آج کل ایچ بی او چینل پر دل دہلا دینے والی ایک سیریز دیکھ رہا ہوں۔ یہ سیریز‘ جس کا نام چرنوبل رکھا گیا ہے‘ روس کی یوکرائن ریاست میں پینتیس سال قبل چرنوبل نیوکلیئر پاور پلانٹ میں ہونے والے دھماکے پر بنائی گئی ہے‘ جس میں ہزاروں افراد ریڈی ایشن کا شکار ہو کر کینسر سے مر گئے یا پھر ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے تھے۔ حادثے دنیا بھر میں ہوتے ہیں‘ لیکن کیسے سخت گیر حکومتیں حادثوں کو چھپاتی ہیں‘ جس سے ہزاروں لوگ متاثر ہوتے ہیں اور اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں‘ یہ اس سیریز سے پتا چلتا ہے۔ اس سیریز کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جن معاشروں میں انسان کے بولنے یا سوچنے پر پابندی لگ جاتی ہے وہاں لوگ ہی اپنی جان سے قیمت ادا کرتے ہیں۔
سیریز دیکھتے ہوئے سوال اٹھاکہ معاشرے میں آوازوں کو دبا دیا جاتا ہے تو وہ ملک اور قوم ترقی کرتے ہیں یا نیچے جاتے ہیں؟ جب ریاست اپنی غلطی کو قومی راز کا درجہ دے دیتی ہے تو اس سے وہ بچ جاتی ہے؟ روسی سسٹم جو چرنوبل ٹریجڈی کو چھپا رہا تھا تاکہ روس کی بدنامی نہ ہو چاہے ہزاروں عورتیں اور بچے مارے جائیں‘ کیا وہ بچ گیا؟ اس واقعے کے پانچ سال بعد متحدہ روس ٹوٹ چکا تھا۔
ہو سکتا ہے بہت سارے لوگوں کے پاس اس ماڈل کی کامیاب مثالیں موجود ہوں‘ خصوصاً مڈل ایسٹ کی مثالیں دے سکتے ہیں جہاں بادشاہت ہونے کی وجہ سے ترقی ہو گئی ہے۔ چین کی بھی مثال دی جا سکتی ہے جہاں ون پارٹی رول ہے۔ ان ملکوں میں سیاست آزاد تھی‘ نہ میڈیا آزاد تھا‘ نہ پارلیمنٹ کا تصور تھا اور نہ ہی الیکشن اور لوگوں کی چوائس کا رونا دھونا تھا۔ پھر ذہن میں آتا ہے لیبیا، شام، عراق اور مصر کے پاس بھی تو بہت پیسہ تھا۔ لوگ خوشحال تھے۔ پھر کیوں وہ اچانک پھٹ پڑے اور بادشاہوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ قذافی اپنے ہی عوام کے ہاتھوں مارا گیا۔ صدام حسین بل سے پکڑا گیا جبکہ حسنی مبارک کو ایک پنجرے میں سٹریچر پر ڈال کر عدالت میں پیش کیا جاتا تھا۔
لوگ کہیں گے‘ یہ مغربی قوموں کی سازش تھی اور انہوں نے ان مسلمان ملکوں کو برباد کرنے کا منصوبہ بنایا اور کامیاب رہے۔ سوال یہ ہے کہ ان مغربی قوموں نے بھی تو انہی ملکوں کے شہریوں، قبائل یا لوگوں کو ہی بادشاہوں کے خلاف استعمال کیا تاکہ ان کا تختہ الٹا جائے یا وہاں انارکی پھیلائی جائے۔ اگر وہ معاشرے مطمئن تھے اور لوگوں کے پاس بہت پیسہ تھا‘ لیکن صرف بولنے یا سوچنے پر پابندی تھی تو کون سی قیامت آ گئی تھی کہ پورے ملک کو ہی تباہ کرا دیا جاتا؟
اس تمہید کی ضرورت اس لیے پڑ گئی کہ آج کل غیر محسوس طریقے سے ہر طرف سے آوازیں آ رہی ہیں پاکستان میں بھی بولنے‘ سوچنے پر پابندیاں لگنے والی ہیں۔ ان کا خیال ہے‘ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز نے چیزیں مشکل کر دی ہیں۔ ان قوتوں کا کہنا ہے: اگر پاکستان میں وہی حالات پیدا کر دیے جائیں‘ جو انیس سو اسی یا نوے کی دہائی میں تھے‘ جب چند اخبارات ہوتے تھے تو پاکستان راتوں رات ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔ یہ قوتیں پاکستان کے موجودہ مسائل کا ذمہ دار میڈیا یا پھر سوشل میڈیا کو سمجھنے لگ گئی ہیں‘ جو کسی بھی حکومت کو نہیں چلنے دے رہا۔
سوال یہ ہے کہ اگر چینلز اور سوشل میڈیا ہی پاکستان کی ترقی کے دشمن ہیں تو پھر یہی سوشل میڈیا اور چینلز کیسے یورپ میں کام کر رہے ہیں؟ ٹرمپ سے امریکی میڈیا کی لڑائی پہلے دن سے شروع ہوئی تھی اور اب بھی جاری ہے۔ ٹرمپ نے تو سوشل میڈیا یا ٹی وی چینلز بند کرنے کا نہیں سوچا بلکہ امریکی عدالت نے تو ٹرمپ کو اپنے فالورز کو بلاک کرنے سے روک دیا جو اس پر تنقید کرتے تھے۔ ستر سالوں میں جب سوشل میڈیا اور چینلز نہ تھے‘ پاکستان ترقی کیوں نہ کر سکا؟
پاکستان اگر اللہ کے کرم سے شام، افغانستان یا عراق نہیں بنا تو اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں میڈیا اور عدالتیں بڑی حد تک آزاد رہی ہیں۔ معاشرے میں گھٹن یا سوچ پر پابندی نہیں۔ لوگ رائے کا اظہار کر لیتے ہیں جس سے بھڑاس نکل جاتی ہے اور وہ رات کو آرام سے سو جاتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں انقلاب کے منصوبے نہیں آتے کہ مصر، شام، عراق یا لیبیا کے عوام کی طرح مرنے مارنے پر تل جائیں کہ بھاڑ میں گئی خوشحالی، ہمیں بولنے اور سوچنے کی آزادی چاہیے۔ انسان نے تاریخ میں جہاں اپنی جانیں مذہب اور معیشت کے لیے دی ہیں‘ وہیں اپنی زبان، کلچر، علاقے سے محبت کے ساتھ ساتھ آزادی سے سوچنے اور رہنے کی خواہش کا بھی بڑا رول رہا ہے۔
روس جتنی ترقی کر رہا تھا اگر وہ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی کچھ ذاتی آزادیاں دیتا تو شاید اتنی جلدی وہ نہ بکھرتا۔ مان لیتے ہیں‘ روس میں لوگ بہت مطمئن زندگی گزار رہے تھے، لائف سٹائل بہت بہتر ہو گا اور زندگی کی سب سہولتیں ان کے پاس ہوں گی۔ لیکن ان کے پاس ایک چیز نہ تھی‘ اپنی مرضی سے سوچنے اور بولنے کی آزادی۔ یہی وجہ تھی جب گوربا چوف کو فوجی بغاوت کے بعد گرفتار کیا گیا تو ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور فوجی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے۔ انہیں گوربا چوف کی شکل میں ایک ایسا معاشرہ نظر آ رہا تھا جس میں ان کے سوچنے اور بولنے پر پابندی نہ ہو گی اور یوں فوجی بغاوت ناکام ہوئی۔
ویسے ہمارے جنرل ضیا نے بھی یہ ماڈل متعارف کرائے تھے۔ جب بھٹو کو پھانسی دی گئی، سیاسی ورکرز کی جوانیاں شاہی قلعہ لاہور میں ضائع ہو گئیں اور صحافیوں کو کوڑے مارے گئے۔ اخبارات کو سینسر کیا گیا۔ تو پھر کیا ہوا؟تو آج جنرل ضیا کا ہماری تاریخ اور معاشرے میں کیا مقام ہے؟ وہ ہمارے ملک کا رول ماڈل حکمران ہے؟ اور تو اور اس کے روحانی برخوردار نواز شریف بھی ان کا نام تک نہیں لیتے۔ تو اب جو کچھ ہو گا تو اس سے آئیڈیل معاشرہ جنم لے گا؟
پاکستان اس لیے بھی پُر سکون ہے اور ہر بڑی ٹریجڈی کو برداشت کر گیا ہے کہ یہاں لوگوں کو اب بھی دیگر مسلم ممالک کی نسبت بولنے اور سوچنے کی آزادی ہے۔ اس لیے پاکستان میں کبھی خونیں انقلاب نہیں آیا۔ جس دن یہاں بھی پابندیاں لگ گئیں‘ پھر واقعی خونیں انقلاب آیا کریں گے۔ انسانی ذہن کو ایک حد تک غلام رکھا جا سکتا ہے۔ چلیں چھوڑیں چرنوبل سیریز سے ایک سین پڑھیں۔
چرنوبل بلاسٹ کے کئی دن بعد رہائشی آبادی کے انخلا کا فیصلہ ہوتا ہے تو ایک فوجی ایک بوڑھی عورت کے گھر جاتا ہے۔ وہ بوڑھی عورت بھینس کا دودھ دوھ رہی ہوتی ہے۔ فوجی اسے بتاتا ہے: اب یہ جگہ محفوظ نہیں ہے‘ آپ چلیں۔
وہ پوچھتی ہے: کیوں چلوں؟ فوجی کہتا ہے: حکم ملا ہے کہ گائوں کا ہر بندہ یہاں سے کوچ کرے گا۔ اب یہ جگہ محفوظ نہیں رہی۔
وہ بوڑھی عورت اس سے پوچھتی ہے: تمہیں پتا ہے‘ میری عمر کتنی ہے؟ فوجی نفی میں جواب دیتا ہے۔ وہ بولتی ہے: میں بیاسی برس کی ہوں‘ پوری زندگی یہیں رہی ہوں‘ مجھے کیا فرق پڑتا ہے‘ محفوظ ہوں یا نہیں۔ فوجی اسے جواب دیتا ہے: میرے لیے مشکل پیدا مت کرو۔
وہ بڑھیا اسے جواب دیتی ہے: مشکل؟ تم پہلے فوجی نہیں جو یہاں بندوق لے کر کھڑے ہو۔ جب میں بارہ برس کی تھی تو انقلاب آیا تھا۔ روسی زار کے لوگ آئے۔ پھر بالشویک کی باری لگی۔ تمہارے جیسے لڑکے مارچ کرتے تھے۔ انہوں نے بھی ہمیں کہا: یہ گھر چھوڑ جائو۔ ہم نے اس وقت بھی انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد سٹالن اور اس کا قحط آیا۔ Holodomor کا قحط جس میں لاکھوں یوکرائن کے لوگ مارے گئے۔ میرے والدین بھی اس قحط میں مارے گئے۔ دو بہنیں مر گئیں۔ انہوں نے ہمیں کہا: جو بچ گئے ہیں‘ وہ یہ گھر چھوڑ جائیں۔ میں نے پھر بھی نہیںچھوڑا۔ اس کے بعد جنگ عظیم شروع ہوئی۔ جرمن ہمارے گھروں تک پہنچ گئے تھے۔ میرے بھائی اس جنگ سے واپس نہیں آئے۔ لیکن میں اسی گھر میں رہی۔ میں اب بھی یہیں رہتی ہوں۔ جو کچھ میں نے اب تک دیکھا ہے‘ اس کے بعد بھی اب میں اس گھر کو چھوڑ جائوں کیونکہ تم مجھے بتا رہے ہو‘ مجھے ایسے خطرات لاحق ہیں جنہیں میں دیکھ نہیں سکتی؟ میں نہیں جائوں گی۔
روسی فوجی نے یہ سن کر بندوق تان لی لیکن بوڑھی عورت نے اپنی مرضی کے خلاف اپنا گھر چھوڑنے سے انکار کر دیا اور سکون سے بیٹھی گولی چلنے کا انتظار کرتی رہی۔