ایک دوست نے سوال کیا : سائنسدان دن رات محنت کرتے ہیں ‘ Research کرتے ہیں اور ہم ان کی تحقیق کو اپنے عقائد (beliefs) ثابت کرنے میں استعمال کرتے رہتے ہیں ؛ اگر ترقی کرنا ہے ‘تو ہمیں یہ روش ترک کرنا ہوگی !
ایک حد تک یہ بات درست ہے ۔ مسلمانوں نے اگراپنی ریسرچ نہ کی تو وہ کبھی ترقی نہ کر سکیں گے ۔اسی طرح یہ بات بھی درست ہے کہ بگ بینگ کی دریافت سے لے کر زمین کے نیچے دفن لوہے اور سلیکان تک‘ سائنسدان کچھ بھی تخلیق نہیں کر رہے‘ بلکہ جو کچھ کسی نے تخلیق کر کے رکھ دیا ہے‘ اس کا جائزہ لے کر اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اب ‘اگر پچاس ہزار سال تک انسان نسل درنسل کسی کی رکھی ہوئی چیزوں کا فائدہ اٹھاتا رہے‘ ریکارڈنگ کرتا رہے‘ لیکن کبھی یہ نہ سوچے کہ یہ سلیکان اور یہ لوہا کس نے یہاں رکھا ہے اور کیوں؟ کیا یہ سب اتفاق ہے یا کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ ‘ تو آپ اس شخص کو عقلمند کہیں گے؟ کبھی بھی نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ خدا کو مان لینے سے آپ ساری زندگی پابندی در پابندی کا سامنا کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ خدا پر ایمان لاتے ہیں تو پھر آپ کو ساری زندگی بہت سی پابندیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہمارا اٹھنا‘ بیٹھنا‘ شادی‘ بچے‘ کام کاج میں حلال حرام‘ ہر چیز تو خدا کی مرضی سے کرنی پڑتی ہے؛ اگر نہیں تو پھر گناہ گار ہونے کا احساس جرم پالنا پڑتا ہے تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں بنتا کہ ہم ایک دفعہ دیکھ ہی لیں کہ کیا کوئی خدا ہے بھی یا نہیں اور اگر نہیں ہے تو کیوں نہ اس سے آزادی حاصل کر لی جائے اور اگر ہے تو کیوں نہ اس کی بات مان لی جائے۔
یہ بات درست ہے کہ سائنسدان دن رات تحقیق کر رہے ہیں ‘لیکن وہ اسی سلیکان کو نکال کر اس پر تحقیق کر رہے ہیں‘ جو کسی نے زمین کے نیچے رکھ دی تھی۔ کون تھا وہ؟ اور کیوں اس نے یہ عناصر زمین میں رکھے‘ جن میں ویڈیو ریکارڈہو سکتی ہے۔ کیا یہ سب اتفاق ہے اور یہ کیسا اتفاق ہے کہ زمین کی تاریخ میں اس پر بسنے والی پانچ ارب مخلوقات میں سے ایک کپڑے پہن رہی ہے‘ مردے دفنا رہی ہے‘ کیمرے بنا کر ریکارڈنگ کر رہی ہے۔ باقی سب اسی طرح ہونق ہیں۔ دوسری طرف آپ خدا کو دیکھیں تو اسے کوئی ڈر خوف نہیں ہے۔ وہ تو کہتاہے کہ میرے پسندیدہ بندے زمین و آسمان کی تخلیق میں غور کرتے رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ یقین کریں کہ آپ کچھ بھی نہیں کر رہے ۔یہی ایک سوال ہے کہ وہ ذاتِ مبارک ہے یا نہیں ۔ باقی جتنی تنگی اور جتنی فراخی آپ کو نظر آرہی ہے ‘ سب اس کے ہاتھ میں ہے ۔ آپ کے دماغ میں پیدا ہونے والے آئیڈیاز ‘ initiative ان کے لیے ذرائع‘ سب کچھ تو اس کے ہاتھ میں ہے ‘ اسی لیے تو وہ کہتاہے کہ تم تو چاہ بھی نہیں سکتے؛ اگر میں نہ چاہوں ۔
مغرب نے اس وجہ سے ترقی نہیں کی کہ اس نے مذہب کو ترک کیا‘بلکہ اس لیے کہ اس نے دنیا کی ہر چیز میں سخت مشقت کی ۔آخرت کو ترک کیا اور دنیا کو پانے کے لیے شدید ریاضت کی۔ ہر Elementکا جائزہ لیا کہ اس سے کیا فائدہ اٹھایا جا سکتاہے ۔ زیر زمین دفن وسائل سے سب سے زیادہ مغربی ممالک نے فائدہ اٹھایا۔ پاکستان جیسے ملکوں میں تو ابھی تک کچھ نکالا ہی نہیں گیا ؛ اگر کبھی کچھ نکالا بھی جاتا ہے تو یہ کام مکمل طور پر بڑے مغربی سرمایہ کاروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے‘ جو سب کچھ خود لے اڑتے ہیں اور غریب ممالک کے ہاتھ چھیچھڑے ہی آتے ہیں ۔اس میں سب سے زیادہ قصور توان کا ہی ہے ‘ جن کے پاس شدید غربت سے نکلنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ہی نہیں ‘ کامیابی اور ناکامی تو بہت دور کی بات ۔
سلیکان ڈائی آکسائیڈ اور شیشے وغیرہ کی بات ہو رہی تھی ۔ انسان نے جب زمین پر موجود عناصر کی خصوصیات جان کر ان سے فائدہ اٹھانا شروع کیا توا ن میں ہر جگہ عام پایا جانے والا سلیکان ڈائی آکسائیڈ بھی تھا۔ عام الفا ظ میں آپ اسے ریت کہہ سکتے ہیں ۔شیشہ اسی سے بنتا ہے ‘ اسی طرح انسان کو اس بات کا علم ہوا کہ شیشے کے ایک طرف چاندی یا ایلومینیم کی چادر چڑھا دی جائے‘ تو اس سے بہت اچھا آئینہ بن سکتاہے ۔ بعد ازاں انہی عناصر کو انسان نے دوربین میں استعمال کرنا شروع کیا ۔ آہستہ آہستہ اسے دور کی چیزیں نظر آنے لگیں ۔ یہ بہت ہی لذت آمیز عمل تھا کہ انسان کو ہمیشہ سے نامعلوم چیزوں کو جاننے کا شو ق رہا ہے۔ اس شوق کے ہاتھوں اَن گنت انسانوں نے اپنی زندگیاں نذر کی ہیں ۔ جب انسان دور تک دیکھنے لگا تو پھر اس پر ایک خوفناک انکشاف ہوا کہ ہماری یہ زمین تو دنیا کا محور و مرکز ہرگز نہیں ہے ۔
یہ بہت خوفناک صورتِ حال تھی ۔ اس لیے کہ انسان ہمیشہ سے خود کودنیا کی سب سے اہم مخلوق تصور کرتا آیا ہے اور اسی طرح اپنی زمین کو دنیا کا سب سے اہم سیارہ ۔ اب‘ لیکن جو صورتِ حال اس پر واضح ہو رہی تھی ‘ اس کے مطابق زمین سینکڑوں کھرب سیاروں میں سے ایک عام سا سیارہ ہی تھی ۔ اس انکشاف سے انسانوںکے مجموعی نفس کو ایک زوردار جھٹکا لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس میں خوف پیدا ہو گیا کہ کہیں کسی اورزمین پر ہمارے سے زیادہ ترقی یافتہ ذہین مخلوق نہ پائی جاتی ہو ۔اس کے ساتھ ساتھ بے انتہا تجسس کی وجہ سے انسان کے دماغ میں ایسی کسی مخلوق تک پہنچنے کی خواہش بھی انگڑائی لینے لگی۔
یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جو انسان اس زمین پر ہمیشہ باہمی جنگ و جدل کا شکار رہا ہے ‘ وہ اربوں ڈالر خرچ کر کے مریخ پہ باہمی تعاو ن کے ساتھ مشن اتار رہا ہے اور تو اور ایک خلائی مشن نظامِ شمسی کی حدود سے باہر بھی جا چکا ہے ‘ جس کا نام وائیجر ون ہے ۔ لطیفہ یہ ہے کہ وائیجر ون میں انسان کی طرف سے ایک پیغام انگلش‘ چائنیز ‘ روسی اوردنیا کی ہر اہم زبان میں ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم انسان امن کے داعی ہیں اور ہم دنیا میں کسی بھی دوسری ذہین مخلوق کے ساتھ پر امن تعلقات قائم کرنے کی پرجوش خواہش رکھتے ہیں ۔ اس آڈیو پیغام کے ساتھ‘ اگر جاپان پہ گرانے جانے والے ایٹم بم اور دو عالمی جنگوں کی ویڈیو بھی ریکارڈ کر دی جاتی تو خلائی مخلوق کو انسان کی امن پسندی کا عملی نمونہ بھی نظر آجاتا ۔
بہرحال مغرب والے بھرپور تحقیق کر رہے ہیں اور وہ اپنی ریسرچز سے بھرپور فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں ۔آج زیادہ تر ریسرچ انگریزی زبان میں ہے ۔ امریکہ کو دیکھیں کہ اس نے اپنا شیل آئل نکالنے کی ٹیکنالوجی بہتر کی اور خلیج کے تیل پر اپنا انحصار بہت کم کر دیا ۔ اس سے ان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی پیدا ہوئی ۔ ہمیں ‘اگر آگے بڑھنا ہے تو پہلے ہمیں چند صدیوں میں مغرب کی طرف سے کی جانے والی قابلِ قدر ریسرچ کو پڑھنا ہوگا ‘ بجائے صفر سے کام شروع کرنے کے ؛ البتہ یہاں کچھ لوگ آپ کو یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ مسلمان کبھی بھی کچھ نہیں تھے‘ مسلمان آج کچھ بھی نہیں ہیں اور مسلمان مستقبل میں کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔ اس طرح کے لوگ ہر قوم میں ہوتے ہیں ‘لیکن عالمی تاریخ تویہ بتاتی ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کے ادوار بدلتے رہتے ہیں؛البتہ ‘اگر ہم اسی طرح تقدیر کے رحم و کرم پر رہے تو پھر واقعی ہمارا کچھ نہیں ہو سکتا۔