رمضان کے دوران ایک اہم ترین عبادت اعتکاف ہے۔اعتکاف میں بندہ اپنے مالک کے بہت قریب پہنچ جاتا ہے۔اسلام میں جتنی عبادات ہیں‘وہ انسان کی زندگی کا تزکیہ کرنے‘اس کی سوچ کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنے کا ذریعہ ہیں۔اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے‘ جس میں ایک محدود مدت کیلئے بندہ دنیوی مصروفیات سے وقت نکال کر مکمل طور پر خود کواللہ کی عبادت ‘اپنی اصلاح اور فکر آخرت میں مشغول کرلیتا ہے۔ اعتکاف کے دوران لیلۃ القدر کی تلاش اور اس کے ذریعے اللہ کی رضا بندہ ٔ مومن کا مطمحِ نظر ہوتاہے۔اعتکاف کا لفظی معانی خود کو روکے رکھنا‘کسی چیز کو مضبوطی سے قائم رکھنا اور کسی مقصد سے مکمل وابستگی اختیار کرناہے۔
اعتکاف پر عمل پیرا ہونے کا بہت زیادہ اجر ہے۔ اعتکاف کے دوران ایک مومن مسجد میں ٹھہرا رہتا ہے اور اللہ سے لو لگائے اس بات کا ہر لمحے بزبانِ حال اعلان کرتا ہے کہ اس نے خواہشات نفس کی اکساہٹوں کو روک دیا ہے اور اللہ سے مضبوط تعلق قائم کر لیا ہے۔ روزے کے دوران صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک مومن خود کو کھانے پینے اور جنسی تعلقات سے روکے رکھتا ہے‘مگر اعتکاف کے دوران دن اور رات کے کسی بھی حصے میں جنسی تعلقات قائم کرنا حرام قرار پاتا ہے۔قرآن و حدیث میں اسے 'تبتل‘ کے جامع لفظ سے واضح کیا گیا ہے؛اگرچہ اس لفظ 'تبتل‘ کا مکمل مفہوم تو کسی دوسری زبان میں ایک لفظ میںبیان نہیں کیا جا سکتا‘مگر تفہیم کیلئے کہا جا سکتا ہے کہ سب سے کٹ کرایک(اللہ)کا ہو رہنا۔اس لحاظ سے اعتکاف تبتل کا بہترین مظہر ہے۔نبی اکرمﷺ نے اعتکاف کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے اور مدینہ منورہ میں قیام کے دوران اس پر عمل کیا ہے۔
رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کی حکمتوں میں سے ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ قرآن مجید کی سورۃ القدر کے مطابق رمضان میں ایک رات ایسی ہے‘ جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا تھا اور ہر سال جب یہ رات آتی ہے تو جبریل امین علیہ السلام‘ اللہ کی رحمتیں لے کر فرشتوں کے جھرمٹ میں آسمان سے زمین پر اترتے ہیں۔اس رات کو عبادت میں مصروف اہل ایمان کورحمت ِ خداوندی میں سے وافر حصہ عطا ہوتا ہے اور وہ دوزخ سے خلاصی پاتے اور جنت کے مستحق بن جاتے ہیں۔
لیلۃ القدر کے بارے میں سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ''لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں بالخصوص طاق راتوںمیں تلاش کرو‘‘(بحوالہ بخاری)۔لیلۃالقدر کے بارے میں یہ روایت بھی ہے کہ آنحضورﷺ کو پہلے اس رات کے بارے میں بتا دیا گیاتھا ‘مگر پھر وہ علم واپس لے لیا گیا۔غالباً اس کی حکمت یہ ہوگی کہ لوگ ایک ہی رات پر تکیہ کرنے کی بجائے پورے رمضان اور بالخصوص آخری عشرے میں زیادہ سے زیادہ ذوق وشوق کے ساتھ خود کو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کردیں۔
حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم ؐ مسجدِ نبوی سے(یا اپنے خانۂ مبارک سے)نکلے ‘تاکہ ہمیں لیلۃ القدر کی خبر دیں۔اتنے میں دو مسلمان آپس میں جھگڑنے لگے۔اس پر آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ میں تو تمہیں لیلۃ القدر کی خبر دینے نکلا تھا‘ مگر فلاں اور فلاں آپس میں جھگڑ پڑے اور اس دوران وہ اٹھا لی گئی(اس کا علم مجھ سے رفع کر لیا گیا)۔شاید تمہاری بھلائی اسی میں تھی‘لہٰذا اب تم اسے اکیسیوں یا تئیسویں یاپچیسویں رات کو تلاش کرو۔اگر کسی شخص کو لیلۃ القدر نصیب ہوجائے تو اس کی خوش بختی میں کوئی شک و شبہ نہیں‘مومن کو ہر دعا پورے یقین کے ساتھ مانگنی چاہیے اور ہر عبادت پورے خلوص اور حضوریٔ قلب کے ساتھ حضورِ حق میں پیش کرنی چاہیے۔حضرت عائشہ صدیقہؓ نے رسول اکرمؐ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ‘ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو مجھے اس میں کیا کہنا چاہیے؟آپ ؐ نے فرمایا:یہ دعا مانگنی چاہیے (ترجمہ )''اے میرے مولا تو بڑا معاف کرنے والا ہے‘تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے‘پس مجھے (بھی)معاف فرما دے‘‘ (بحوالہ مسند احمد‘ ابن ماجہ‘جامع ترمذی)۔
صیامِ‘ ماہِ رمضان ‘اعتکاف اور لیلۃ القدر کی تلاش اتنا عظیم عمل ہے کہ آنحضورﷺ نے اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان مواقع پر اللہ اپنے بندوں پر فخرکرتا ہے۔ امام بیہقی نے حضرت انس بن مالکؓ کی یہ روایت نقل کی ہے:''رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب لیلۃ القدر ہوتی ہے تو جبریل ؑ ملائکہ کے ایک جھرمٹ میں اترتے ہیں اور ہر اس بندے کیلئے دعا کرتے ہیں‘ جو اس وقت کھڑاہوا یا بیٹھا ہوا اللہ عزوجل کا ذکر کر رہا ہو(جاگ رہا ہو اور عبادت کر رہاہو)‘پھر عیدالفطر کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے ملائکہ کے سامنے فخر کرتا ہے اور انہیں مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو!اس اجیر (مزدور)کی جزا کیا ہے‘ جس نے اپنے ذمے کا کام پورا کردیا۔فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اس کی مزدوری اسے پوری پوری دے دی جائے۔اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ اے میرے ملائکہ ! میرے ان بندوں نے اپنا وہ فرض ادا کردیا‘ جو میں نے ان پر عائد کیا تھا‘پھر اب یہ گھروں سے(عید کی نماز ادا کرنے اور)مجھ سے گڑگڑا کر مانگنے کیلئے نکلے ہیںاور میری عزت اور میرے جلال کی اور میرے کرم اور میری علوِّشان کی اور میری بلند مقامی کی قسم ہے کہ میںان کی دعائیںضرور قبول کروںگا‘ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے:جائو میں نے تمہیں معاف کردیا اور تمہاری برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دیا۔حضورﷺ نے فرمایا کہ پھر وہ اس حالت میں پلٹتے ہیں کہ انہیں معاف کر دیا جاتا ہے۔‘‘(سنن بیہقی )
اللہ تعالیٰ سال کے سال اپنے مومن بندوں کے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہے ‘کیونکہ انہوں نے رمضان کے روزے رکھے اور لیلۃ القدر کی تلاش میں راتوں کو عبادت کرتے رہے‘ پھر عید کے روز نماز کیلئے نکلے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اس کے ہاں سے مغفرت اور مہربانیاں حاصل کرکے پلٹتے ہیں۔نبی اکرمؐ عام دنوں میں بھی عبادت کا بڑا اہتمام فرمایا کرتے تھے‘ مگر رمضان میں تو شان ہی نرالی ہوتی تھی۔شعبان ہی میں کمر ِ ہمت باندھ لیتے اور رمضان کی آمد کے ساتھ نیکیوں میں یوں مشغول ہو جاتے ‘جیسے تند و تیز ہو اچلنے لگتی ہے‘ پھررمضان کا آخری عشرہ تو بالخصوص آپ ؐکے انہماک و وارفتگی کی ایسی تصویر پیش کرتا کہ سبحان اللہ!
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کے روزے قبول فرمائے۔( آمین)