سوڈان میں پچھلے چند دنوں میں فوجی و ریاستی درندگی کی وجہ سے ایک سو سے زیادہ احتجاجی مظاہرین قتل ہو چکے ہیں۔ 40 سے زیادہ لاشیں دریائے نیل سے نکلی ہیں جہاں ان کو قتل کرکے فوجیوں نے پھینکا تھا۔ اس تحریک کی وجہ سے نہ صرف سوڈان کی ریاست ہچکولے کھا رہی ہے بلکہ پورا افریقی براعظم عدمِ استحکام کا شکار ہو رہا ہے۔ جہاں تحریک کو ریاستی بربریت کا سامنا ہے‘ وہاں تحریک میں بیرونی سامراجی عزائم رکھنے والی ریاستیں اور عناصر اس کو اندر سے کھوکھلا کرنے کی واردات بھی کر رہے ہیں۔ عمرالبشیر کی آمریت کو گرانے کے بعد بھی تحریک کا جاری رہنا اس کے انقلابی کردار کی غمازی کرتا ہے۔ لیکن جبر اور داخلی و خارجی سازشوں کا مقابلہ کرنے اور اس نظام کو یکسر ختم کرنے کی اس جدوجہد میں اس تحریک اور خصوصاً قیادت کے لئے بڑا امتحان ہے۔ ہر انقلابی تحریک میں ایک مرحلے پر قیادت کا کردار کلیدی بن جاتا ہے۔ لیون ٹراٹسکی نے لکھا تھا ''نسلِ انسان کا تاریخی بحران آج سمٹ کر انقلابی قیادت کے بحران تک محدود ہو گیا ہے‘‘۔
دسمبر 2018ء میں سوڈان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بنیادی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف شروع ہونے والی عوامی تحریک جلد ہی معاشی مطالبات سے آگے بڑھتے ہوئے سیاسی مطالبات یعنی تیس سالوں سے حکمرانی کرنے والے آمر عمرالبشیر کی برطرفی کے مطالبے تک پہنچ گئی۔ بالآخر 11 اپریل کو تحریک کے مزید آگے بڑھنے کے خوف سے فوج نے مداخلت کرتے ہوئے عمرالبشیر کو برطرف کرکے عبوری ملٹری کونسل تشکیل دے کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ نئے فوجی حکمرانوں نے تحریک کو ٹھنڈا کرنے کے لیے عمرالبشیر اور اس کے قریبی حواریوں کو گرفتار کرنے اور اعلیٰ عدالتی افسر شاہی کو عہدوں سے ہٹانے کے کچھ علامتی اقدامات بھی کیے لیکن تحریک کا مطالبہ ہے کہ اقتدار فوری طور پر 'سویلین‘ نمائندوں کو منتقل کیا جائے۔
عوام عمرالبشیر کی جگہ لینے والی فوجی کونسل کو سابقہ صدر کی جابرانہ حکمرانی کا تسلسل قرار دے رہے ہیں کیونکہ اس کونسل میں شامل زیادہ تر وہی فوجی افسران ہیں جنہوں نے عمرالبشیر کی تیس سالہ آمریت میں اس کا بھرپور ساتھ دیا اور مختلف عہدوں پر فائز رہ کر عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ جمعرات 9 مئی کو خرطوم میں فوجی کونسل کے خلاف دیوہیکل مظاہرے ہوئے۔ مظاہرین کا سب سے اہم نعرہ تھا، ''ہم اپنے لہو سے انقلاب کی حفاظت کریں گے‘‘۔
مظاہرین کے دبائو میں آکر فوجی کونسل کے تین جنرل عمر زین العابدین، الطیب بابکر علی اور جلال الدین الشیخ نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ یہ تینوں عمرالبشیر کی حکومت میں بنیاد پرستی کے جبر کو لاگو کرنے میں پیش پیش تھے۔ بالخصوص الطیب بابکر علی امن عامہ کی پولیس کا سربراہ تھا جو ہر سال چالیس سے پچاس ہزار خواتین کو 'فحش‘ لباس یعنی ٹرائوزر اور جینز وغیرہ پہننے اور سکارف نہ پہننے کی پاداش میں گرفتار کرتا تھا اور لوگوں کی نجی محفلوں پر بھی چھاپے مارتا تھا۔
مشرق وسطیٰ کے کچھ ممالک کی طرح سوڈانی ریاست بھی برطانوی سامراج کی تخلیق کردہ ہے لیکن نام نہاد آزادی کے بعد ''مقامی‘‘ حکمرانوں کے جابرانہ اقدامات‘ بالخصوص جنوبی سوڈان کو 'عربی‘ اور 'اسلامی‘ بنانے کی کوشش کے ردعمل میں جنوب میں ان کے خلاف غم و غصے میں اضافہ ہوا جو شمالی سوڈان میں بھی پھیل گیا۔ مزدوروں اور محنت کشوں کے مظاہرے اور ہڑتالیں شروع ہو گئیں جس کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی آف سوڈان پیش پیش تھی۔ بالآخر 26 اکتوبر 1964ء کو نیشنل فرنٹ (جو مذہبی پارٹیوں، کمیونسٹ پارٹی اور دیگر غیرقانونی ٹریڈ یونینوں کا اتحاد تھا) نے ایک عام ہڑتال کی کال دی۔ اس ہڑتال کو کچلنے کے لیے فوج کو بھیجا گیا جس نے ہڑتالیوں اور مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ اس نے اقتدار نیشنل فرنٹ کے حوالے کر دیا‘ لیکن جلد ہی نیشنل فرنٹ میں شامل مذہبی، قوم پرست اور کمیونسٹ پارٹی کی سویلین حکومت بھی کسی طرح کی معاشی خوشحالی لانے میں ناکام ہو گئی۔ 1969ء میں 'فری آفیسرز ایسوسی ایشن‘ کہلانے والے بائیں بازو کے فوجی افسران کی قیادت کرتے ہوئے کرنل جعفر محمد نمیری نے حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اسے 'مئی انقلاب‘ کہا گیا۔ جعفر محمد نمیری نے بہت سے بینکوں اور صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا اور زرعی اصلاحات متعارف کرائیں۔ 1973ء میں ایک نئے آئین کو متعارف کرا کے ملک کو ڈیموکریٹک سوشلسٹ ریاست قرار دے دیا گیا۔ ستر کی دہائی کے اواخر میں اس کا جھکائو مغرب کی طرف ہونے لگا جو بینکوں اور صنعتوں کی نجکاری اور ہالینڈ، فرانس، سوئٹزرلینڈ اور مصر کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدوں سے واضح نظر آرہا تھا۔
1981ء میں یہ بائیں بازو کی کمزوری ایک اور انتہا کو اس وقت پہنچی جب جعفر نمیری نے بنیاد پرستوں کے دبائو میں آ کر ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا اعلان کر دیا اور اخوان المسلمین سے اتحاد کر لیا۔ 1983ء میں اس نے جنوبی سوڈان کی اکثریتی غیر مسلم آبادی کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک میں شریعت نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ جنوبی سوڈان کی حکومت کو برطرف کر دیا اور ادیس ابابا معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں‘ جس سے سوڈان کی دوسری خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔
اسی سال غذائی اجناس پر سبسڈی کے خاتمے کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔ تین ہفتوں تک جاری رہنے والے ان مظاہروں کے بعد اپریل 1985ء میں فوج نے مداخلت کرکے جعفر نمیری کو برطرف کردیا۔ 1989ء میں بریگیڈیئر عمرالبشیر نے حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ملک میں سخت ترین مذہبی قوانین نافذ کر دیئے۔ اخلاقی پولیس عورتوں کو برقع پہننے پر مجبور کرتی تھی۔ سنگسار کرنے کے قوانین بنائے گئے۔ خانہ جنگی کے دوران سرکاری فوج کی جنوبی سوڈان میں غیرمسلم آبادی کے خلاف جنگ اور فوجی کارروائیوں کو جہاد قرار دیا گیا۔ اسی طرح سیاسی مخالفین کو بے رحمی سے کچل دیا جاتا تھا۔
سوڈان میں تیل کے زیادہ تر ذخائر اس کے جنوبی حصے میں تھے۔ امریکی سامراج نے تیل کے انہی ذخائر کو حاصل کرنے اور دیگر سامراجی ممالک کا راستہ روکنے کے لیے جنوبی سوڈان کے علیحدگی پسند مسلح گروہوں کی مکمل حمایت شروع کی اور بالآخر 2011ء میں امریکی سامراج کی سرپرستی میں ''اقوام متحدہ‘‘ نے جنوبی سوڈان کو ایک الگ ملک بنا دیا۔ لیکن اس سامراجی واردات کے نتیجے میں جنوبی سوڈان میں 2013ء میں ایک نئی خانہ جنگی کا آغاز ہوا جس میں اب تک چار لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور لاکھوں ہجرت کر چکے ہیں۔ امریکی اقتصادی پابندیوں کی زد میں آئے ملک پر مزید معاشی بوجھ بڑھا۔ بیروزگاری کی شرح جو 2011ء میں 12 فیصد تھی 2018ء میں بڑھ کر 20 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ نوجوانوں میں یہ شرح 27 فیصد تک ہے۔ رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق دارالحکومت خرطوم میں ایک غیر ہنرمند فیکٹری مزدور ماہانہ 18 سے 27 ڈالر کماتا ہے جو ایک انسان کے زندہ رہنے کے لیے بھی کافی نہیں۔ دوسری طرف ملک میں افراط زر 70 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔
حالیہ انقلابی تحریک میں ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، وکلا اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔ خواتین کی بھی بڑی تعداد شریک ہے اور اکثر مظاہروں اور جلسوں میں خواتین کی تعداد مردوں سے بھی زیادہ رہی ہے۔ بیشتر مظاہروں میں ان کی تعداد 70 فیصد تک ہے۔ عالمی اور علاقائی ریاستیں اس تحریک سے خوفزدہ ہیں اور سوڈان پر اپنا تسلط بھی برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ ان میں سعودی عرب‘ مصر اور متحدہ عرب امارات کی بادشاہتیں آمریت کی حمایت کر رہی ہیں جبکہ ترکی ایران اور دیگر ممالک تحریک میں اپنا اثرورسوخ بڑھا کر تسلط کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ براعظم افریقہ سرمایہ داری کے آغاز سے ہی مختلف سامراجی ممالک کی لوٹ مار اور نسل کشی کا شکار رہا ہے۔ سامراجی ممالک نے معدنی وسائل سے مالامال اس براعظم کو لوٹنے کے لیے مصنوعی لکیریں کھینچ کر مختلف ممالک میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ لوٹ مار کے اس بے رحمانہ کھیل میں دہائیوں میں لاکھوں انسانوں کا خون بہہ چکا ہے۔ یہ خونریزی اور لوٹ مار اس نظام زر کی ضرورت ہے۔ اس لیے براعظم افریقہ کے بیش بہا معدنی وسائل کو یہاں کے عوام کی صحت، تعلیم، علاج اور خوشحال زندگی کی تخلیق کے لیے اسی وقت استعمال کیا جا سکتا ہے جب سرمایہ داری کو اکھاڑ کر تمام مصنوعی لکیروں کو مٹاتے ہوئے ایک افریقی سوشلسٹ یونین میں منصوبہ بند معیشت کے ذریعے تمام تر وسائل کو عوام کے جمہوری کنٹرول میں لایا جائے گا۔