تیسویں پارے کے مضامین
سورۃ النباء:نبا خبر کو کہتے ہیں۔ شروع میں فرمایا کہ لوگ ایک عظیم خبر کے متعلق ‘ جس کے بارے میں یہ باہم اختلاف کررہے ہیں ‘ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں ‘ یعنی قیامت کے وقوع اور حق ہونے کے بارے میں کچھ لوگوں کو اختلاف ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا عنقریب قیامت برپا ہوگی تو انہیں معلوم ہوجائے گا۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فیصلے کے دن کا وقت مقرر ہے اور پھر علاماتِ قیامت کا بیان فرمایا۔ اس کے بعد جہنمیوں کے لیے عذاب اور اہلِ تقویٰ کیلئے انعامات کا بیان ہوا۔ سورۃ النازعات میں بتایا کہ موت کے فرشتے جہنمیوں کی روح نہایت سختی سے نکالتے ہیں اور اہلِ ایمان کی روح کو نہایت نرمی سے ‘ اس کے بعد فرشتوں کا ذکر ہے کہ جنہیں کارخانۂ قدرت کے معاملات کی تدبیر تفویض کی جاتی ہے‘ پھر اس امر کابیان ہے کہ فرعون نے اپنے آپ کو ''ربِ اعلیٰ‘‘ قرار دیا‘ یعنی خدائی کا دعویٰ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے عذاب دے کر درسِ عبرت بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین وآسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کی تخلیق کا حوالہ دے کر فرمایا کہ دوبارہ پیدا کرنا دشوار ہے یا اتنے بڑے نظامِ کائنات کو جو تمہارے سامنے ہے‘قائم کرنا۔
سورہ عبس کے آخر میں قیامت کے نفسا نفسی کے منظر کو بیان کیا گیا ہے کہ دنیا میں ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے اور محبت کا دعویٰ کرنے والے دامن چھڑائیں گے۔ ہر ایک شخص اپنے بھائی ‘ ماں باپ ‘ بیوی اور بیٹوں سے جان چھڑا کر بھاگے گا۔ سب کو اپنی پڑی ہوگی‘ کچھ کے چہرے روشن مسکراتے اور ہشاش بشاش ہوں گے اور کچھ کے چہرے غبار آلود ہوں گے اور ان پر سیاہی چھائی ہوگی ۔
سورۃ التکویر میں بھی علاماتِ قیامت کا ذکر ہے کہ سورج کی بساطِ نور کو لپیٹ دیا جائے گا‘ ستارے جھڑ جائیں گے ‘ پہاڑ چلائے جائیں گے ‘ دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں بے کار چھوڑ دی جائیں گی‘ وحشی جانور جمع کئے جائیں گے ‘ سمندر بھڑکائے جائیں گے ‘ جانیں ایک بار پھر جسموں سے ملا دی جائیں گی‘ اعمال کے صحیفے پھیلادئیے جائیں گے ‘ دوزخ بھڑکائی جائے گی‘ جنت قریب کردی جائے گی اور ہر شخص جان لے گا کہ اس نے اپنی آخرت کے لئے کیا ذخیرہ عمل آگے بھیجا ہے۔اس کے بعد سورۃ الانفطار میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بندے کے نامۂ اعمال کولکھنے کیلئے فرشتے مقرر کررکھے ہیں ‘ جنہیں ''کراماً کاتبین‘‘ (معزز لکھنے والے) کہا گیا ہے اور بندہ جو بھی عمل کرتاہے وہ جانتے ہیں ۔
سورۃ المطففین:تطفیف کے معنی ناپ تول میں کمی کرنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے شدید عذاب ہے کہ جب وہ لوگ دوسروں سے لیتے ہیں ‘ تو پورا پورا ناپ کر لیتے ہیں اور جب دوسروں کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کمی کردیتے ہیں ‘ یعنی ڈنڈی مار تے ہیں۔ فرمایا کہ کافروں کا نامۂ اعمال ''سجین‘‘ میں ہے جو کہ مہر لگایا ہوا صحیفہ ہے۔ نیکوکاروں کا صحیفۂ اعمال ''علیین‘‘ میں ہوگا ‘ یہ بھی ایک مہر بند صحیفہ ہے‘ جس پر اللہ کے مقرب بندے گواہ ہیں۔
سورۃ الانشقاق میں بھی آثار واحوالِ قیامت کا بیان ہے اور یہ کہ قیامت کے دن جس کا صحیفہ ٔ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا‘ اُس کا اخروی حساب بہت آسان ہوگااوروہ اپنے اہل کی طرف خوشی خوشی لوٹے گا اور جس کا نامۂ اعمال پیٹھ پیچھے سے دیا جائے گا وہ کہے گا کاش کہ مجھے موت آجائے اور اسے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیاجائے گا۔ سورۃ البروج میںاللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اللہ عزیز وحمید پر ایمان لانے کی پاداش میں ''اصحابِ اخدود‘‘ (خندقوں والے) کو اس طرح قتل کیا گیا کہ انہیں بھڑکتی آگ میں ڈال دیا گیا ‘ ان اہلِ حق کی تفصیلات کتب تفسیر میں موجودہیں۔
سورۃ الطارق میں انسان کو اس کے مادۂ تخلیق اور کیفیتِ تخلیق کی جانب متوجہ فرمایا اور فرمایا جس دن چھپی باتیں ظاہر کر دی جائیں گی ‘ اس وقت اﷲ کے سوا نہ کوئی مدد گار ہوگا اور نہ کسی کے پاس طاقت ہوگی ۔ سورۃ الاعلیٰ کے آخر میں فرمایا؛ جس نے اپنا باطن صاف کرلیا اور اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی وہ کامیاب ہوا۔ سورۃ الغاشیہ کے شروع میں ان لوگوں کے انجام کا ذکر ہے ‘ جو آخرت میں عذاب سے دوچار ہوں گے ‘ اس کے بعد ان خوش نصیب مومنوں کا ذکر ہے جنہیں اخروی نعمتوں سے سرفراز کیا جائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ کی شانِ تخلیق کا ذکر ہے ۔
سورۃ الفجر میں قومِ عاد ‘ ثمود اور فرعون کا ذکر ہے ‘ ان اقوام نے طاقت کے زعم میں آکر سرکشی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب کے کوڑے برسائے‘پھر فرمایا کہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے ‘ ایک دوسرے کو یتیم کے کھلانے کی ترغیب نہیں دیتے‘ وراثت میں ملا ہوا سارے کا سارا مال ہڑپ کرجاتے ہو‘ تمہیں مال سے بے پناہ محبت ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ آخرت میں اس مال کی ناپائیداری کا احساس ہوگا‘ انسان پچھتائے گا ‘ مگر یہ پچھتاوا کچھ کام نہیں آئے گا۔ آخری آیت میں فرمایا کہ ''نفسِ مطمئنہ‘‘ یعنی اعلیٰ درجے کے ایمان کے حاملین کا وفات کے وقت اعزاز واکرام کے ساتھ استقبال کیا جائے گا۔
سورۃ البلد میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو دیکھنے کیلئے دو آنکھیں‘ بولنے کیلئے زبان اور دو ہونٹ عطا کئے اور نیکی اور بدی کا شعور عطا کیا۔ سورۃ اللیل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان کی جدوجہد دو مختلف سمتوں میں جاری رہتی ہے ‘ ایک طبقہ وہ ہے کہ اللہ کے عطا کردہ مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتاہے ‘ تقوے پر کاربند رہتاہے اور نیک باتوں کی تصدیق کرتاہے تو ہم اس کیلئے آسانی‘ یعنی جنت تک رسائی کی منزل آسان کردیں گے ۔ دوسرا طبقہ وہ ہے کہ جو اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے بخل کی وجہ سے خرچ نہیں کرتا ‘ وہ دولت کی فراوانی میں مست ہوکر اللہ سے بے پروا ہوجاتاہے اور نیک باتوںکو جھٹلاتاہے ‘ تو اس کیلئے ہم مشکل منزل یعنی دوزخ کا راستہ آسان کردیتے ہیں۔ سورۃ الضحیٰ سیدالمرسلینؐ کی عظمت کو بیان کررہی ہے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ اے رسولِ مکرم! آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے ‘ نہ آپ سے وہ ناراض ہوا ہے ‘ آپ کی ہر آنے والی ساعت آپ کی پہلی ساعت سے بہترہے اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔
سورۃ الانشراح میں رسول ﷺ کے شرحِ صدر کا ذکر ہے۔ اِس میں ایک آیت رفعتِ شانِ مصطفیؐ کے لئے غیر معمولی عطائے ربانی ہے کہ اللہ نے فرمایا ''اورہم نے آپ کاذکر بلند کردیاہے ‘‘۔سورۃ التین میں فرمایا '' بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیداکیا اور پھر اُس کو سب سے نچلے طبقے میں لوٹادیا۔ اس سے مرادیہ ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں تقرب اور عِزّوشرف کا مدار انسان کی ظاہری صورت پر نہیں‘ بلکہ ایمان وعمل پر ہے۔ سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات وہ پہلی وحیٔ ربانی ہے‘ جو غارِ حرامیں سیدالمرسلینؐ پر نازل ہوئی اور آپ کی نبوت کا اعلان ہوا۔
سورۃ القدر شبِ قدر کی فضیلت میں نازل ہوئی۔ اسے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا ۔شبِ قدر کو قطعیت کے ساتھ متعین نہیں فرمایا‘تاکہ بندوں کے ذوق اور خیر کی جستجو کا امتحان ہو۔ سورۃ البیّنہ میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا حکم دیاکہ تمام باطل ادیان کو چھوڑ کر اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کی بندگی کو اختیار کریں اور نماز قائم کرتے رہیں ‘زکوٰۃ اداکرتے رہیں ‘یہی دینِ مستقیم ہے۔ سورہ زلزال میں قیامت کا منظر بیان کیاگیا کہ زمین کے سینے میں جو بھی راز چھپے ہیں‘ وہ سارے اگل دے گی ‘یا جو بھی میتیں مدفون ہیں ‘ اُنہیں نکال باہر کرے گی اور ہرایک اپنی معمولی سے معمولی نیکی یا بدی کا انجام دیکھ لے گا ۔سورہ عادیات میں اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے گھوڑوں کی مختلف کیفیات کوقسم کے ساتھ بیان فرمایا ۔
سورہ عصر میں بتایا کہ انسان خسارے میں ہے اور اس سے نکلنے کی صورت صرف یہی ہے کہ ایمان لائیں ‘عمل ِ صالح کریں اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کریں ۔سورۃ الھمزہ میں اللہ تعالیٰ نے طعنہ زنی اور عیب جوئی کی شدید مذمت فرمائی اور بتایا کہ اس اخلاقی مرض میں وہ لوگ مبتلا رہتے ہیں جنہیں اپنی دولت پر ناز ہوتاہے ‘لیکن اُن کا انجام اللہ کی بھڑکائی ہوئی ایسی آگ ہے جو چوراچورا کردے گی ۔
سورہ فیل میں اصحابِ فیل‘ یعنی یمن کے بادشاہ ابرہہ اور اُس کے لشکر کا ذکر ہے‘ اللہ نے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیجے ‘جنہوں نے اُن پر پتھر کی کنکریاں برساکر اُنہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا ۔سورہ قریش میں اللہ تعالیٰ نے قریش پر اپنے احسان کا ذکر فرمایاکہ بیت اللہ کی تولیت کی وجہ سے وہ بے خوف وخطر گرمیوں میں شام کا اور سردیوں میں یمن کا تجارتی سفرکیاکرتے تھے اور بیت اللہ کی نسبت کی وجہ سے ان کے تجارتی قافلے بے خوف وخطر رہتے تھے اور ان کی معیشت محفوظ تھی ۔
سورۃ الماعون میں اللہ تعالیٰ نے یتیم کے ساتھ نارواسلوک کرنے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینے جیسے مذموم اعمال کو قیامت کے جھٹلانے سے تعبیر کیا اور نمازوں اور عبادات میں ریاکاری کی مذمت بیان فرمائی ۔سورہ کوثر :یہ قرآن مجید کی وہ مختصرترین سورت ہے جس کے ذریعے عرب کے فُصحاء وبلغاء کو مقابلے کا چیلنج دیاگیاتھا ‘مگر وہ اس کے مقابل کلام بناکر نہ لاسکے ‘ اس میں اللہ عزوجل کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کو کوثر عطاکئے جانے کا ذکر ہے۔ سورہ کافرون میں یہ پیغام دیاگیا کہ حق اور باطل میں کوئی مفاہمت نہیں ہوسکتی۔ سورہ نصر میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت سے اسلام کی فتح کو اپنی نعمت کے طورپر بیان کیاکہ لوگ فوج درفوج اسلام میں داخل ہونے لگے ‘تو بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ تشکرِ نعمت کے طورپر اللہ کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح بیان کی جائے اور اُس سے استغفار طلب کی جائے۔