میں کوئی زیادہ فطرت پسند یا نیچری بننے کی کوشش نہیں کر رہا‘ لیکن یہ گھاس‘ پیڑ پودے اور پرندے جیسے میری کمزوری بن چکے ہیں۔ جس دن قمری نظر نہ آئے ‘میری طبیعت دیر تک اُداس رہتی ہے‘ تاہم کسی پیڑ سے اس کی آواز بھی آ جائے تو ایک طرح سے تسلی ہو جاتی ہے۔ میں پھول توڑنے کے بھی حق میں نہیں ہوں اور میرا گلدان خالی ہی رہتا ہے۔ پھل اس لیے نہیں توڑتا کہ یہ پیڑ پر ایک مسحور کن منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ تیار کنوں سے بھرا ہوا پیڑ کچھ لمحوں کے لیے دنیاو مافیہا سے بے خبر کر دیتا ہے‘ بادل تک مجھے فیسی نیٹ کرتے ہیں۔ ساحل تک آتی ہوئی لہر کا شور مجھے کسی اور ہی دنیا میں لے جاتا ہے؛ حتیٰ کہ ہوا چلتی ہوئی مجھے نظر آتی ہے۔
اِدھر گریپ فروٹ کا سائز بڑے گلاب جامن جتنا ہو گیا ہے۔ انار کا پیڑ اپنے تنے تک پتوں سے اس قدر بھرا ہوتا ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ یہ شروع کہاں سے ہوا ہے۔ بھڑوں کا یہ عجب طور دیکھنے میں آیا ہے کہ دن بھر پیڑوں ہی کے آس پاس رہتی ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے کسی پتے پر بیٹھ کر پھر دوسری طرف متوجہ ہوتی ہیں‘ گویا پتے کی نمی چوس رہی ہوں‘ کیونکہ کھانے کو تو پتے پر کچھ موجود نہیں ہوتا۔ چڑیوں کی نوع بنوع چہچہاہٹ میں کوئلوں اور شارقوں کی آواز بھی شامل ہوتی ہے؛حتیٰ کہ واک اور ورزش کا سارا دورانیہ اسی عالم کیف میں گزرتا ہے ‘کیونکہ کمرہ ایک بالکل ہی دوسری دنیا ہے۔
مجھے سبزیاں چننے یا توڑنے کا شوق بچپن ہی سے ہے۔ گاؤں میں تو کبھی یہ مسئلہ ہی نہیں رہا۔ یہاں بھی میں نے آفتاب سے کئی بار کہا کہ کسی بھی کونے میں ایک دومرلے جگہ سبزیوں کے لیے مخصوص کر لی جائے ‘تو کیا ہی اچھا ہو۔ ایک بار لگ جائیں تو ان کی غور و پرداخت میں خود کر لوں گا؛ چنانچہ اس کے لیے زمین تیار بھی کروائی گئی ‘لیکن کسی نہ کسی وجہ سے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی‘ بھنڈی توڑنے کا ایک اپنا ہی مزہ ہے۔ اس کا ایک بیج ایسا بھی ہوتا ہے کہ پتوں کے ساتھ ہی بھنڈیاں بھی نکلنا شروع ہو جاتی ہے۔ کریلے ‘چونکہ پتوں میں چھپے ہوتے ہیں‘ اس لیے پتے ہٹانے کی بجائے ہاتھ مار مار کر معلوم کر لیا جاتا ہے کہ کریلہ کہاں موجود ہے۔ بینگن توڑنے میں ذرا محتاط رہنا ہوتا ہے‘ کیونکہ اس کی شاخوں پر کانٹے بھی ہوتے ہیں۔ گھیا توری کو بیجنے کا کوئی خاص تردد نہیںکرنا پڑتا۔ بس دیوار کے ساتھ بیج ڈال دیئے جائیں تو یہ خود دیوار پر چڑھ جاتی ہے اور پہلے پیلے پھول آتے ہیں پھر توریاں لٹکنا شروع ہو جاتی ہیں۔ گھیا کدو کی خوبی یہ ہے کہ یہ دور سے ہی نظر آ جاتا ہے‘ جبکہ حلوہ کدو تو آپ کو گھر سے ہی نظر آنا شروع ہو جاتا ہے؛ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ کوئی ایسی خواہش جو زندگی میں پوری نہ ہوئی ہو تو میں کہوں گا کہ گھر میں سبزیاں نہیں اُگا سکا!
ہماری ایک نیاز مند سیدہ سیفو نے ظفر اقبال کی شاعری میں سبزیوں اور پھلوں کا تذکرہ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا‘ جو پہلے ماہنامہ'' انگارے‘‘ (ملتان) میں اور پھر ڈاکٹر عامر سہیل آف سرگودھا یونیورسٹی کی خاکسار پر ترتیب دی گئی کتاب میں بھی موجود ہے۔ کچھ نمونے ملاحظہ ہوں:
لالو لال ٹماٹر
اُس کے گال ٹماٹر
کلیاں بہہ کے کھاندا
ظفرؔا یار کریلے
روٹی تھی اس کے تھیلے میں
روٹی پر بھنڈی توری تھی
محبت کا تماشا وصل کی تاثیر جیسا ہے
کہ مل بیٹھے نہیں اور ذائقہ انجیر جیسا ہے
دی ہیں یہ گاجریں خدا نے
رکھ ہاتھ میں صبح و شام رمبا
کھلائیں اس کو اوکاڑے کے امرود
اگر آئے صلاح الدین محمود
اور‘ اب اس ہفتے کی تازہ غزل:
اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ اچھا تھا جوڑ توڑ
جیسے کہ آسمان سے اُترا تھا جوڑ توڑ
آخر ہر ایک جوڑ الگ ہو کے رہ گیا
اس عشقِ نامراد کا ایسا تھا جوڑ توڑ
پہلے تو کچھ سمجھ میں نہیں آ سکا کہ یہ
ایک اور جوڑ توڑ سے نکلا تھا جوڑ توڑ
کرتے ہیں بیوقوفیاں سارے اس طرح
ایسا ہی کچھ ہمارا تمہارا تھا جوڑ توڑ
سازش اگر یہ تھی بھی تو کس کے خلاف تھی
خود آ گئے لپیٹ میں‘ ایسا تھا جوڑ توڑ
اب پوچھتے ہیں خود سے مگر لاجواب ہیں
یہ آخری تھا یا کوئی پہلا تھا جوڑ توڑ
وہ جوڑ تھا کہ توڑ‘ نشاں بھی نہیں ہے اب
اس طرح سے بنا ہوا اُدھڑا تھا جوڑ توڑ
اپنی طرف سے ختم کیا جوڑ توڑ‘ اور
دیکھا تو پہلے سے بھی زیادہ تھا جوڑ توڑ
اب جو بھگت رہے ہیں کوئی اور ہے‘ ظفرؔ
ہم نے تو کوئی اور ہی سوچا تھا جوڑ توڑ
آج کا مقطع
اسی زرد پھول کی بد دعا ہے ظفرؔ یہ دل کی فسردگی
مرا منتظر رہا مدتوں جو پس ِ نقاب کھِلا ہوا