اُردو شاعری ذاتی دکھڑوں سے بھری پڑی ہے۔ گل و بلبل کے افسانوں میں بھی اپنا ہی دکھ بیان کیا جاتا ہے۔ اب‘ چونکہ زمانے میں دکھ زیادہ ہیں اور ہر انسان کسی نہ کسی حوالے سے الجھن میں مبتلا اور دکھی پایا جاتا ہے‘ اس لیے بیشتر اشعار میں بیان کی جانے والی کہانی اپنی ہی معلوم ہوتی ہے ع
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
انسان کا فطری میلان یہ ہے کہ وہ اپنی ہر مصیبت کو بہت بڑی اور انوکھی شمار کرتا ہے۔ بیشتر انسانوں کا یہ حال ہے کہ اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا دکھی تصور کرتے ہیں۔ ہر پریشان حال انسان یہ گمان کر بیٹھتا ہے کہ اُس سے زیادہ پریشان اس وقت روئے ارض پر کوئی نہیں! خدا سے شِکوہ یوں کیا جاتا ہے کہ ؎
بے تابیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
جب کچھ نہ بن سکا تو مِرا دل بنا دیا
کیا واقعی ایسا ہے کہ زندگی میں دکھ ہی دکھ ہیں؟ کیا واقعی زندگی ہر قدم پر ایک نئی مصیبت سے دوچار ہوتی ہے؟ ہمیں اِس دنیا میں قیام کی مہلت کیا‘ اِس لیے دی گئی ہے کہ ہر وقت پریشان اور الجھنوں سے نبرد آزما رہیں؟ کیا زندگی محض دشواریوں سے لڑنے یا لڑتے رہنے کا نام ہے؟
ایسا نہیں ہے اور یقیناایسا نہیں ہے۔ ہر قدم پر دکھ اور پریشان محسوس کرنا بنیادی طور پر صرف اُن کا وتیرہ ہوا کرتا ہے ‘جو عمل سے بھاگتے ہیں۔ زندگی ہمارے لیے جو مسائل پیدا کرتی ہے‘ وہ دراصل چیلنج ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی الجھنوں اور دشواریوں کی صورت میں ہمارے خالق و رب نے ہماری آزمائش کا اہتمام کیا ہے ‘تاکہ ہم عمل کی لذت محسوس کرسکیں۔ مسائل محض اس لیے ہوتے ہیں کہ اُنہیں حل کیا جائے۔ ہم مسائل کے حوالے سے محض پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ بروقت حل نہ کیے جانے والے باعث ہر مسئلے کے منفی اثرات کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جاتا ہے۔
کسی بھی پریشان کن صورتِ حال سے نمٹنے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ کچھ کرنے کی بجائے اپنے آپ کو انتہائی بدنصیب گردانتے ہوئے دکھی ظاہر کیا جائے‘ تاکہ زیادہ سے زیادہ ہمدردیاں بٹوری جاسکیں۔ جب انسان اس راہ پر چلتا ہے تو چلتا ہی چلا جاتا ہے ‘کیونکہ کرنا کچھ نہیں پڑتا۔ عمل سے گریز کی راہ انسان کو فطری طور پر بہت بھاتی ہے۔ اس روش پر تواتر سے گامزن رہا جائے تو رفتہ رفتہ زندگی بسر کرنے کا یہی ڈھب بہت بھاتا ہے کہ کچھ نہ کیا جائے اور صرف رونا رویا جائے‘ خود کو زیادہ سے زیادہ دکھی سمجھا جائے اور دنیا کو بھی اس کا یقین دلایا جائے۔ اپنے آپ کو دکھی سمجھتے رہنے سے رفتہ رفتہ یہ ذہنیت بھی پنپتی جاتی ہے کہ کچھ بھی کیوں کیا جائے کہ دنیا کچھ کرنے دیتی ہی نہیں! جو ہر معاملے میں رونے دھونے کے عادی ہوتے ہیں‘ وہ اس بے بنیاد سوچ کے بھی حامل ہوتے ہیں کہ لوگ اُن کی راہ میں دیواریں کھڑی کرتے رہتے ہیں اور اُنہیں کامیاب ہونے ہی نہیں دیتے۔
زندگی‘ چونکہ ہم سے عمل مانگتی ہے ‘اس لیے ہم ہر وہ راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ جس پر ہمارا سامنا عمل سے نہ ہو یا کم سے کم ہو۔ عمل سے گریز ہی زندگی کو مشکلات سے دوچار کرتا ہے۔ جب بھی کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے ‘تب اُس کے سامنے ڈٹ جانا ہم پر فرض ہو جاتا ہے۔ زندگی کو آسانیوں سے ہم کنار کرنے اور رکھنے کی یہی سب سے قابلِ قبول صورت ہے۔ یہ راستہ کسی بھی اعتبار سے دشوار نہیں‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسے دشوار ہم بناتے ہیں۔ جب کسی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے ‘یعنی عمل سے گریز کیا جائے ‘تو راہ دشوار سے دشوار تر ہوتی چلی جاتی ہے۔
بہت سوں نے زندگی کے مسائل کا حل یوں تلاش کیا ہے کہ ہر معاملے کو کھوکھلی سی ''سلیبریشن‘‘ کی نذر کر رکھا ہے۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال کو سامنے پاکر کچھ دیر ٹھہرنے‘ غور کرنے اور موزوں لائحۂ عمل تیار کرنے کی بجائے ایسے لوگ غیر ضروری نوعیت کا ہلّا گُلّا کرکے معاملات سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر اہم معاملے کو اُس کے منطقی انجام تک پہنچانے کی بجائے ''مٹی پاؤ تحریک‘‘ چلاتے رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ کوئی بھی معاملہ ‘اِس لیے نہیں ہوتا کہ اُس پر مٹی ڈال کر سکون کا سانس لیا جائے؛ اگر ایسا کرنے سے معاملات درست ہو جایا کرتے‘ تو آج دنیا میں کہیں کوئی کوئی مسئلہ نہ ہوتا‘ کسی کے ذہن میں کوئی الجھن ہوتی ‘نہ زندگی میں کوئی دکھ۔ جو لوگ ہر وقت ہلّا گُلّا کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ زندگی سے بھرپور حِظ اٹھا رہے ہیں ‘وہ دراصل دوسروں کو کم اور اپنے آپ کو زیادہ دھوکا دے رہے ہوتے ہیں۔ زندگی اس نوعیت کے تفنّن کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ جلد یا بدیر یہ کھوکھلی روش انسان کو ''ایکسپوز‘‘ کردیتی ہے اور تب اُس کے پاس صرف پچھتاوے کا آپشن رہ جاتا ہے ؎
اور جو چاہو کرو خندۂ بے جا کے سپرد
اِس ترازو میں غمِ دل کو نہ تولا جائے!
زندگی بے حِسی کی متحمل ہوسکتی ہے ‘نہ کھوکھلی مسرّتوں کی۔ جو لوگ بے حِسی کا مظاہرہ کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے دوسروں کو سیدھا کردیا ہے ‘وہ بھی غلطی پر ہوتے ہیں اور جو لوگ ہر بات کو بے جا تمسخر میں اڑاکر خود کو بہت خوش مزاج ثابت کرنے میں جُتے رہتے ہیں‘ وہ بھی بالآخر سب کی نظر میں کمتر درجے کی شخصیت کے حامل ثابت ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ایسوں کی شخصیت کو شخصیت کہا بھی نہیں جاسکتا۔
زندگی ہم سے صرف اور صرف توجہ‘ کماحقہ تدبر اور معقول و مطلوب حد تک عمل کی طالب ہے۔ معاملات اس لیے ہوتے ہیں کہ اُن پر غور کیا جائے‘ اُن سے بہتر طور پر نمٹنے کی حکمتِ عملی تیار کی جائے اور پھر اُس پر عمل پیرا بھی ہوا جائے۔ ہم اِس دنیا میں کھیل کے لیے بھیجے گئے ہیں‘ نہ کِھلواڑ کے لیے۔ ہر معاملے میں متانت درکار ہے۔ خوش مزاجی اور بذلہ سنجی بھی سنجیدگی کے بغیر کھوکھلی محسوس ہوتی ہے۔ بے جا تفنّن سے زندگی کا حُسن گہنا جاتا ہے۔ ہر معاملے میں ''ہاہا‘ ہی ہی‘‘ پر مبنی رویہ ہمیں عمل کی راہ سے ہٹادیتا ہے۔ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے حوالے سے معقول و متناسب رویہ ہم اُسی وقت اختیار کر پاتے ہیں جب زندگی کو بنیادی اقدار میں نمایاں مقام حاصل ہو۔ زندگی اُنہی کی ہو پاتی ہے‘ جو زندگی کے ہو پاتے ہیں۔ یہی کائنات کا انتہائی بنیادی اصول ہے۔
اہلِ دانش کا مشورہ ہے کہ زندگی کو اِس طور گزارا جائے کہ اُس کا حق ادا ہو یا نہ ہو‘ دل کو یہ اطمینان ضرور ہو کہ حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش تو خیر کی ہی گئی۔ ہم ہر کام جامع ترین انداز سے نہیں کرسکتے ‘مگر اس کی کوشش تو کر ہی سکتے ہیں۔ زندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش ہم پر فرض ہے اور اس کے لیے متانت شرطِ اول ہے۔ ؎
متانت چاہیے ہر گام‘ ہر دم
تفنّن برطرف‘ یہ زندگی ہے