تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     05-06-2019

اینیمل فارم

اینیمل فارم (Animal Farm) کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک فارم کے تمام جانور اپنے مالک کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر اسے فارم سے نکال کر خود اس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں تاکہ جانوروں کو مناسب خوراک ملے اور انہیں کام بھی کم کرنا پڑے۔ ان جانوروں کی قیادت ایک سؤر کرتا ہے جس کا نام ہے سنو بال۔ اپنے مالک جونز کو بے دخل کرنے کے بعد سنو بال فارم میں موجود گھوڑے، مرغیوں، بطخوں، گائے اور گدھے کے ساتھ فارم پر کام شروع کرتا ہے۔ جانوروں کو منظم کرنے کے لیے ایک دستور بھی بنایا جاتا ہے جس کا بنیادی نعرہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام جانور برابر ہیں۔ کچھ عرصے بعد فارم کا مالک جونز ارد گرد کے زمینداروں کی مدد سے اپنا فارم جانوروں کے قبضے سے چھڑانے کے لیے حملہ کرتا ہے‘ لیکن سنو بال کی دلیرانہ سالاری اور جانوروں کے اتحاد کے سامنے یہ حملہ پسپا ہو جاتا ہے۔ سنوبال کو اس کی بہادری پر تمغہ دیا جاتا ہے اور وہ فارم کا متفقہ لیڈر قرار پاتا ہے لیکن نپولین نام کا دوسرا سؤر اس کے خلاف دوسرے جانوروں کو ابھارتا رہتا ہے۔ سنوبال جانوروں کی تعلیم و تربیت کے لیے فارم میں سکول قائم کرتا ہے جہاں تمام جانور لکھنے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حروف تہجی کی پہچان سے آگے نہیں بڑھ پاتے سوائے بینجمن نامی ایک گدھے اور ایک بکرے کے جو لکھ پڑھ کر ہوشیار ہو جاتے ہیں۔ تمام جانوروں کے برعکس گدھا فارم کو ملنے والی آزادی سے زیادہ خوش نہیں ہوتا اور ایک ہی بات دہراتا رہتا ہے، ''زندگی ایک ہی طریقے سے گزرتی رہے گی یعنی برے طریقے سے‘‘۔ سنو بال جانوروں کو بے پناہ مشقت سے بچانے کے لیے ایک ہوائی چکی کا منصوبہ بناتا ہے اور جانوروں کو آرام دہ زندگی کا خواب دکھا کر کچھ زیادہ محنت کی طرف راغب کرلیتا ہے۔ سنو بال کا حریف نپولین خاموشی سے فارم میں پیدا ہونے والے کتوں کے جوڑے کے چھ بچوں کی پرورش کرکے انہیں اپنا وفادار بنا لیتا ہے۔ ایک روز سنوبال تمام جانوروں کے اجلاس میں ہوائی چکی کے بارے میں تجاویز پیش کرتا ہے جو نپولین کو منظور نہیں۔ تمام جانوروں کی رضا مندی کے باوجود نپولین اپنی بات پر اڑا رہتا ہے۔ جب سنو بال نپولین کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے تو نپولین اپنے پالتوں کتوں کو اشارہ کردیتا ہے۔ کتے سنو بال پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور سنو بال جان بچا کر فارم سے بھاگ جاتا ہے۔ سنوبال کے بعد فارم کی حکمرانی نپولین کے پاس آجاتی ہے۔ کتوں کے خوف سے ہر جانور دبک جاتا ہے اور خاموشی سے اپنا کام کرنے لگتا ہے۔ 
اس کہانی کا ایک اہم کردار باکسر نام کا گھوڑا ہے۔ یہ گھوڑا اپنے کام سے انتہائی مخلص ہے اور ہمیشہ دل لگا کر کام کرتا ہے۔ نپولین حکمران بننے کے بعد اس گھر میں منتقل ہوجاتا ہے جو فارم کے مالک نے اپنے لیے بنایا تھا اور حکومت میں تبدیلی کے بعد اسے جانوروں پر ظلم و ستم کرنے والوں کی یادگار کے طور پر محفوظ رکھا گیا تھا۔ نپولین جانوروں کو بتاتا ہے کہ امورِ سلطنت چلانے کے لیے اسے یکسوئی کی ضرورت ہے جو اس گھر میں رہنے سے مل سکتی ہے۔ کچھ عرصے بعد نپولین کے ساتھی سؤر جانوروں کو بتاتے ہیں کہ عظیم لیڈر نپولین نے ان کے لیے ہوائی چکی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جانور یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ تصور تو سنو بال کا تھا لیکن نپولین کے کتے انہیں کچھ بولنے نہیں دیتے۔ جانوروں کے تقاضے پر ایک جلسۂ عام میں جانور دوبارہ کچھ کہنے کی کوشش کرتے ہیں تو فارم کی بھیڑیں بیک زبان عظیم قائد نپولین کے نعرے لگا لگا کر آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں۔ یوں جانوروں کی بات دل میں ہی رہ جاتی ہے اور ہوائی چکی پر کام شروع ہوجاتا ہے۔ باکسر ایک بار پھر اپنی قوت سے زیادہ کام کرتا ہے اور تمام جانوروں کو بھی کام کرنے پر مائل کرتا رہتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ جانوروں کو اپنے حقوق کے لیے دستور کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت پڑتی ہے جو ایک دیوار پر لکھا گیا تھا۔ ان پڑھ جانور جب بھی دستور کی کوئی شق نپولین کو یاد دلاتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ تحریری شق میں وہ بات ہی نہیں جو ان کے حقوق سے متعلق تھی۔ وہ اپنی یادداشت کے بھروسے پر احتجاج کرتے ہیں لیکن جب بھی دستور پڑھا جاتا ہے اس کا مطلب وہی ہوتا ہے جو نپولین کی منشا ہو۔ ان بے چاروں کو یہ علم ہی نہیں ہو پاتا کہ سؤر غیر محسوس انداز میں دستور میں کوئی لفظ بڑھا دیتے ہیں یا گھٹا دیتے ہیں۔ 
فارم کی حکومت میں تبدیلی سے پہلے مرغیوں اور گایوں کو یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ اپنے انڈے اور دودھ اپنے پاس ہی رکھ سکتی ہیں لیکن ہوائی چکی کے ترقیاتی منصوبے کے لیے سامان کی فراہمی کے لیے انڈے اور دودھ پر نپولین کا قبضہ ہوجاتا ہے۔ گائیوں کا جو دودھ بچتا ہے وہ سؤروں کی خوراک میں شامل ہوجاتا ہے۔ جانور اس پر احتجاج کرتے ہیں کہ دستور کے مطابق سارے جانور برابر ہیں۔ اس پر جب دستور پڑھا جاتا ہے تو اس میں لکھا ہوتا ہے کہ تمام جانور برابر ہیں لیکن ان میں سے کچھ زیادہ برابر ہیں۔ سؤروں کے بچوں کی تعلیم کا بہترین بندوبست ہوتا ہے جبکہ دیگر جانوروں کی تعلیم کا سلسلہ ختم کردیا جاتا ہے۔ ایک روز کچھ جانور نپولین سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان پر کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ کتوں کے اس حملے کو باکسر گھوڑا اپنی دولتیوں سے روکتا ہے۔ کتے شکست کھا جاتے ہیں تو نپولین پینترا بدل کر انہیں ترقی کے نام پر متحد کرتا ہے۔ ترقیاتی کام کے لیے ان کی خوراک کم اور کام زیادہ کر دیا جاتا ہے۔ تمام جانور کمزور پڑنے لگتے ہیں اور سب سے زیادہ کام کرنے کی وجہ سے باکسر سب سے زیادہ کمزور ہو جاتا ہے۔ آخرکار باکسر کو ہسپتال بھیجنے کے لیے ایک گاڑی فارم کے اندر لائی جاتی ہے جس میں ڈال کر اسے باہر لے جایا جاتا ہے۔ یہ گاڑی دراصل ایک قصاب کی ہوتی ہے جس میں وہ گھوڑے کو ذبح کرنے کے لیے لے جاتا ہے۔ جب جانور باکسر کی صحت کے بارے میں زیادہ بے چین ہو جاتے ہیں تو نپولین اپنے قریبی جانوروں کا ایک وفد ہسپتال بھیجتا ہے جو واپس آکر باکسر کی بہتر ہوتی ہوئی صحت کی اطلاع دیتا ہے۔ چند دن بعد سرکاری طور پر جانوروں کو باکسر کی موت کی خبر دی جاتی ہے، اس کی یاد میں فارم میں یادگاری تقریب ہوتی ہے جس کی صدارت رندھے ہوئے گلے سے خود نپولین کرتا ہے۔ جیسے ہی کوئی دوسرا جانور بولنے کی کوشش کرتا ہے بھیڑیں عظیم قائد کے نعرے لگانے لگتی ہیں۔
نپولین کا دستِ راست سکیلر بھی ایک سؤر ہے جو جانوروں کو بتاتا ہے کہ کس کس طرح سنوبال نے فارم میںلوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ وہ یہ خبر بھی دیتا ہے کہ سنوبال دراصل انسانوں کا ایجنٹ تھا اور عظیم قائد نپولین نے اس کی سازش پکڑ لی تھی۔ فارم پر حملہ بھی سنو بال کی ہی سازش تھی جسے عظیم قائد نے اپنی جان پر کھیل کر ناکام بنایا۔ شروع شروع میں تو جانور سکیلر کے بتائے ہوئے واقعات کی تردید کرتے ہیں کیونکہ یہ تمام واقعات انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے، لیکن انہیں آہستہ آہستہ تمام جانور ان واقعات کو ہی درست ماننے لگتے ہیں جو سکیلر انہیں بتاتا ہے۔ سنوبال ایک غدار قرار پاتا ہے اور اسے تلاش کرکے عبرتناک سزا دینے کا بار بار اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ کئی بار جانوروں کو بتایا جاتا ہے کہ سنو بال انسانوں کے ساتھ مل کر فارم پر حملہ کرنے والا ہے لیکن عظیم قائد ان حملوں کو سفارتکاری کی بے پناہ مہارت سے ناکام بنادیتا ہے۔ آخرکار ایک دن خود نپولین کی طرف سے جانوروں کو بتایا جاتا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں انہیں پڑوسی زمینداروں سے رابطے استوارکرنا ہوں گے اور وسیع تر مفاد میں فارم کی کچھ زمین بھی ان کے ہاتھ فروخت کرنا ہوگی۔ ان بدلے ہوئے حالات کے لیے منیمس نامی شاعر سؤر کچھ نئے ترانے لکھتا ہے تاکہ فارم کو نئی شناخت مل سکے۔ آخرکار نپولین اپنے مکان میں دوسرے زمینداروں کو بلا کر خوشگوار تعلقات کی ابتدا کرتا ہے۔ سارے جانور اس مکان کی کھڑکیوں سے اندر جھانکتے ہوئے یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ اندر والوں میں اصل سؤر کون ہے۔ 
انیس سو پینتالیس میں لکھا گیا جارج آرول کا یہ ناول اس دور میں روس کے کمیونسٹ ریاست بن جانے کے حوالے سے لکھا گیا تھا۔ لیکن ایک ایسا ادب پارہ بن گیا جو بے معنی نہیں ہوا۔ اس ناول میں آج بھی ہر ملک اور ہر شخص اپنا کردار تلاش کر سکتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved