War And Peace عالمی ادب کا ایک شہرۂ آفاق نمونہ ہے۔ اس عظیم ناول کے خالق ٹالسٹائی نے اپنی اس بے مثال کاوش کے بارے میں ایک مختصر سا مضمون بھی تحریر کیا تھا جس کو آج تک اس ناول کے آخر میں شائع کیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں ٹالسٹائی نے تحریر کیا ہے کہ ان کی نظر میں وار اینڈ پیس کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ نہ تو ناول ہے اور نہ ہی یہ کسی طور نظم کہلا سکتا ہے اور نہ ہی یہ کوئی تاریخی دستاویز ہے۔ ان کے بقول ’وار اینڈ پیس ‘کو اپنی خواہش کے عین مطابق انہوں نے جس شکل میں مناسب سمجھا، تحریر کردیا ہے۔ ٹالسٹائی کے بیان کا پس منظر یہ ہے کہ انہوں نے نپولین بونا پارٹ کے دور میں روس پر ہونے والی فوج کشی سے جُڑے واقعات پر ایک آرٹسٹ کے طور پر نظر ڈالی ہے اور اس دور کی تاریخ کو یہ کہہ کر مسترد کیا ہے کہ جنگ کی یہ تاریخ کمانڈروں کی رپورٹوں پر مبنی ہے جبکہ جو کچھ عام سپاہیوں پر بیتتی ہے اس کا احوال ان رپورٹوں میں نہیں ملتا۔ وہ کہتے ہیں کہ تاریخ دان ایک واقعے کے نتائج کو پیش نظر رکھتا ہے جبکہ ایک آرٹسٹ اس واقعے کے حقائق پر نظر رکھتا ہے۔ آج کل کی تیز رفتار زندگی میں ’وار اینڈ پیس ‘جیسی کتاب کو پڑھنا واقعی محال ہے لیکن اگر کسی کو یہ جاننے کی تمنا ہو کہ بڑے بڑے واقعات کی سچائی کس طرح تاریخ کے اوراق میں چھپ جاتی ہے تو اس کو ہمت کرکے یہ ناول پڑھ لینا چاہیے۔ آج کل ہمارے پاس ٹالسٹائی جیسا کوئی ذہین دماغ نہیں ہے وگرنہ جو کچھ نائن الیون کے بعد اس کرۂ ارض پر بیتی ہے اس کا ہمیں ایسا احوال مل سکتا تھا جو واقعات کے حقائق کا آئینہ دار ہوتا۔ لیکن ایک چیز ہمارے پاس ہے جو ٹالسٹائی کے پاس نہیں تھی۔ وہ ہے الیکٹرانک معلومات کے ذخیرے اور ان تک فوری رسائی۔ اگر ہم گزشتہ بارہ برس کے واقعات سے متعلق جو بے پناہ معلومات انٹرنیٹ کے ذریعے ہماری رسائی میں ہیں ان سے کچھ سبق سیکھنا چاہیں تو ایک واضح پیغام یہ ملتا ہے کہ فیصلہ سازوں کو خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں کے بارے میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی اور صدام حسین اور اسامہ بن لادن کے باہمی تعلق کی نشاندہی کی رپورٹوں سمیت خفیہ ایجنسیوں کی‘ کی گئی رپورٹوں کو بنیاد بنا کر اس قدر خون ریزی ہوئی ہے کہ خدا کی پناہ۔ کہا جاتا ہے کہ خون ریزی کرنے کے فیصلے پہلے ہوئے اور یہ رپورٹیں بعد میں مرتب ہوئیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو خفیہ ایجنسیوں کے کردار کا گھنائونا پن ہی واضح ہوتا ہے لیکن اس سب کے باوجود امریکہ کو اپنی سی آئی اے پر فخر ہے تو برطانیہ کو اپنی ایم آئی فائیو اور ایم آئی سکس پر ۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ موساد جیسی کوئی خفیہ ایجنسی نہیں ہے۔ ہم بھی اپنی آئی ایس آئی پر بہت فخر کرتے ہیں اور ہماری ملٹری انٹیلی جنس بھی ہمارے لیے باعث افتخار ٹھہرتی ہے۔ اس لیے کہ یہ قومی سلامتی کے لیے کام کرتی ہیں اور دشمن ملکوں کی فتنہ انگیزیوں کے خلاف دیوار بن جاتی ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ وغیرہ کو بھی اپنی خفیہ ایجنسیوں پر انہی وجوہ کی بنا پر احساسِ تفاخر ہے۔ حالانکہ ان ایجنسیوں کی کئی رپورٹیں غلط تھیں اور ان ملکوں میں اس بات کا برملا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں آج ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے متعلق ان کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی رپورٹیں درست نہیں تھیں۔ اس سے ہمارے جیسے ملک کو یہ سبق ملتا ہے کہ اگر کسی ادارے نے اپنے تک پہنچنے والی معلومات کی بنیاد پر کوئی ایسا نتیجہ نکالا ہو جو کلی طور پر درست نہ ہو اور اس نتیجے کی بنیاد پر کیے جانیوالے اقدام کے زیادہ تر نقصانات ہی سامنے آئے ہوں تو اس غلطی کو تسلیم کرکے آگے بڑھنا چاہیے۔ آج کل ہمارے سب سے بڑے شہر کراچی کی صورتحال ملک کو درپیش بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ 1992ء میں اس شہر میں جو فوجی آپریشن ہوا تھا اس کا جائزہ لینے کے لیے اگر وہ طریقہ کار اختیار کیا جائے جو ٹالسٹائی نے نپولین کی روس پر فوج کشی کے حوالے سے ’وار اینڈ پیس ‘میں اختیار کیا ہے تو معلوم ہوگا کہ آپریشن کے نگران افسروں کی رپورٹیں اس قابل نہیں ہیں کہ قوم کو کوئی رہنمائی دے سکیں۔ ایک آرٹسٹ کی نظر سے آپ دیکھیں تو آپ کو آپریشن کرنے والے تمام سپاہیوں اور جن پر آپریشن ہوا ان میں شامل عام لوگوں تک پہنچنا ہوگا۔ اس سب کا مجموعی تاثر جو قوم تک پہنچا ہے وہ یہ ہے کہ اس آپریشن کی وجہ سے اس ملک کے پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ لوگوں کی ایک بھاری تعداد نے بہت دکھ محسوس کیا اور21 برس بعد بھی ان لوگوں کے دل پوری طرح باقی قوم کے ساتھ جُڑے نہیں ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ کراچی کی صورتحال بہت پیچیدہ ہے اور وہاں کے حالات پر سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔ لیاری میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ طالبان نے جو اس شہر میں قدم جمائے ہیں وہ بھی ایک چیلنج بن چکا ہے۔ کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پرالزامات بھی لگائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کراچی کو بہت سے مسائل درپیش ہیں لیکن کراچی کی صورتحال کو درست کرنے کے لیے کیا ہونا چاہیے۔ اس بارے میں ہماری بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں میں سے کوئی بھی آگے نہیں آتا اور نہ ہی اس مسئلے کے حل کے لیے اس وقت سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی مجوزہ فارمولہ پیش کیا جارہا ہے۔ اس وجہ سے خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ بات کسی فوجی یا نیم فوجی آپریشن کی نہ بڑھنے لگے۔ اگر ایسا ہوگیا تو پھر امکان اسی بات کا ہے کہ حالات سدھریں گے نہیں۔ ٹالسٹائی کے بقول کمانڈروں کی رپورٹوں میں کچھ اور ہوگا اور عام لوگ کچھ اور کہہ رہے ہوں گے۔ سیاستدانوں کو اس وقت صورتحال کی نزاکت کو محسوس کرنا چاہیے اور شیر‘ بلے‘ تیتر اور سائیکل کی لڑائی سے کچھ وقت نکال کر اس اہم قومی مسئلے پر محض دکھ کا اظہار کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے بجائے کوئی ایسا متفقہ فارمولہ کراچی کی تمام سٹیک ہولڈرز سے گفت و شنید کے بعد پیش کرنا چاہیے جس سے اس شہر کا امن بحال ہو اور یہاں فوجی آپریشن یا نیم فوجی آپریشن کے ممکنہ خطرات ختم ہوجائیں۔ ہم سب کی عافیت اسی میں ہے۔ وگرنہ ہوسکتا ہے الیکشن جیتنے والوں کو بھی کراچی کی بدامنی لے ڈوبے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved