراہ ہوسکتی ہیں اور الیکشن اگر ہوگئے تو ایسی ساری کمزوریاں بھی دور ہوجائیں گی ۔ چنانچہ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں متضاد طاقتوں میں سے کامیاب کون ہوتا ہے ! یعنی ملک کی قسمت یاوری کرتی ہے یا بدقسمتی اپنے پنجے گاڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے !! آج کا مقطع ایسا ہی خوش خرامِ خزاں تھا کوئی، ظفرؔ گلشن میں آب و رنگ نہ تھا، انتظار تھا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved