تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     04-06-2019

تیسواں پارہ

تیسویں پارے میں؛ چونکہ سورتوں کی تعداد زیادہ ہے‘ اس لیے تمام سورتوں پر گفتگو نہیں ہو سکے گی ۔تیسویں پارے کے بعض اہم مضامین کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔ پارے کا آغاز سورہ نبا سے ہوتا ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی گھڑیوں کا ذکر کیا ہے کہ قیامت کی آمد ایک بہت بڑی خبر ہو گی‘ اس کی آمد سے قبل بہت سے لوگوں کو اس کے ہونے کے بارے میں شبہات اور اختلافات تھے ۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے جہنمیوں کی سزا کا بھی ذکر کیا کہ وہ کس طرح صد ہاہزار سال جہنم کی قید میں پڑے رہیں گے ۔
اس کے بعد سورہ نازعات ہے۔ پروردگار عالم ارشاد فرماتے ہیں‘ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اس نے اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے بچالیا تواس کا ٹھکانہ جنت ہے۔ سورہ نازعات کے بعد سورہ عبس ہے‘ جس میںاللہ تعالیٰ نے قیامت کی گھڑیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جب قیامت کا د ن آئے گا بھائی اپنے بھائی سے‘ بیٹا اپنے والدین سے اور بیوی اپنے شوہر سے بھاگے گی اور والدین اپنے بیٹے سے بھاگیں گے۔ ہر کسی کی خواہش ہو گی کہ وہ آگ سے کسی بھی طور پر بچ جائے‘ چاہے اس کے بدلے کسی دوسرے کو پکڑ لیا جائے۔ اس کے بعد سورہ تکویر ہے۔ سورہ تکویرمیں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ قرآن مجید کل کائنات کے ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے ‘جو صراط مستقیم پر چلنا چاہتے ہیں۔ 
سورہ تکویر کے بعد سورہ انفطار ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے جہاں قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کیا‘ وہیں دنیا میں انسانوں کے حساب کتاب کو نوٹ کرنے والے فرشتوں کا بھی ذکر کیا‘ جن کو کراماًکاتبین کہا جاتا ہے ۔کراماً کاتبین انسانوں کے عمل کو نوٹ کرتے ہیں اور یہی اعمال نامہ قیامت کے دن انسانوں کو پیش کیا جائے گا ۔سورہ انفطار کے بعد سورہ مطففین ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے‘ جو اپنے حق میں تو ترازو کو پوری طرح استعمال کرتے ہیں‘ لیکن دوسروں کے لیے ترازو میں کمی کرتے ہیں۔ قیامت کے دن ایسے لوگوں کو تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگلی سورہ انشقاق ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ انسان محنت و مشقت کا خوگر ہے اور اس کو چاہیے کہ اپنے پروردگار کے لیے محنت کرے‘ جس سے اس نے ملاقات کرنی ہے؛ اگر انسان اپنے پروردگار کے لیے محنت کرے گا تو اس کو آسان حساب کا سامنا کرنا پڑے گا‘ پھر سورہ بروج ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب اخدود کی بستی کاذکر کیا کہ جنہیں ایمان لانے کی پاداش میں انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ اہل ایمان نے اس سزا کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا‘ لیکن دعوت توحید سے دستبردار ہونا گوارا نہیں کیا۔ 
اس کے بعد سورہ طارق ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ کس طرح انسان کو پانی کے معمولی قطرے سے اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا اور جو اللہ تعالیٰ انسان کو پانی کے معمولی قطرے سے پیدا کر سکتا ہے‘ وہ انسان کو اس کی موت کے بعد آسانی سے زندہ بھی کر سکتا ہے ‘اس لیے انسان کو اپنی حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بعد سورۃ الاعلیٰ ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ لوگوں کی نگاہ دنیا کی زندگی پر ہوتی ہے‘ لیکن حقیقی اور باقی رہنے والی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ اس کے بعد سورہ فجر میں اللہ تعالیٰ نے سابق اقوام کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ تعالیٰ مومن کو مخاطب ہو کر کہیں گے‘ اے نفس مطمئنہ! اپنے پروردگار کی طرف راضی ہو کر پلٹ جا اور میرے بندوں اور میری جنت میں داخل ہو جا۔ 
اس کے بعد سورۃ البلد ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر اپنے انعامات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دو آنکھیں‘زبان اور دوہونٹ عطا فرمائے اور اس کی رہنمائی دو راستوں (ہدایت اور گمراہی) کی طرف کی ہے۔ اب اس کی مرضی ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتا ہے ‘جو صحیح راستے پر چلے گا ‘جنت میں جائے گا اور جو غلط راستہ اختیار کرے گا‘ وہ جہنمی ہو گا۔ اس کے بعد سورہ شمس ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نفس کو تخلیق کیا اور ا س میں نیکی اور برائی کی سمجھ کو الہام کر دیا تو جو اپنے نفس کو نیکی کے راستے پر چلائے گا وہ جنتی ہوگا اور جو اپنے نفس کو آلودہ کرے گا وہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔ اس کے بعد سورۃ الیل ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں‘ جس نے صدقہ دیا اور نیکی کی تائید کی‘ اس کے لیے اللہ تعالیٰ جنت کی راہ آسان کر دیں گے۔ جس نے بخل کیا اور اچھی بات کی تکذیب کی اللہ تعالی اس کے لیے مشکل راستے‘ یعنی جہنم کے راستے کو ہموار کردیں گے۔سورۃ الیل کے بعد سورہ ضحیٰ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی تلقین کی ہے کہ پروردگار کی نعمتوں کا اعتراف کرنا چاہیے اوران کا اظہاربھی کرنا چاہیے۔سورہ ضحیٰ کے بعد سورہ الم نشرح ہے۔ سورہ الم نشرح میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے رسو ل اکرم ﷺ کے تذکروں کو بلند کر دیا ہے۔ 
سورہ علق میں اللہ تعالیٰ نے حبیبﷺ کو پروردگار کے نا م سے پڑھنے کا حکم دیا کہ اس نے انسان کو سکھا یا جو کہ وہ نہیں جانتا تھا۔ سورہ علق کے بعد سورہ قدر ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا اور قدر والی رات ہزار مہینوں سے زیادہ فضیلت کی حامل ہے۔ سورہ عصر میں اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم اٹھا کر انسان کو ناکام کہا ہے کہ ہر انسان نا کام ہے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کو اختیار کیا اور حق بات اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
سورہ عصر کے بعد اہم سورۃ الکوثرہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کو حوض ِکوثر کی بشارت دی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتلایا ہے کہ آپ کا دشمن بے نام و نشان رہے گا۔ان کے بعد تین قل ہیں‘ جن میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی پناہ طلب کرنے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ (آمین) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved