تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     04-06-2019

خونِ خاک نشیناں کی ارزانی

دنیا میں 180 سے زیادہ ممالک ہیں مگر غالباً ایک بھی ایسا ملک نہیں‘ جس میں خون خاک نشیناں تاریخ کے کسی نہ کسی مرحلے پر نہ بہا ہو اور وہ بھی فراونی سے۔ جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں تو تین افریقی ممالک (سوڈان‘ لبیا اور الجزائر) سے خونِ خاک نشیناں کے بہنے کی خبریں آرہی ہیں۔ یکم جنوری 1965ء کو ایوب خان دھاندلی سے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب میں شکست دے کر کامیاب ہوئے توگوہر ایوب کی زیر قیادت کراچی میں اس جعلی فتح کا جشن منانے کیلئے جلوس نکالا گیا‘ جب بانٹی جانے والی مٹھائی لینے کے شوق میں معصوم لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوا تو ان پر ٹرکوںمیں چھپے مسلح افراد نے گولیوں کی بارش کر دی۔ ہلاک ہو نے والے کی تعداد چاہے 14 ہو‘ قتل عام کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جنوری1965 ء کے سانحہ کراچی پر فیض صاحب نے کمال کی نظم لکھی۔ شہید ہو نے والوں کا رلا دینے والا نوحہ ۔نظم کا عنوان ہے: لہو کا سراغ ۔جناب فیض ؔصاحب کے تیسرے مجموعۂ کلام کی پہلی نظم ہے۔ کل اشعار سات ہیں‘ آپ آخری تین پڑھ لیں: ؎
نہ رزم گاہ میں برسا کے معتبر ہوتا
کسی علم پہ جو ہو کے مشتہرہوتا
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہرِسماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
میں نہیں جانتا کہ 13 اپریل کو سانحہ جلیانوالہ کی صد سالہ برسی کے موقع پر پاکستان میں کوئی کتاب شائع ہوئی یا نہیں‘ اگر اپنے وطن کے بارے میں میری ناواقفیت کا یہ عالم ہے تو آپ خود اندازہ لگا لیں کہ پڑوسی ملک (بھارت) کے بارے میں میری جہالت کا طول و عرض کیا ہوگا؟ مگر میں شکر کرتا ہوں کہ کئی پاکستانی اخباروں میں روشن دماغ اور تاریخی شعور رکھنے والے کالم نگاروں نے 13 اپریل1919ء کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں رونما ہونے والے سانحہ پر قلم اٹھایا اور خوشی کی بات ہے کہ انہوں نے موضوع کے ساتھ پورا انصاف کیا۔ میں پہلے بھی اس موضوع پر لکھ چکا ہوں اور مزید خامہ فرسائی کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا مگر گزرے ہوئے ہفتے مقامی بازار کی سیر رنگ لائی ۔ ایک مقناطیسی کشش مجھے کتابوں کی ایک دکان کی طرف لے گئی اور جہاں مجھے زیادہ تردد کئے بغیر نئی کتابوں کی شیلف پر جو کتابیں نظر آئیںان میں ایک کا نام ہے: Amritsar 1919: An Empire of Fear and the Making of a Massacre۔ امریکی مورخ اور مصنف کا نام ہے Kim Wagner اور ناشر کا نام ہے Yale یونیورسٹی پریس۔ 360 صفحات کی یہ کتاب معلومات سے بھری ہوئی ہے۔ کالم کی جگہ محدود ہے اس لئے باامر مجبوری تلخیص اور ترجمہ کا کام بیک وقت کیا جائے گا۔
دس اپریل1919ء کا دن‘ امرتسر کا شہر سامراج دشمن جذبات کی فراوانی سے آتش فشاں پہاڑ کی طرح دہک رہا تھا۔ نیشنل بینک کے انگریز منیجر اور اکائونٹینٹ کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد خنجر مار کر ہلاک کر دیا گیا اورپھر اُن کی لاشوں کو اسی بینک کے فرنیچر اور کاغذات کے ساتھ جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ الائنس بینک کے انگریز منیجر کے ساتھ بھی یہی کیا گیا۔ غیظ و غضب سے بپھرے ہوئے ہجوم نے اسے بالائی منزل کی کھڑکی سے نیچے پھینک دیا اور پھر اس کی مسخ شدہ لاش جلا دی‘ شہر کے وسط میں ملکہ وکٹوریہ کے بت کو توڑنے کی کوشش کی گئی‘ مگر مظاہرین نے توڑ پھوڑ کو ادھوارا چھوڑ دیا چونکہ انہیں کسی نے سمجھایا کہ وکٹوریہ کو اس کے جانشینوں کے ظالمانہ فیصلوں کا ذمہ دار کس طرح ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ مظاہرین سارا وقت گاندھی کی جے کا نعرہ لگارہے تھے۔ مہاتما گاندھی انہی دنوں زور و شور سے برطانوی مصنوعات کے بائیکاٹ ‘پرُ امن عدم تعاون اور عدم تشدد کا پرچار کر رہے تھے۔ یہ تھا؛ وہ پس منظر ‘ جس میں پانچ سے دس ہزار تک لوگ (مرد ‘عورتیں اور بچے) ایک ایسے باغ میں بیساکھی کا تہوار منانے کیلئے اکٹھے ہوئے ‘جس کے اردگرد چادر دیواری تھی۔ جنرل ڈائر کے حکم پر برٹش فوج کے گورکھا سپاہیوں نے کل 1650 گولیاں چلائیں۔ ڈائر کے اندازے کے مطابق مرنے والوں کی تعداد دو سو اور تین سو کے درمیان تھی۔ انڈین نیشنل کانگرس کی رپورٹ کے مطابق فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار یا اس کے قریب تھی۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد379 تھی ‘جن میں ایک چھ ماہ کا بچہ بھی تھا۔ میرے قارئین کیلئے یہ اندازہ کرنا بڑا مشکل ہوگا کہ جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کی خبروںکا برطانیہ میں کیا رد عمل ہوا؟ یہ اتنی برُی خبر تھی جتنی گیارہ ستمبر کو نیویارک میں Twin Towers پر دو جہازوں کا حملہ اور تقریباً تین ہزار افراد کی ہلاکت یا وسط اپریل فرانس میں دُنیا کے غالباً سب سے عظیم الشان اور سات سے آٹھ سو سال پرانے گرجا گھر (نوترے ڈیم) کو آگ لگ جانے سے تباہی۔ برطانوی دارالعوام میں جنرل ڈائر کے احکامات پر کئے جانے والے قتل عام کی سخت مذمت کی گئی‘ مگر بدقسمتی سے پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے اراکین نے جنرل ڈائر کی تعریف کرتے ہوئے اسے ایک اچھا سپاہی قرار دے دیا۔
فاضل مصنف نے بڑی تفصیل اور عالمانہ دیانتداری اور قابل ستائش غیر جانبداری کے ساتھ لکھا ہے کہ 1857 ء کی پہلی جنگ آزادی سے لے کر جلیانوالہ باغ تک ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں ہندو ‘ مسلمان اور سکھ مل کر حصہ لیتے تھے اور اس میں فرقہ واریت کا زہر شامل نہ ہوا تھا۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے نصف تک کانگرس اور مسلم لیگ کے اجلاس کا انعقاد ایک ہی شہر میں‘ ایک ہی وقت ہوتا تھا‘ تاکہ ان دو جماعتوں کے قائدین اور اراکین دونوں جماعتوں کی کانفرنسوں میں شریک ہو سکیں۔ لندن میں برطانوی حکومت نے جن لوگوں کو ہندوستان کا گورنر جنرل (جو برطانوی بادشاہ/ ملکہ کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے viceroy بھی کہلاتا تھا) بنایا‘ اُن میں سے چند ایک کے حصے میں نیک نامی آئی۔ مثال کے طورپر لارڈ کرزن نے بنگالی مسلمانوں کی کمزور معاشی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لئے بنگال کو مشرقی (آج کا بنگلہ دیش) اور مغربی بنگال میں تقسیم کر دیا۔ صد افسوس کہ ہندوئوں کی روایتی تنگ نظری نے اس اچھے فیصلے کو جلد ہی منسوخ کرالیا‘ جس نے ہندوستان میں فرقہ وارانہ سیاست کا بیج بو دیا۔ دو اورقابل تعریف گورنر جنرل لارڈ رپن اور لارڈ منٹو تھے‘ جنہوںنے ہندوستانیوں کو محدود پیمانے پر سرکاری اختیارات کے استعمال میں حصہ دار بنانے کیلئے اصلاحات نافذ کیں ‘تو برطانوی حکومت اور برطانوی پریس نے دبی زبان میں نہیں ‘بلکہ کھل کر اُن دونوں کی پالیسی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان پر لاٹھی چارج سے دریغ نہ کیا۔
جلیانوالہ باغ میں برٹش راج نے جس بے رحمی اور بے دردی سے اپنے ہاتھ سینکڑوں خاک نشینوں کے خون سے رنگے‘ اس کی جڑیں 1907ء اور 1915ء میں رونما ہونے والے واقعات میں پیوست ہیں۔ 1907 ء میں ہندوستان میں برطانوی حکومت کے کارندوں کو یہ وہم تھا کہ پنجاب کے سیاسی قائدین دراصل کٹھ پتلی ہیں اور بیرونی طاقتیں (روس اور افغانستان) ان کی ڈوریاں ہلا رہی ہیں۔ بعد ازاں ملنے والی معلومات نے ثابت کر دیا کہ یہ ایک بے بنیاد وہم تھا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ 1915ء میں ایک فقید المثال واقعہ رونما ہوا اور وہ تھا امریکہ اور کینیڈا میں آباد ہندوستانی باشندوں کی طرف سے ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف مسلّح بغاوت کے شعلے بھڑکانے کی ناکام کوشش۔ کالم نگار مورخ نہیں اس لیے وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ کیا یہ کارنامہ بھی 1913 ء میں بنائی جانے والی ایک انقلابی پارٹی (جس نے اپنا نام غدر پارٹی رکھا تھا) کا تھا یا نہیں؟ غدر پارٹی خالصتاً ہندوستانی لوگوں پر مشتمل تھی ۔اس کے بانی کا نام موہن سنگھ تھا اور مرکزی قیادت میں ہر دیال‘ سنتوک سنگھ‘ سنت وساکھا سنگھ اور بابا جوالا سنگھ شامل تھے۔ غدر پارٹی کے پرُ جوش اراکین میں پنجابی‘ سکھ اور بنگال کے جلا وطن انقلابی نمایاں تھے۔ آج سے ساٹھ‘ ستر سال پہلے کیس پڑھا تھا کہ چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ کینیڈا میں رہنے والے سکھوں نے ایک بحری جہاز کے ذریعے ہندوستان کے سمندروں میں برطانوی بحریہ پر حملہ کی تیاری کی تھی۔ میں اپنی بھولی بسری یادوں پر انحصار کرتے ہوئے اب آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ آزادی پسندوں اور رائل نیوی کے درمیان بحری جنگ ہوئی یا نہیں؟ غالباً نہیں‘مگر ظاہر ہے کہ ایک بحری جہاز پر سوار سکھوں کے شوقِ آزادی اور ذوقِ بغاوت پر سرو سامان کی رقابت غالب آگئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved