پاکستان جیسے ملک میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں کہ بجٹ کی آمد پر دِلوں میں ہَول سے اٹھتے ہیں۔ یہ عمل بالکل فطری ہے۔ حکومت طے کرلیتی ہے کہ معیشت کو سنبھالنے کے لیے عوام کے ناتواں کاندھے ہی بروئے کار لانے ہیں۔ چند ایک تجزیہ کار دل بہلانے کی باتیں کرکے عوام کو تھوڑا بہت نفسی سہارا دینے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں 1948 ء کی فلم ''پروانہ‘‘ کے لیے خواجہ خورشید انور کی موسیقی میں کندن لعل سہگل کا گائی ہوئی غزل کا مطلع یاد آجاتا ہے: ؎
محبت میں کبھی ایسی بھی حالت پائی جاتی ہے
طبیعت اور گھبراتی ہے جب بہلائی جاتی ہے!
ماہرین اور تجزیہ کار جب بجٹ کے حوالے سے عوام کو طِفل تسلیاں دیتے ہیں تو دل مزید دھڑکتا ہے کہ کہیں متعلقہ مصائب بڑھ نہ جائیں۔ یہ دھڑکا کیوں نہ لگا رہے کہ ہر بار نتیجہ کچھ ایسا ہی تو برآمد ہوتا ہے۔ ایک ماہ سے بھی زائد مدت سے کم و بیش ہر سطح پر یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ بجٹ میں عوام کی مشکلات کا خیال رکھا جائے‘ انہیں ریلیف دیا جائے ‘تاکہ مہنگائی کے ہاتھوں اکھڑی اکھڑی سی طبیعت کے بہلنے اور سنبھلنے کی کوئی صورت نکلے۔ یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے کہ حکومت نے عوام پر مختلف حوالوں سے بوجھ بڑھایا ہی ہے‘ گھٹایا نہیں ‘یعنی اُن کی زندگی کا بجٹ خسارہ بڑھ گیا ہے اور اب تک کے مشاہدے کی بنیاد پر آسانی سے اور بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ بجٹ عوام کی جھولی میں کوئی ایسی چیز نہیں ڈال سکے گا‘ جسے پاکر وہ سکون کا سانس لینے کے قابل ہوسکیں۔
ہر سال بجٹ کی آمد پر عوام کچھ نہ کچھ امیدیں وابستہ کر بیٹھتے ہیں اور جب یہ امیدیں‘ ظاہر ہے‘ بارآور ثابت نہیں ہوتیں تو دل و نظر میں مایوسی کا غبار سا پھیل جاتا ہے۔ ایسے میں طبیعت پر چھا جانے والا اضمحلال کئی دن برقرار رہتا ہے۔ اب پھر بجٹ کی آمد ہے تو عوام اس خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ شاید نصیب جاگ جائے اور حکومت کی طرف سے تھوڑا بہت ریلیف مل ہی جائے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ذہن تھوڑا سا الجھ جاتا ہے۔ ہر بار یہی تو ہوتا ہے۔ مشیر خزانہ کا ذہن کچھ اور ہی سوچ رہا ہوتا ہے۔ اُن کے ذہن میں ایسے تمام ہتھکنڈے ترتیب سے پائے جاتے ہیں‘ جن کی مدد سے عوام کو زیادہ سے زیادہ نچوڑنے میں کسی خاص دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ؎
عوام خوش ہیں بجٹ کی جو آمد آمد ہے
انہیں اُمید ہے دل کی مراد پانے کی
ذرا مشیر خزانہ عوام سے کہہ دیں
تمہاری بات نہیں‘ بات ہے خزانے کی
ہر بار یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عوام پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا‘ مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے گا اور روزگار کے بہتر مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ یہ وعدے اور دعوے سن کر عوام یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ؎
غلط ہو آپ کا وعدہ کبھی؟ خدا نہ کرے
مگر حضور کو عادت ہے بھول جانے کی!
وزیر اعظم عمران خان کیلئے پہلا بجٹ ہی اتنا مشکل ہے کہ اسے پانچ بجٹوں کا ایک بجٹ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج وصولی بڑھانے کا ہے۔ ایسا کیے بغیر کچھ بھلا ہونے والا نہیں اور دوسری طرف عوام یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے ہیں کہ وصولی کی گاڑی میں جانور کی طرح اُنہی کو جَوتنے کی تیاری کی گئی ہے۔
ایک ہفتے سے ٹی وی چینلز پر ٹِکرز چل رہے ہیں کہ سال بھر جن کے اکاؤنٹس میں پانچ لاکھ روپے تک رہتے ہیں اُنہیں ٹیکس نیٹ کی توسیع کیلئے کام میں لایا جائے گا۔ ایسے لوگ‘ اگر ٹیکس ریٹرن جمع نہ کرائیں تو اُن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ سال میں تین غیر ملکی دورے کرنے والوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں خصوصی طور پر داخل کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ بینکنگ سسٹم میں داخل ہی نہیں ہوتے‘ نقد لین دین کرتے ہیں ‘اُن سے حساب کون لے گا؟ملک بھر میں لاکھوں تاجر آج بھی بینکنگ سسٹم سے دور رہ کر ٹیکس بچاتے ہیں اور اپنے کاروبار کو فروغ دیئے جاتے ہیں۔ معاشرے میں پائی جانیوالی سہولتوں سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے یہ لوگ اپنا کاروبار پھیلاتے ہیں‘ مگر ان سہولتوں کو برقرار رکھنے اور اُن کا معیار بلند کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ سب سے واضح مثال ہوٹلز کی ہے۔ چائے اور کھانوں کے ہوٹل یومیہ چالیس پچاس ہزار بھی کماتے ہیں‘ مگر انکم ٹیکس کی مد میں ایک پیسہ ادا نہیں کرتے۔ یہی حال دوسرے بہت سے تاجروں اور دکان داروں کا ہے۔ تنخواہ دار طبقہ ‘اگر کچھ کماتا ہے تو بینکنگ سسٹم کی وساطت سے ٹیکس نیٹ میں آجاتا ہے۔ حکومت اُسی کو نچوڑ لیتی ہے۔ دوسرے رس دار لیموں ایک طرف کھڑے سسٹم کا تمسخر اڑاتے رہتے ہیں!
یہ بجٹ ہمیں کیا دے سکے گا؟ یہ جاننے کیلئے صرف ایک دن کا انتظار کرنا ہے۔ ادھر اُمیدوں کی گرم بازاری ہے اور اُدھر بجلی گرانے کی تیاری۔ حکومت کیلئے اس وقت خزانے کو بھرنا مارو یا مر جاؤ والا معاملہ ہے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے ہی پر آگے کچھ ہوسکے گا۔ یہ حکومت کیلئے سخت آزمائش ہے۔ دس ماہ کے دوران مہنگائی پر قابو پانے میں وہ مکمل ناکام دکھائی دی ہے۔ حکومت کی اکنامک منیج منٹ ٹیم مجموعی طور پر قابلِ رشک کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائی۔ آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں غیر معمولی اور غیر ضروری کمزوری کا مظاہرہ کیا گیا۔ آئی ایم ایف سے طے پانیوالے معاہدے کو پارلیمنٹ کے سامنے رکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی۔ قوم اب تک نہیں جانتی کہ آئی ایم ایف سے طے پانے والے معاہدے کی حقیقی شرائط کیا کیا ہیں اور اُنہیں پورا کرنے کے نتیجے کیا کیا ہوسکتا ہے۔
وفاقی بجٹ عوام کو یہ کہہ کر نہ ٹرخائے کہ: ع
تمہاری بات نہیں‘ بات ہے خزانے کی
اصل خزانہ تو عوام ہی ہیں۔ حکومت اگر قومی خزانے کو مستحکم کرنا چاہتی ہے‘ تو پہلے عوامی خزانے کے استحکام پر متوجہ ہو؛ اگر عوام ہی مستحکم نہیں ہوں گے تو قومی خزانے کو مستحکم بنانے کا عمل کیسے کامیابی سے انجام کو پہنچے گا؟ دعا ہے کہ اب کے دعائیں مستجاب ہوجائیں‘ عوام کو دل کی مراد ملے۔ عوام کو کچھ دے گی تو حکومت عوام سے کچھ پاسکے گی۔ جن کے پاس پہلے ہی بہت کچھ ہے‘اُنہیں بچاکر اگر صرف عوام کو نشانے پر لیا جائے گا تو حکومت کے لیے خرابیاں بڑھیں گی۔ ایسی ہر کوشش وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں کیلئے پریشانی کا سامان کرے گی۔ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کے نرخ بڑھاکر عوام کو پہلے ہی خاصا بدظن کیا جاچکا ہے۔ بجٹ میں اُن سے مزید وصولی کا اہتمام کیا گیا تو جو تھوڑی بہت خوش گمانی رہ گئی ہے‘ وہ بھی جاتی رہے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم کے اکنامک مینیجرز معاملات کو بحسن و خوبی نمٹانے میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کے ''پولیٹیکل مینیجرز‘‘ تو اُن کے لیے خاصی سُبکی کا سامان کرچکے ہیں۔ اب اکنامک مینیجرز کو معیشت کی بحالی کے حوالے سے اُن کیلئے تھوڑی بہت توقیر کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے۔