آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قبل از بعثت کے یادگار واقعات میں سے ایک بہت اہم واقعہ وہ حلف ہے ‘جو قریش کے مختلف خاندانوں کے چند افراد نے باہمی طور پر طے کیا۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم بھی اس معاہدے میں ایک رکن کے طور پر شریک تھے۔ زیرنظر واقعہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کے بیسیویں سال کا ہے۔ عربوں کی ساری خرابیوں کے باوجود ان کے اندر ابھی تک اخلاق حسنہ کی بعض باقیات موجود تھیں۔ ظلم کے خلاف کبھی کبھار ان کی رگِ حمیت جاگ اٹھتی تھی اور وہ ظالم سے مظلوم کا حق دلانے کے لیے سینہ سپر ہوجاتے تھے۔ قبیلہ بنوزبید کا ایک شخص کچھ مال تجارت لے کر مکہ آیا۔ اس کی بیٹی بھی اس کے ساتھ تھی۔ اس تاجر سے اس کا سامان مکہ کے مشہور اور مال دار سردار عاص بن وائل نے خرید لیا‘ لیکن اس نے سینہ زوری کرتے ہوئے اس زبیدی تاجر کی بیٹی کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ وہ اجنبی شخص خانہ کعبہ میں آیا اور خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر بلند آواز سے روتے پیٹتے ہوئے فریاد کرنے لگا: اے شہرمکہ کے شرفا! تمہارے بااثر آدمی عاص بن وائل نے مجھ سے زبردستی میری بیٹی چھین لی ہے۔ میں مسافر اور مظلوم ہوں‘ تمہاری خدمت میں درخواست گزار ہوں کہ میری داد رسی کرو اور میری بیٹی مجھے واپس دلاؤ۔قریش کے کچھ نوجوانوں نے اس مظلوم کی آہ وپکار سنی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ مردانگی کا تقاضا ہے‘ اس مسافر کی دادرسی کی جائے۔ جب تاریخ میں ہم اس واقعہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو دل سے یہ بات اٹھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کے اندر ایک مظلوم کی دادرسی کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے ان لوگوں کے دل خیر پر آمادہ کردیے۔ یہ کتنے لوگ تھے؟ اس پر کوئی مستند حوالہ ہماری نظر سے
نہیں گزرا؛ البتہ گمان غالب یہ ہے کہ یہ لوگ درجن بھر کے لگ بھگ ہوں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں پیش پیش تھے۔ یہ سب لوگ اس زبیدی کو اپنے ساتھ لے کر عاص بن وائل کے دروازے پر پہنچے۔ اسے باہر بلایا گیا اور سب نے یک زبان کہا کہ اس مظلوم پر تم نے کیوں ظلم ڈھایا ہے؟ اس ظالم نے کہا: میں نے کوئی ظلم نہیں کیا‘ وہ لڑکی کنیز ہے۔ جب مال کا سودا کیا تھا تو یہ لڑکی بھی میں نے اس شخص سے خرید لی تھی۔ عاص بن وائل کا جواب سن کر وفد کے لوگوں نے زبیدی سے وضاحت مانگی تو اس نے کہا: خانہ کعبہ کی عظمت وتقدس کی قسم! میں نے اپنی لڑکی بیچی نہیں اور نہ ہی وہ کنیز ہے‘ وہ میری بیٹی ہے اور اس شخص نے اپنی قوت کے بل بوتے پر زبردستی اسے اغوا کرکے اپنے گھر میں ڈال لیا ہے۔ اس پر وفد کے لوگوں نے سختی کے ساتھ عاص بن وائل سے بات کی تو اس بدبخت نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا اور زبیدی کی لڑکی اسے واپس دینا پڑی۔ لڑکی واپس کرنے کے وقت بدبخت عاص نے ارکانِ وفد سے کہا کہ میں کل صبح لڑکی واپس کروں گا۔ ایک رات مجھے اس کے ساتھ گزار لینے دو۔ وفد کے تمام غیرت مند ارکان نے اسے سختی کے ساتھ اس ارادۂ بد پر شرم دلائی اور کہا کہ یہ ہرگز ممکن نہیں؛چنانچہ اسے اپنے شیطانی ارادے پر عمل کا موقع نہ ملا۔ زبیدی کی بیٹی اسے واپس دلادی گئی۔ اب اس نے اپنی بیٹی کو ساتھ لیا اور اپنے علاقے کی طرف روانہ ہوگیا۔ جاتے ہوئے وہ اور اس کی بیٹی ان تمام نوجوانوں کو دعائیں دے رہے تھے‘ جنہوں نے ان کی دادرسی کی۔ مظلوم کی بددعابھی ربّ عرش تک بلا روک ٹوک پہنچتی ہے اور اس کی دعا بھی۔ وہ قریشی نوجوان خوش نصیب تھے ‘جنہوں نے مظلوم سے دعائیں لیں۔
جب اس تنازع کا فیصلہ بحسن وخوبی ہوگیا تو وفد کے ارکان میں سے بعض نے مشورہ دیا کہ اس قسم کے واقعات وقتاً فوقتاً رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم آپس میں حلف اٹھائیں کہ ہم ظالم کے مقابلے پر ہر مظلوم کی مدد کریں گے‘ خواہ وہ کوئی بھی ہو؛ چنانچہ یہ سب لوگ عبداللہ بن جدعان کے گھر پر اکٹھے ہوئے اور اللہ کے نام پر سب نے حلف اٹھایا‘ جس کے الفاظ یہ تھے ''ہم حلف اٹھاتے ہیں کہ غصب شدہ چیز مالک کو واپس دلائیں گے اور آج کے بعد کسی پر ظلم کو برداشت نہیں کریں گے‘ ہر مظلوم کی دادرسی ہوگی اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دی جائے گی۔‘‘ الفضول کا معنی ہے کہ وہ چیز جو ظلم کے ساتھ چھینی جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: میں نے عبداللہ بن جدعان کے گھر میں جو حلف اٹھایا تھا‘ آج اسلامی دور میں بھی اگر کوئی مجھے اس کی طرف دعوت دے تو میں لبیک کہوں گا۔ (البدایۃ والنہایۃ‘ السیرۃ الحلبیۃ)
اس حلف کو حلف الفضول کہنے کی تین وجوہات بیان کی گئی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ حلف میں جتنی باتیں کی گئی تھیں وہ اخلاقی فضائل کے زمرے میں آتی ہیں‘ دوسری یہ کہ فضول اس متاع کو کہا جاتا ہے ‘جو جبروظلم سے چھین لی جائے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اس حلف میں شامل ہونے والے افراد میں سے تین کے نام فضل تھے۔ مورخ حلبی نے اپنی تاریخ میں مزید ایک وجہ بیان کی ہے کہ ان لوگوں نے یہ بھی حلف اٹھایا تھا کہ اپنی کمائی میں سے ضروریات سے زائد مال مہمانوں کی ضیافت کے لیے خرچ کریں گے۔ تحالفوا‘ ان اخرجوا فضول اموالہم للاضیاف۔ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ تین ارکانِ حلف اس نام سے موسوم تھے: (۱) الفضل بن فضالہ‘ (۲) الفضل بن وداعہ‘ (۳) الفضل بن الحارث۔ یہ ابن قتیبہ کی روایت میں بیان ہوئے ہیں‘ جبکہ ابن کثیر نے دوسری روایت مورخ سُہیلی کے حوالے سے لکھی ہے اور اس میں یہ نام آئے ہیں: الفضل بن شراعہ‘ الفضل بن وداعہ اور الفضل بن فضاعہ۔ (البدایۃ والنہایۃ‘ اول‘ ص۴۱۶)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پوری زندگی میں جب بھی اس حلف کو یاد کرتے تو اس کی تعریف ضرور فرماتے۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا: عبداللہ بن جدعان کے گھر پر میں نے جس حلف میں حصہ لیا تھا (مجھے اس کا اتنا احترام ہے کہ) اگرکوئی مجھے سرخ اونٹوں کا گلہ بھی پیش کرے تو میں اس کو ہرگز نہیں توڑوں گا۔ آج دورِ اسلام میں بھی مجھے کوئی اس حلف کی طرف بلائے گا تو میں اس کا مثبت جواب دوں گا۔ زمانہ جاہلیت میں قریش کے اہلِ خیر نے جتنے اچھے کام کیے ہیں‘ ان میں سے ایک بہت عظیم کارنامہ ہے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل اس واقعہ کا ظہور اللہ کی طرف سے ایک خاص نعمت تھی‘ جس پر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کیا۔ (البدایۃ والنہایۃ‘ اول‘ ص۴۱۷)
ہماری نظر سے اسی باب میں ایک دل چسپ روایت گزری ہے‘ جس کے مطابق ولید بن عتبہ بن ابی سفیان (حضرت امیرمعاویہؓ کا بھتیجا) اور حضرت حسین بن علیؓ کے درمیان ایک تنازع پیدا ہوا۔ ولید جب مدینہ کا گورنر مقرر ہوا تو اس نے اپنی قوت کے بل بوتے پر سیدنا حسین بن علیؓ کی ایک جایداد جو ذوالمروہ کے مقام پر تھی‘ قبضے میں لے لی اور گورنری کا رعب جمانے لگا۔ حضرت حسین بن علیؓ گورنر ہاؤس میں تشریف لے گئے اور آپ نے فرمایا: ''اے ولید! تم میری جایداد سے قبضہ اٹھا لو‘ اگر ایسا نہ کرو گے تو میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ پھر میں اپنی تلوار نکال لوں گا اور مسجد نبوی میں کھڑے ہوکر اعلان کروں گا کہ اے اہلِ ایمان آج پھر حلف الفضول کو دہرانے کا لمحہ آگیا ہے۔‘‘
عبداللہ بن زبیرؓ بھی اس وقت وہاں موجود تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حسین کا حق اگر واپس نہ کیا گیا تو میں بھی اس کے حصول کے لیے اپنی تلوار نکال کر اس کے ساتھ کھڑا ہوجاؤں گا۔ پھر یا تو اس کا حق دلوا کے رہوں گا یا جان کی بازی لگا دوں گا۔ حضرت مسور بن مخرمہ بن نوفل زہری تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے بھی یہی اعلان کیا ‘جو عبداللہ بن زبیرؓ نے کیا تھا‘ پھر اس تنازع کی خبر حضرت عبدالرحمن بن عثمان بن عبداللہ تیمی تک پہنچی تو انہوں نے بھی وہی الفاظ دہرائے۔ والیٔ مدینہ ولید بن عتبہ کو جب اس صورت حال کا پتا چلا تو اس نے حضرت حسینؓ کا حق انہیں واپس دے کر راضی کرلیا۔ (البدایۃ والنہایۃ‘ اول‘ ص۴۱۷)۔
حق دار کو اس کا حق دلانے کی کاوش اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے۔ اللہ کے نبیوں کی آمد کا مقصد بھی قرآن نے یہی بیان کیا ہے کہ عدل قائم ہو اور ظلم مٹ جائے۔ مظلوم کے حق میں اگر لوگ اٹھ کھڑے ہوں توہر دور میں ظالموں کو ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں۔ المیہ یہ ہوتا ہے کہ معاشروں کے اندر بے حسی اور ذاتی مفادات کی سوچ پختہ ہو جاتی ہے۔نتیجتاً ظالم منہ زور ہو جاتا ہے اور مظلوم بے بس و مجبور ہو کر دھکے کھاتا پھرتا ہے۔ سنتِ رسولؐ کس قدر واضح ہے کہ ظلم کا خاتمہ شانِ مومنانہ اور فرضِ عین ہے۔ آج اس جذبے کو پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔