آج عید کا دن ہے۔ محروم‘ بیگانے اور ستم رسیدہ معاشرے میں اس دن سے منسوب خوشیوں کا احساس ایسے پھیل جاتا ہے جس طرح کسی خشک تپتے صحرا میں بارش ہوتی ہے۔ نخلستانوں میں تو یہ بارش مزید ہریالی اور شادابی لاتی ہے‘ لیکن صحرا میں یہ پھوار ایسے غائب ہو جاتی ہیں جیسے یہاں سے کبھی برستے بادلوں کا گزر ہوا ہی نہیں تھا۔ ایسے تہواروں کو ہر معاشرے کی رائج الوقت قدریں اور رجحانات خوشیوں کی امیدوں سے لبریز کر دیتے ہیں۔ لیکن طبقاتی معاشروں میں یہ خوشیاں ایسے ہی آتی ہیں جیسے کالی گھٹائوں کا کسی صحرا کے اوپر کی فضائوں سے صرف گزر ہوا ہو۔ بچوں کے لئے عید اس لیے زیادہ خوش کن ہوتی ہے کہ ان کو ان کے والدین اور عزیز و اقارب عیدیاں دیتے ہیں‘ جن سے وہ سارا دن اپنی مرضی کی چیزیں خریدتے اور کھاتے ہیں اور موجیں اڑاتے ہیں‘ خود پیار کو ترسے ہوئے یہ بزرگ بچوں کو زیادہ شدتِ جذبات سے پیار بھی کرتے ہیں۔ بچوں کی باتیں مانی جاتی ہیں اور ان کی خواہشیں پوری کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غریب تو قرض لے کر بھی اپنے بچوں کو نئے کپڑے اور کھلونے دلواتے ہیں تاکہ وہ خوش ہوں اور وہ یعنی والدین ان کی خوشیاں دیکھ سکیں‘ لیکن عید کے روز لاکھوں‘ کروڑوں بچے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اس طرح کے راحت اور خوشی کے تہوار والے دن بھی مشقت سے چھٹکارا حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ عید کے دن بھکاریوں کی بھی خصوصی تیاری ہوتی ہے۔ شہروں میں بھیک مانگنے والے منظم گروہوں کے لئے مختلف عید گاہوں‘ میلوں‘ چوراہوں اور ایسے مقامات جہاں لوگ اجتماع ہوتے ہیں‘ کی بندر بانٹ ہو چکی ہوتی ہے۔ عید کے خطبوں میں انسانیت کا احساس جگانے کے درس دئیے جاتے ہیں۔ ہمدردی اور رحم کرنے کے ثواب بیان کیے جاتے ہیں۔ سخاوت کی تلقین کی جاتی ہے اور فطرانوں کو غریبوں‘ ناداروں اور محروموں میں باٹنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے جو کہ ایک اچھی بات ہے۔ فطرانے کے ریٹ مقرر ہوتے ہیں کہ کس حساب سے کتنا فطرانہ ادا کرنا ہو گا۔ اس روز بالا دست اور درمیانے طبقے کی اوپری پرتوں میں فیاضی کے جذبے بھی ابھر آتے ہیں۔ یہ جذبات شاید کسی پر ستم ڈھانے اور کسی کے ساتھ کی گئی زیادتی کا کفارہ ادا کر کے مصنوعی تسکین حاصل کرنے کے لئے ابھرتے ہیں۔
ایک طبقاتی سماج میں استحصالی نظام چلانے کے لئے جہاں محنت کش طبقات کو نظام کو تسلیم اور برداشت کرنے کی تلقین کی جاتی ہے اور دوسرے سینکڑوں ہتھکنڈے اختیار کئے جاتے ہیں‘ وہاں خیرات‘ خصوصاً چند دہائیوں سے‘ جاری بحران اور عدم اصلاحات کی وجہ سے زیادہ اہمیت کا اوزار بن کر ابھری ہے۔ عید کے دن اس کا زیادہ واضح اظہار اس لیے بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اور ادارے اس کو اپنی تشہیر کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس تشہیر کا مقصد نیک نام ہونے کا تاثر دینا‘ مخیر ہونے کا تاثر قائم کرنا‘ اپنی دریا دلی کا مظاہرہ کرنا‘ حساسیت کا اظہار کرنا اور اس معاشرے کی مروجہ اچھائیوں اور خوبیوں کا دکھاوا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن عید والے دن بھی اس عدم مساوات اور محنت کی سرمائے کے ہاتھوں ستم گری کے نظام کے بنیادی ضوابط بدلتے نہیں! ایک ہاتھ جیب سے پیسے نکال کر دیتا ہے‘ دوسرا ہاتھ پھیلا کر اس خیرات کو وصول کرتا ہے۔ رکھنے والا ہاتھ ایک فرد کا ہوتا ہے اور لینے والے کو بھی انسان کے طور پر ہی گردانا جاتا ہے۔ یہ ان کا مقدر تو نہیں تھا‘ لیکن ان کا مقدر بنا دیا گیا۔ آدمی کے بنائے ہوئے نظام نے تقدیر بنا کر ان پر مسلط کیا ہوا ہے۔ ظاہری طور پر دونوں کا تعلق نسلِ انسان سے ہوتا ہے‘ لیکن نظام زر اس نسل کو مال دار اور محروم کی تفریق میں چیر دیتا ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ ہر پیدا ہونے والا بچہ اپنی پیدائش کے وقت تو محض انسان ہی ہوتا ہے۔ پیدائش کے بعد وہ خانوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ اچھا یا برا ہونے کے معیار ہر معاشرے اور تاریخ کے ہر عہد میں مختلف ہوتے ہیں۔ اور حتمی طور پر کسی فرد میں جو خوبیاں‘ صلاحیتیں‘ ذہانت اور جہالت استوار ہوتی ہے‘ وہ ان حالات و واقعات اور زندگی کی نگہداشت کے وسائل پر مبنی ہوتی ہے‘ جن میں وہ پروان چڑھتا ہے۔ محنت کش یا سرمایہ دار طبقے سے تعلق ان کی زندگی کے معیار اور مواقع کا حصول متعین کرتا ہے۔ یہی وہ تفریق ہے جس سے اس سرمایہ دارانہ معاشرے میں عزت و مرتب‘ جاہ و جلال‘ شان و شوکت‘ عظمت و پستی‘ نیک نامی و بد نامی‘ اچھائی و برائی‘ بڑائی اور کم ظرفی‘ ذہانت و کند ذہنی کا تعین ہوتا ہے اور طاقتوری اور بہادری جیسی تمام خوبیاں اور اس معاشرے کی تشکیل کردہ دوسری خصوصیات دولت مند اور بالا دست طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے پلڑے میں یہ اقتصادی اور سماجی ڈھانچہ ڈال دیتا ہے۔ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو ہاتھ کسی کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر خیرات دھرتا ہے اس کی نفسیاتی کیفیت کیا ہو گی اور جو لینے اور نہ مانگ کر بھی دل میں مانگنے کی مجبوری لیے بھڑک رہے ہیں ان کے شعور کا کیا عالم ہو گا؟ دونوں اگر ایک نسل سے تعلق رکھتے ہوں تو پھر ایک طرف محرومی کا احساس ان کی نفسیات میں یاس و نا امیدی لے کر نفرت اور بغاوت تک کے جذبوں کی شورش میں کیوں ہچکولے کھاتا رہتا ہے؟ جبکہ دینے والا جس نفسیات کا شکار ہے وہ اس ''نیکی‘‘ سے اپنی عاقبت بھی سنوار لیتا ہے‘ اور آج کی دنیا میں عزت اور نیک نامی کا دعوے دار بھی بن جاتا ہے۔ لیکن خیرات کے پیسے سے محروم طبقے عید کا پورا دن بھی نہیں گزار پاتے۔ شام ڈھلتے ہی خوشیوں کے احساسات غائب ہو جاتے ہیں‘ بھوک پھر تڑپانے لگتی ہے‘ بچے پھر بلکنے لگتے ہیں۔ ناتواں بزرگ کراہنے لگتے ہیں اور محرومی و مفلسی پھر عود کر آتی ہے۔ وہ خوشیاں جو آ کر پلٹ جائیں‘ روح اور احساس کو زیادہ مجروح کر دیتی ہیں۔ ایک دیا سلائی کا شعلہ اندھیروں میں کام کرنے والوں کی آنکھیں چکا چوند کرتا ہے اور کچھ لمحوں کے لئے وہ اندھیرے کی بینائی سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ لیکن پھر دیا سلائی نے بھی تو بجھ جانا ہوتا ہے؛ تاہم آنکھیں اس کے بعد اندھیرے کی ماند سی بینائی حاصل کرنے میں بہت زیادہ وقت لیتی ہے۔ خیرات بھی اس دیا سلائی والی روشنی کی طرح ہے۔ لمحہ بھر کی روشنی۔ المیہ یہ ہے کہ آج بل گیٹس سے لے کر دنیا بھر کے کھرب پتی سرمایہ داروں‘ فلمی اداکاروں‘ کھلاڑیوں اور اس ملک کے بڑے بڑے سیٹھوں تک نے حالیہ ٹھہرائو والے معروض کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو بھاری خیرات سے جو مسیحائی کا روپ کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے دلوایا ہے اور اس کی پیروی یہاں کی سیاست‘ ریاست‘ دانش و فکر بھرپور انداز میں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب ہر حکومت ہی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرز پر جو قلیل رقوم غریبوں کی ایک نہایت ہی محدود آبادی کو دے رہی ہے‘ اس کے عوض ریاست کا غربت کے خاتمے سے لے کر تعلیم‘ علاج‘ نکاس‘ پانی‘ صحت‘ ٹرانسپورٹ اور دوسری بنیادی سہولیات کی فراہمی کا فریضہ یکسر ختم کیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف‘ سامراج‘ سرمایہ دار طبقات‘ ریاست اور سماج کے ٹھیکے داروں کی لوٹ کھسوٹ اتنی بڑھ گئی ہے کہ مہنگائی کے ذریعے وہ عوام سے روٹی تو چھین ہی رہے ہیں لیکن خیرات کے پروگراموں کے ذریعے ان کی نفسیات کو بھکاری پن سے زہر آلود بھی کر رہے ہیں۔ ان کی بنیادی سہولیات کو نجی ملکیت میں دے کر ریاست کو ان فرائض سے فرار اختیار کروا کے نہ صرف عوام کو ان بنیادی ضروریات سے محروم کر دیا گیا ہے بلکہ پورے معاشرے کا انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کر بکھر رہا ہے۔ غلاظت اور بد بو سے شہروں اور دیہاتوں میں تعفن پھیل گیا ہے‘ فضا آلودہ ہو گئی ہے‘ لیکن لوٹ مار کے سب سے کلیدی ہتھکنڈے کا کھلواڑ جاری ہے۔ اس طبقاتی نظام کو بدل کر ہی خیرات لینے اور دینے والوں کی تفریق ختم ہو سکتی ہے۔ محرومی اور بہتات کی تقسیم مٹائی جا سکتی ہے۔ ایک انقلابی تحریک کے ذریعے یہاں کے نوجوان اور محنت کش وہ نظام استوار کر سکتے ہیں جس میں عید والے دن کوئی کسی کو دولت اور پیسے کی خیرات نہ دے سکے گا۔ سبھی ایک دوسرے کو سچے جذبوں اور پیار سے گلے ملیں گے۔ محبتوں اور نیک تمنائوں کی ''عیدیوں‘‘ کے سبھی میں باہمی تبادلے ہو سکیں گے!