یہ 2006ء کی بات ہے۔ حکومت ِپاکستان نے فیصلہ کیا کہ وزیرستان سمیت قبائلی علا قوں میں روس کے خلاف افغان جہاد میں حصہ لینے والے دنیا بھر سے آئے ہوئے جتنے بھی غیر ملکی مقیم ہیں‘ وہ خود کو انتظامیہ اور فوج کی مشترکہ ٹیم کے پاس رجسٹر کروا لیں اور روایتی اسلحہ‘ جس میں کلاشنکوف بھی شامل ہے‘ اس کے علا وہ ان کے پاس اگر بھاری اسلحہ یا گولہ بارود موجود ہے‘ تو وہ جمع کرا دیں۔ حکومت ِپاکستان کو بتایا گیا تھا کہ ان مجاہدین میں سے اکثر نے یہاں کے مقامی خاندانوں میں شادیاں کر رکھی ہیں‘ لیکن سوائے چند ایک کے کسی نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا۔جب یہ مدت ختم ہو گئی‘ تو ایک صوبیدار کی قیا دت میں پاک فوج کا ایک دستہ سرچ آپریشن کیلئے وانا کے ایک گھر پہنچے تو بتایا گیا کہ اندر صرف خواتین ہیں کوئی بھی مرد نہیں۔ فوجی دستہ اند رکمروں میں جھانکنے کی بجائے حجرے کی تلاشی کے بعد باہر نکل آیا‘ اسی دوران ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو یہ دستہ اپنے ایک ساتھی کی امامت میں نماز کیلئے کھڑا ہو گیا ۔ابھی یہ پہلے سجدے میں ہی گئے تھے کہ گھر کے اندر سے دہشت گردوں کا ایک گروپ نکلا اور ان سب کو کلاشنکوف کے برسٹ برساتے ہوئے نماز کی حالت میں شہید کر نے کے بعد ان کے جسم کے نازک حصے کاٹ کر ان کے منہ میں ٹھونس دیئے۔ اسے کوئی افسانہ یا من گھڑت قصہ مت سمجھئے‘ یہ مولوی نیک محمد کے گروپ کی جانب سے سکیورٹی فورسزکے اسلامی اخوت دکھانے کا جواب تھا۔اس بابت ویڈیو مجھے میجر جنرل شوکت سلطان نے 2006ء میں دکھائی تھی۔
علاقہ غیر کے نام سے پکارا جانے ولا یہ علا قہ‘ جو خطرناک مجرموںکی پناہ گاہوں کیلئے مشہور تھا‘ جہاں 2006ء کے بعد اپنے علا وہ کسی کو مسلمان تسلیم کرنے سے ہی عاری تھے ۔جب یہ علا قے کسی بھی پاکستانی کیلئے '' نو گو ایریا‘‘ بننے لگے تو پھر سینوں میں قرآن سجائے پاکستانی فوج کے سر فروش مجاہدوںنے قدم قدم پر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ان بستیوں کا رخ کر لیا‘ تاکہ آئندہ کسی کو جرأت نہ ہو کہ جہاں سے چاہا منہ اٹھائے اپنے چھوٹے چھوٹے لشکروں کے ساتھ یہاں آ کرڈیرے ڈال لے ۔ جس ملک سے چاہے‘ اسلحہ اور گولہ بارود لا کر یہاں سٹور کرتا جائے۔نہیں ‘اب یہ سب کچھ نہیں ہو گا۔ اب یہاں پر ملک کے دوسرے حصوں کی طرح ہر ایک کو قاعدے اور قانون کے مطا بق چلنا ہو گا ۔پاکستان سے وفاداری کا عہد کرنا ہو گا‘ نہ کہ کسی '' ترنگے‘‘ کی۔ پاکستان کی دھرتی کے یہ حصے ‘جو آج سر سبز و شاداب نظر آ رہے ہیں‘ جہاں کے لوگ بلا خوف و خطر کاروبار ِحیات میں مصروف ہیں ‘یہ کئی منوں خون بہانے کے بعد آباد کئے گئے۔ اب یہاں وہ منا ظر دیکھنے کو نہیں ملیں گے کہ جس کا جی چاہا پکڑ کر اسے کھمبوں اور درختوں سے لٹکا دیا۔ اب یہاں دشمنان ِپاکستان کے قدم نہیں ‘ان کے مورچے نہیں ‘ان کی حکومت نہیں‘ ان کے پھانسی گھاٹ نہیں ‘بلکہ ان کی گردنیں لٹکتی ہوئی نظر آئیں گی۔ تحریک طالبان پاکستان کے امیر بیت اﷲ محسود نے وزیرستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا اور یہ الفاظ آج بھی فاٹا ‘ کے پی کے اور اسلام آباد سمیت بین الاقوامی میڈیا کے لوگوں کو یاد ہو ں گے؛ '' بیت اﷲ محسود کی حکمرانی میں پاکستانی سکیورٹی فورسز تو دُور کی بات ہے‘ پاکستان کا کوئی پرندہ بھی یہاں پے پر نہیں مار سکتا ہے‘‘۔
سوات کا وہ خونی چوک کیسے بھلایا جا سکتا ہے‘ جہاں ہر وقت دو تین لاشیں لٹکتی رہتی تھیں اور ہر لاش کے ساتھ ایک پرچہ چپکایا گیا ہوتا تھا‘ جس پر ٹی ٹی پی کے مقامی امیر کا حکم لکھا ہوتا تھا کہ یہ لاش تین دن یا پانچ دن تک کسی نے بھی نیچے نہیں اتار نی اور اگر لاش کا وارث باپ‘ بھائی یا بیٹا خونی چوک منگورہ میں لٹکی ہوئی لاش مدت مقررہ سے پہلے اتارنے کی کوشش کرتا تو چند گھنٹوں بعد اسی چوک میں کلاشنکوف کے برسٹ سے چھلنی اس کا مردہ جسم الٹا لٹکا دیا جاتا۔ دہشت گردی اس حد تک بڑھ گئی لگتا تھا کہ سوات‘ وزیرستان میں ریا ست کا کوئی وجود ہی نہیں رہا۔ بلوچستان ‘ وزیرستان اور کے پی کے کو پاکستان کے ہاتھوںسے نکلتا دیکھ کرپاکستان کی سکیورٹی فورسز نے سر پر کفن باندھ کر ملکی وحدت اور سالمیت کے تحفظ کیلئے میدان جنگ میں کود پڑیں‘ جہاں جگہ جگہ دشمن موجود تھا‘ جہاں کسی اور کا نہیں‘ بلکہ تحریک طالبان پاکستان کے مقامی امیر کا حکم چلتا تھا اور اس امیر کے لشکر کو قدم قدم پر نت نئے ہتھیار گولہ بارود اور جنگی پینترے بدلنے کیلئے انڈین اور امریکن آرمی کے ماہرین کی تربیت اور مدد مل رہی تھی ۔
الغرض دشمنان ِپاکستان کے ساتھ کئی برس تک مختلف مراحل میں جاری رہنے والی ویت نام سے بھی زیا دہ خوفناک قسم کی گوریلا جنگ تھی‘ جہاں قدم قدم پر دشمن کے انجینئرز کی بچھائی ہوئی بارودی اور ٹینک شکن سرنگیں مقتل سجائے بیٹھی تھیں۔کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ کامیاب شب خون میں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو اغوا کرنے کے بعد ایک ایک کرتے ہوئے ہاتھ پائوں بندھے دوسرے ساتھیوں کے سامنے تیز دھار خنجر سے ذبح کیا گیا۔ ان کی چیخوں سے زمین و آسمان کانپنے لگتے اور پھر وحشیوں کی طرح فوج اور ایف سی کے ان افسروں اور جوانوں کے سروں کو فٹ بال کھیلتے ہوئے کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جانے لگیں۔ اس اذیت کا ؛اگر معمولی سا اندازہ کرنا ہے‘ تو بلیڈ کی دھار کو اپنی انگلی کے قریب کر کے دیکھئے ‘ سر سے پائوں تک آپ کے جسم کا ایک ایک زرہ لزرنا شروع ہو جائے گا۔ذبح کرنے کے بعد جن کے سروں سے فٹ بال کھیلا گیا ‘جن کے نازک حصے کاٹ کر ان کے منہ میں ٹھونسے گئے ‘کیا وہ کسی پلاٹ کیلئے ذبح ہوئے تھے؟
منظور پشتین ‘محسن داوڑ ‘علی وزیر‘ بلاول اور ان کے حامی ایک بار پھر وزیرستان اور سوات میں وہی کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ جو کل مولوی فضل اﷲ اور بیت اﷲ محسود نے کھیلا تھا۔ کل کی بات کو کیسے بھول سکتے ہیں کہ جب سوات اور وزیرستان میں تعلیم دلوانا یا پڑھنا جرم قرار دے دیا گیا ۔تمام سکول اور کالج اسلحہ خانوں میں تبدیل کر دیئے گئے تھے ۔ہسپتالوں کو بارود سے اڑا دیا گیا اور افواج پاکستان نے راہ حق سے ضرب ِعضب اور ردالفساد تک پندرہ ہزار سے زائد پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کی بھر پور جوانیاں وطن کی سالمیت پر قربان کرتے ہوئے کے پی کے‘ فاٹا‘سوات اور وزیرستان کو امن کا گہوارہ بنایا ۔
70 ہزار سے زائد پاکستانی عوام نے افواج پاکستان کی بھر پور مدد کرتے ہوئے شہادتیں پیش کیں اور ٹی ٹی پی اور اس کے اندر سے دس کے قریب جنم لینے والے نئے دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کیا۔ ملا فضل اللہ‘ سوات سے بھاگ کرافغانستان پہنچا ‘جہاں اسے گلے سے لگا یا گیا‘ تاکہ یہاں بیٹھ کر وہ پاکستان کو پھر سے نقصان پہنچا سکے اور ٹی ٹی پی اور ملا فضل اللہ کے پیرو کار‘ جو کسی وجہ سے افغانستان نہ جا سکے وہDisplaced کے نام سے قائم کیمپوں میں بیٹھ کر پاکستان کی سکیورٹی فورسزکے خلاف منافرت پھیلارہے ہیں‘تاکہ اپنے جھوٹے اور من گھڑت قصے کہانیوں کے ذریعے افواج پاکستان کے اپنے خون سے فاٹا‘ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں پھر سے بنائے گئے تعلیمی ادارے ‘ہسپتال ‘ دیدہ زیب مارکیٹوں‘ بازاروں ‘ پلوں اور سڑکوں کو ایک بار پھر تباہ کر تے ہوئے جگہ جگہ خونی چوکوں کے نام سے پھانسی گھاٹ سجائے جائیں اور اسے علاقہ غیر بنا دیا جائے ۔