تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     10-06-2019

کامیاب تحریک کے فوری نتائج

اسلام آباد کے سیکٹر F8/2 میں میری گلی کے شرقی سرے پر ہونے والی تاریخی افطار پارٹی کے تاریخی نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے۔ ہاں یہ بھی یاد رہے کہ وہ تحریک جس کا آغاز افطار خوری سے ہوا، ابھی چلی بھی نہیں۔
فرض کریں اپوزیشن کی جادو اثر تحریک کامیاب ہو گئی۔ پھر وطنِ عزیز کا منظر نامہ کیا ہو گا؟ اس سب کو سمجھنے کے لیے جوائنٹ اپوزیشن کے مطالبات سامنے رکھنا ہوں گے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
نمبر1۔ ملک کی معیشت اور احتساب ساتھ، ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جونہی یہ تحریک کامیاب ہوئی اسحاق ڈار کے کرپشن کیسز فوراً واپس ہو جائیں گے۔ نئے عزم، جذبے اور حوصلے کے ساتھ وہ لاہور ایئر پورٹ پر لینڈ کریں گے۔ گلے میں ہار ڈالیں گے اور چوتھی بار پاکستان کے خزانے کی بھرپور خدمت شروع کر دیں گے۔ ان کے دونوں غیر ملکی بیٹے فوری طور پر پھر سے ''پاکستانی‘‘ ہو جائیں گے اور سر پر سفید ٹوپیاں پہن کر بری امام میں لنگر تقسیم کرنے کی تصویر بنواتے نظر آئیں گے۔ سمدھی کے گھر کے باہر جو پبلک پارک سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر واگزار کرایا گیا تھا‘ اُس پر جمہوریت پھر سے رونق افروز ہو جائے گی۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے، چلڈرن پارک کے دونوں جانب لوہے کے گیٹ دوبارہ لگ جائیں گے۔ دبئی کے ٹاور اور لندن کی جائیدادیں سرکاری طور پر حلال ڈکلیئر ہو جائیں گی۔ پانامہ کیس کی ریویو پٹیشن (Review Petition) پھر سے داخل کر دی جائے گی جب کہ پانامہ کی جے آئی ٹی کے اہلکاروں کے خلاف اختیارات سے تجاوز، شریف شہریوں کو ہراساں کرنے اور ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے کی ایف آئی آر درج ہوں گی۔ پانامہ کیس کی تفتیش کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر تادیبی اور محکمانہ کارروائی اس کے علاوہ۔ 
نمبر 2۔ کراچی میں 4 بڑے جلوس نکلیں گے۔ کامیاب تحریک کے جشنِ کامیابی پر۔ پہلا جلوس محکمہ اطلاعات و نشریات کے زیرِ اہتمام، جو سیدھا لانڈھی جیل جائے گا۔ وزارت کے بڑے اہلکاروں نے ہاتھوں میں سونے کے تاج پکڑ رکھے ہوں گے۔ لانڈھی جیل کے اہلکار اسیرانِ جمہوریت کو گارڈ آف آنر پیش کرتے ہوئے کندھوں پر بٹھا کے جیل کے مین گیٹ تک لائیں گے‘ جہاں SUV اور V 8 کا لمبا جلوس اسیرانِ جمہوریت کو لے کر شہر کی سڑکوں پر فاتحانہ گشت کرے گا۔ دوسرا جلوس، مشہورِ زمانہ ہسپتال میں سے نکلے گا جس کی قیادت مریضانِ جمہوریت کریں گے‘ جنہوں نے پچھلے 10 ماہ ایک ہی ہسپتال میں از خود جبری نظر بندی کی زندگی گزار دی۔ تیسرا جلوس، کلفٹن سے برآمد ہو گا، جس میں RPG، کلاشنکوف اور بزوکا سنبھالے ہوئے فدایانِ جمہوریت شہرِ کراچی کو اصلی آتش بازی سے لُطف اندوز کریں گے۔ فالودے والا گرفتار ہو کر ان تینوں جلوسوں کے حق میں نعرے لگانے کی سزا بھگتے گا۔ چوتھا جلوس پٹواریوں، تحصیل داروں، تپے داروں، گرداوروں اور ان کے منشیوں پر مشتمل ہو گا‘ جنہوں نے 3 لاکھ ایکڑ سے زیادہ بے کار سرکاری زمینوں پر بے روزگار ڈویلپرز کو فی سبیل اللہ قبضہ دلوایا تھا۔ یہ قبضہ دلوانے کا مقصد حرام خوری تھوڑی تھا۔ یہ کارِ ثواب تو ثوابِ دارین کے لیے ہوتے رہے۔
نمبر 3۔ پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان، پی آئی اے، ریلوے، وزارتِ برقیات، محکمہ ترقیات، انرجی منسٹری اور پٹرولمیات کے محکموں میں کنٹریکٹ کے پی آر او فوراً واپس آ جائیں گے۔ گُڈگورننس کے ان ماہرین کی نگرانی میں پرانا بیانیہ نئے میک اپ کے ساتھ سامنے آئے گا‘ بلکہ چھا جائے گا۔ اور یوں ایک بار پھر پاکستان راتوں رات ایشین ٹائیگر اور دنیا کی سب سے مضبوط اکانومی بن کر اُبھرے گا۔ ایسی اکانومی جو چھپر پھاڑ کر میٹرک کے طالب علم، پاپڑ والے، ٹرالر والے ڈرائیوروں، چوکیداروں، ٹیکسی ڈرائیوروں، بابا شوگر والی سرکار‘ باورچی، ڈالر گرل اور ڈالر بوائے کے اکائونٹس کو مالا مال کر دے گی۔ سرکاری زمین پر پٹرول پمپ، شادی ہال، سروس سٹیشن، ریسٹورنٹ اور کافی شاپس تعمیر کرنے والوں کی ڈوبتی معیشت بحال ہو جائے گی۔ اس طرح ایک انتہائی لائق فائق، قابل اور تربیت یافتہ ٹیم پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لیے 71ویں سال میں نئے سرے سے متحرک ہو کر ایکشن میں آ جائے گی۔
نمبر 4 ۔ علامہ اقبال انٹرنیشنل ہوائی اڈہ لاہور پھر سے خوش بخت ٹھہرے گا جہاں جمہوریت کے 3 ستون، 3 کزن پارک لین مئے فیئر چھوڑ کر اس ہوائی اڈے پر لاہوریوں کو دیدارِ عام کا شرف بخشیں گے۔ ایف آئی اے‘ امیگریشن حُکام کو راتوں رات ان تینوں کے پاکستانی پاسپورٹ بنانا پڑیں گے‘ جن پر واپسی کی انٹری کی مہر لگے گی۔ ان تینوں ''دادے پوتروں‘‘ کے برٹش پاسپورٹ پچھلی جیب میں چلے جائیں گے اور وہ نئے پاکستانی پاسپورٹ لہراتے ہوئے پاکستان کی تقدیر بدلنے کا اعلان کریں گے۔ ایک شرارتی لاہوریا رپورٹر چھپتے چھپاتے مائیک ان کے منہ کے سامنے جا دھرے گا۔ سوال ہو گا، لندن فلیٹ کس کے ہیں۔ پُر جوش ''کزنِ ثلاثہ‘‘ پوری سنجیدگی سے جواب دیں گے ''اللہ کے فضل و کرم سے یہ فلیٹ ہمارے ہیں۔ جو ہم نے بڑی محنت کی کمائی سے بنائے ہیں۔ کوئی منی لانڈرنگ سے نہیں، ہمیں منی لانڈرنگ سے سخت نفرت ہے اسی لیے منی ٹریل کا نام تک نہیں لیتے ‘‘۔
نمبر 5۔ بے لاگ احتساب کے لیے ملک کے پانچوں آ ئی جی صاحبان، ڈی جی ایف آئی اے اور احتساب کے ادارے کو بے لاگ احتساب کا ریفریشر کورس کروایا جائے گا جس میں گُلو بٹ ان ایکشن والی مشہورِ زمانہ ویڈیو لازمی مضمون کے طور پر دکھائی جائے گی‘ جہاں اسے پنجاب پولیس کو کامیاب قیادت فراہم کرتے دکھایا گیا؛ چنانچہ وہ سارے بطلِ حریت بھی کنٹریکٹ پر واپس آ جائیں گے جنہوں نے پانامہ کیس کی سماعتوں میں سپریم کورٹ کو بتایا تھا‘ قومی ادارے منی لانڈرنگ کے معاملے پر کچھ نہیں کر سکتے۔ اسی دوران اگر 14 اگست آ گیا تو ان سارے مجاہدینِ خلق کو پرائیڈ آف پرفارمنس المعروف صدارتی تمغۂ حُسنِ کارکردگی سے بھی نوازا جائے گا۔ پرائیڈ آف پرفارمنس کے ذکر سے معین اختر مرحوم کی ایک ویڈیو کلپ یاد آ گئی‘ جس میں وہ صفائی کرنے والے بھنگی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انٹرویو کرنے والا صحافی پوچھتا ہے: آپ کو سرکار سے کیا چاہیے۔ جواب ملتا ہے: پرائیڈ آف پرفارمنس! انور مقصود نے سوال کیا: تمہیں پرائیڈ آف پرفارمنس کا مطلب پتا ہے؟ معین اختر مرحوم بولے: جی ہاں! جو اپنے شعبے میں اعلیٰ پرفارمنس دکھائے اسے یہ انعام ملتا ہے۔ پھر کہا، میں 32 سالوں سے آپ کا پھیلایا ہوا گند اٹھاتا ہوں پرفارمنس آپ کی ہوتی ہے اور پرائیڈ ہمیں اٹھانا پڑتا ہے۔
کامیاب تحریک کے دو عدد فوری نتائج پہلے ہی سامنے آ چکے۔ پہلا کراچی سے اسلام آباد آنے والا ٹرین مارچ‘ جس کا رُخ چند گھنٹے کے پُر تکلف مارچ کے بعد لاڑکانہ کی طرف مُڑ گیا تھا۔ دوسرا شہباز شریف کی لندن یاترا سے واپسی پر پنجاب کے کروڑوں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا استقبالی ہجوم جو گزشتہ روز کی ٹی وی کوریج سے دیکھا جا سکتا ہے۔یہ کہتے جِگر چھلنی ہوتا ہے، افطاری کے فوراً بعد ایک پارلیمانی کمیٹی میں قومی اداروں پر حملہ آور گروہ کا نمائندہ بُلایا گیا۔ ساتھ ہی پاکستان کے محافظوں پر حملوں کی نئی لہر اٹھی ہے۔ واقعات کو ری وائنڈ کر کے دیکھیں۔ ان حملہ آوروں میں سے کوئی F8/2 والی افطار پارٹی کا مہمانِ خصوصی تو نہیں۔ ساتھ وہ ویڈیو بھی ملاحظہ کریں جس میں جمہوری تحریک کا ہاف قائد کہتا ہے ''1971ء میں ایک بنگلہ دیش بنا تھا اب نہ جانے کتنے دیش بنیں گے‘‘۔
کیا اب بھی کسی کو شک ہے۔ یہ تحریک کامیاب ہونے کے بعد وطنِ عزیز کا نقشہ بدل دے گی؟؟؟
شرابِ ناب کے شیشے کا کاگ کھولا ہے 
گرفتِ ساز سے ساقی نے راگ کھولا ہے
یہاں شعور کوئی مشورہ نہیں دیتا 
یہ زیست ہے کہ سپیرے نے ناگ کھولا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved