تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     04-06-2019

تلی میں آیا‘گلی میں کھایا

اس بار عید امریکہ میں ہوگی۔ دو مرتبہ حج کے علاوہ پہلی بار عید ملتان میں نہیں کر سکوں گا۔ عید کا ملتان میں اپنا مزہ ہے؛ حالانکہ اب کوئی خاص بات نہیں رہی۔ صبح اٹھتا ہوں‘ اسد کو اٹھاتا ہوں۔ ہم دونوں نہا کر تیار ہوتے ہیں اور اسی دوران جہانزیب اور اورنگ زیب آ جاتے ہیں۔ یہ دونوں میرے مرحوم بھائی کے بیٹے ہیں۔ ہم چاروں عید نماز پر چلے جاتے ہیں۔ واپسی پر گھر آ کر دودھ میں پھینیاں ڈال کر ''سویاں والی عید‘‘ پر سویاں کھانے کی روایت نبھاتے ہیں اور بس! اس بار یہ بھی نہ ہوگا۔ دونوں بھتیجے اکیلے نمازِ عید ادا کریں گے۔ اسد خانیوال ننھیال میں عید منائے گا اور میں ٹولیڈو میں ''کوچو‘‘ کے ساتھ۔ یہ میری سفیان اورضوریز کے ساتھ پہلی عید ہوگی۔
ائیر پورٹ پر بیگ جب سکینر سے گزرا تو مانیٹرنگ سکرین کے سامنے بیٹھی ہوئی خاتون نے بیگ کے اندر والی چیزوں کو بڑی حیرانی سے دیکھا۔ بیگ کو ایک بار روکا‘ پھر پیچھے کیا اور دوبارہ سکین کیا۔ اس کے چہرے پر اب بھی حیرانی کے آثار تھے۔ اسے غالباً بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بیگ کے اندر یہ کیا ''الم غلم‘‘ بھرا ہوا ہے۔ اس کی حیرانی بجا بھی تھی۔ بھلا ‘اس نے اس سے پہلے اس قسم کی چیزوں سے بھرا ہوا پورا بیگ کب دیکھا ہوگا؟ آپ امریکہ صرف دو بیگ لے جا سکتے ہیں۔ کسی زمانے میں ان دو بیگز کا وزن جتنا بھی ہو جائے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ لوگوں نے امریکہ سے آنے اور جانے کے لیے خاص طورپر جہازی سائز بیگز رکھے ہوئے تھے‘ لیکن اب دو بیگ ہی لانے لیجانے کی اجازت ہے ‘مگر وزن کی پابندی لگا دی گئی ہے۔ بیگ کا وزن 23کلو گرام سے زائد نہیں ہونا چاہیے‘ یعنی کل چھیالیس کلو گرام۔ اس والے بیگ کا وزن بائیس کلو تھا۔ اس میں جو چیزیں تھیں‘ ان کا سن کر سب ہنس پڑتے ہیں۔ سکینر پر بیٹھی ہوئی خاتون کا ردعمل بھی ایسا ہی تھا۔ پوچھنے لگی: یہ کیا چیزیں ہیں؟ میں نے کہا: یہ بچوں کی کھانے والی جیلی کے پیکٹ ہیں۔ ''کوکومو‘‘ ہیں۔ اس نے پوچھا یہ کوکومو کیا ہوتے ہیں؟ میں نے کہا :چھوٹے چھوٹے بٹن جیسے بسکٹ ہیں‘ جن کے اندر چاکلیٹ بھری ہوئی ہوتی ہے۔ نوڈلز کے دس درجن پیکٹ ہیں۔ مجھے تو شبہ پیدا ہو چلا تھا کہ وہ کہیں بیگ کو کھلوا کر ہی چیکنگ نہ شروع کر دے ‘مگر خیریت ہوئی۔یہ چیزیں کوچو کی فرمائش پر امریکہ لے جائی جا رہی تھیں۔ اسے سکول میں جیلی ملتی تھی‘ مگر اسے ایک بار بتایا گیا کہ یہ والی جیلی اس کے کھانے کی نہیں۔ اس میں حرام جیلاٹین ہوتی ہے‘ وہ ابھی چار سال کا ہے اور اسے حرام کا پورا تصور معلوم نہیں‘ مگر اسے یہ پتا ہے کہ اس نے سکول والی جیلی نہیں کھانی۔ سکول والوں کو بھی بتا دیا گیا ہوا ہے کہ اسے جیلی سویٹ نہیں دینی۔ سکول والے بھی اس ہدایت کی مکمل پاسداری کرتے ہیں‘ مگر بچے کا دل تو ایسی چیزیں کھانے کو کرتا ہے‘ لہٰذا اس نے مجھے فون پر بتایا کہ ''بڑے بابا‘‘ آپ نے میرے لیے پاکستان سے جیلز لانی ہیں‘ ڈھیر ساری!۔ 
دوسرے بیگ میں بیٹی کے چیزیں ہیں اور دونوں بچوں کے لیے عید گفٹ کے پیکٹ ہیں۔ خوبصورت گتے کے ڈبوں میں ان کے عید کے گفٹ ہیں ‘جو ان کی دونوں خالاؤں نے رات بھر لگا کر بنائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو پتا چلنا چاہیے کہ عید کیا ہوتی ہے اور عید پر تحفے کی روایت سے ان کا آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ انعم نے تاکید کی کہ عیدی کی رقم ان کی ماں کے ہاتھ میں دینے کی بجائے براہ راست دونوں بچوں کے ہاتھ پر رکھی جائے‘ تاکہ انہیں یہ بھی علم ہو سکے کہ عید پر عیدی ملنا کیسے مزے کی بات ہوتی ہے۔ ابھی ان کو پیسے خرچ کرنے کا خود سے پتا نہیں ‘مگر ''عیدی‘‘ سے آگاہی بہرحال بہت ضروری ہے۔کومل تب بالکل چھوٹی سی تھی اور ہم عثمان آباد میں رہتے تھے۔ ابا جی مرحوم ہم سب کو عیدی دیا کرتے تھے۔ کومل کو بھی عیدی ملا کرتی تھی‘ مگر اسے تب پیسوں کی اہمیت یا استعمال کا شعور نہ تھا۔ وہ پہلی عیدی تھی‘ جب اسے ہاتھ میں آنے والے عیدی کی رقم کی اہمیت کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہو چکا تھا۔ یہ پچاس روپے تھے۔ دس دس روپے کے پانچ نئے اور کڑکڑاتے ہوئے نوٹ۔ 
یہ 1992ء یا 1993ء کا ذکر ہے۔ پچاس روپے بھی اچھی معقول رقم ہوتی تھی۔ کومل نے چار چھ دن ان پچاس روپوں سے مزے کیے جب ختم ہو گئے تو صبح ہی صبح دادا کے پاس گئی اور کہنے لگی: دادا! عیدی دیں۔ سب کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔ اب بھی اسے ہم چھیڑتے ہیں کہ وہ کس طرح عیدی وصول کرنے دادا کے پاس پہنچ گئی تھی۔ عید پر اگر یہ سب کچھ نہ ہو تو بھلا وہ بھی کوئی عید ہے؟ اور عید تو ایمانداری کی بات ہے بچوں کی ہی ہوتی ہے۔ بڑے ہو کر تو بندہ عید بھگتاتا ہے۔ مناتا وہ صرف بچپن میں ہے۔ جیسی ہم نے منائی تھی اور اب میری خواہش ہے کہ بچے عید منائیں۔ ہمارے بچپن جیسی نہ سہی‘ مگر اس کا عکس تو اس میں نظر آئے۔
تھوڑے دن پہلے گھر میں ملتان کے ہوٹلوں اور ریستورانوں کی بات ہو رہی تھی۔ میں نے بچوں کو بتایا کہ میں نے پہلی بار ''چکن کارن سوپ‘‘ کراچی میں طارق روڈ کے ایک چائینز ریسٹورنٹ میں پیا تھا۔ انعم نے پوچھا آپ کی عمر کتنی ہوگی؟ میں نے کہا: اچھی طرح تو یاد نہیں‘ لیکن چودہ پندرہ سال سے کیا کم ہوگی۔ ملتان میں ہمیں عیاشی تب نصیب ہوئی جب ہم شنگریلا ریسٹورنٹ میں جانے کے قابل ہوئے۔ اس نے سوال کیا اس سے پہلے آپ نے کبھی کوئی سوپ نہیں پیا تھا؟ میں نے ہنس کر کہا: کیوں نہیں پیا تھا۔ ہم بالکل چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے جب ہم ''رائس سوپ‘‘ پیا کرتے تھے۔ انعم نے حیرانی سے پوچھا یہ رائس سوپ کیا ہوتا ہے؟ ہم نے تو کبھی نہیں پیا۔ میں نے کہا یہ چاولوں کی پیچ ہوتی تھی‘ جسے ہم ''پچھ‘‘ کہتے تھے۔ وہ پوچھنے لگی :یہ کیا ہوتی ہے؟ میں نے کہا :جب چاول ابالے جاتے تھے تو جس پانی میں وہ ابالے جاتے تھے‘ وہ پانی ''پیچ‘‘ کہلاتا ہے۔ ہم بھائی بہن چاولوں کے پکنے کے ساتھ ہی اپنا اپنا پیالہ لے کر بیٹھ جاتے تھے اور چاول جب چھلنی میں چھانے جاتے تو ان کا پانی آج کل کی طرح سنک میں نہیں بہا دیا جاتا تھا‘ بلکہ چھلنی کے نیچے ایک اور دیگچی رکھی جاتی تھی اور ابلے چاولوں کا پانی اس دیگچی میں اکٹھا کیا جاتا تھا۔ یہ گاڑھا دودھیا پانی ہمارا سوپ ہوتا تھا۔ ہم اس میں تھوڑا سا نمک اور کالی مرچ ملا کر گرم گرم کو ''سڑکے‘‘ مار کر پیا کرتے تھے۔ انعم کا سارا رومانس رخصت ہو گیا۔میں نے اس کا بنا ہوا منہ دیکھ کر اسے بتایا کہ یہ بڑی عیاشی ہوتی تھی اور خاص طور پر سردیوں میں یہ پیچ بڑا مقبول سوپ ہوتا تھا۔ اب تو ایک عرصہ ہو گیا اس کا نام سنے۔ آج اچانک عشروں بعد یاد آ گیا۔ کیا کیا چیزیں تھیں‘ جو اب خواب و خیال ہو گئی ہیں۔
گھر میں جب پھول گوبھی کٹتی تھی تو اس کا نیچے والا ڈنٹھل بڑا مقبول آئٹم ہوتا تھا۔ ہم اسے چھیل کر درمیان سے گری نکالتے تھے اور مزے لے لے کر کھاتے تھے۔ یہ سوغات جو بھی پہلے جھپٹ لیتا اسی کی ہوتی تھی۔ انعم نہایت حیرانی سے مجھے دیکھ رہی تھی کہ میں یہ کس زمانے کی اور کس قسم کی باتیں کر رہا ہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ عید والے دن علی الصبح اٹھا جانا تھا۔ کوئی بچہ خواہ لڑکا ہو یا لڑکی اس قانون کی پاسداری کرتا تھا اور بھلا کیسے نہ کرتا؟ یہ قانون بڑا سخت تھا اور کسی کو اس سے استثنیٰ نہ تھا۔ عید نماز کے فوراً بعد ہم سب بچے عیدی کی وصولی کیلئے ہر اس جگہ جاتے تھے‘ جہاں سے عیدی کی وصولی کا امکان ہوتا تھا۔ آپ کی طرح ہزار پانچ سو کی عیدی کا تو وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی عیدی کی رقم اس حد تک پہنچ جائے گی۔ ایک دو روپے سے حد پانچ روپے تک عیدی ملتی تھی؛ البتہ اباجی سے دس بیس روپے اور ماں جی سے بھی اتنے ہی پیسے مل جاتے تھے ‘مگر ہم اتنے پیسوں میں عید کو اتنا انجوائے کرتے تھے کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
عیدی بچانے کا تو تصور بھی نہیں تھا۔ کبھی یہ نہیں سنا تھا اس بار عید پر اتنے پیسے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ہم لوگ عید پر خرچ گئے پیسوں سے حساب لگاتے تھے کہ اس بار کتنی عیدی وصول ہوئی ہے۔ عید کے چوتھے دن ہم مکمل طور پر ''پھوکٹ‘‘ ہو گئے ہوتے تھے۔ عیدی کی ''ذخیرہ اندوزی‘‘ کا کوئی تصور نہ تھا۔ اصلی عید وہ تھی‘ جوہم نے منائی تھی۔ عید کا موٹو ہوتا تھا ''تلی میں آیا‘ گلی میں کھایا‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved