تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     12-06-2019

یہ کچھ کر لیں گے؟

جو حکومت پچھلے سال چار ہزار تین سو ارب روپے ٹیکس کا کمتر ہدف حاصل نہیں کر پائی‘ کیا آئندہ مالی سال میں آئی ایم ایف کے تقاضے پر رکھا گیا پانچ ہزار ارب سے زائد کا ہدف حاصل کر پائے گی؟ وزیر اعظم عمران خان کے دعوے ہوا ہو چکے۔ ان کی معاشی ٹیم کی قلعی کھل چکی اور ایک قیمتی سال بھی ضائع ہو گیا۔ اب تو بس گھبراہٹ کا عالم ہے اور چار سو چھائی نالائقی کی دبیز چادر ہے۔ اس حکومت کے گرد تنے ہوئے کرّۂ نالائقی سے کوئی مفید مشورہ گزر سکتا ہے‘ نہ اس کے پار کوئی ڈھنگ کی صلاح سننے کو تیار ہے۔ ٹامک ٹوئیاں مارتی اس حکومت نے لشتم پشتم ایک بجٹ ہم پر لاد دیا ہے جس میں دیے گئے اہداف دیکھ دیکھ کر خود اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ ''گھبرانا نہیں‘‘ کا نعرہ لگانے والوں کا خود گھبراہٹ کے مارے برا حال ہے۔ انہیں یہ نہیں سوجھ رہا کہ اب بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ قرضوں کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے، ٹیکس بھی اکٹھا ہو سکتا ہے، صنعتی ترقی بھی ہو سکتی ہے اور زراعت بھی پھل پھول لا سکتی ہے۔ شرط صرف ایک ہے کہ اپنے اوسان بحال کریں اور لا یعنی سیاست میں اپنی توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے یکسو ہو کر کام شروع کریں۔ 
ہم جیسے گناہ گاروں کے لیے مقامِ شکر ہے کہ عمران خان حکومت کو اتنی بربادی کے بعد یہ سمجھ آ چکی ہے کہ قرضے ضمنی مسئلہ ہیں‘ اصل مسئلہ نہیں۔ قرضوں کا مسئلہ ٹیکس وصولیوں سے جڑا ہوا ہے‘ اس لیے ٹیکس وصول کرنے پر توجہ دی جائے تو یہ معاملہ خود ہی حل ہو جائے گا‘ لیکن ٹیکس وصولی ایسے نہیں کہ جو پہلے سے دے رہے ہیں‘ ان پر ہی پل پڑو۔ دیکھنا یہ ہے کہ پانی کہاں مرتا ہے‘ یعنی ٹیکس کہاں چوری ہو رہا ہے۔ تجربہ یہ ہے کہ سب سے بڑی ٹیکس چوری تھوک اور پرچون کی دکانوں پر ہونے والے لین دین میں ہوتی ہے۔ لوگ پرچون میں نقد سامان خریدتے ہیں اور یہی نقد ہاتھوں ہاتھ تھوک والوں کو منتقل ہو جاتا ہے، کوئی بینک بیچ میں پڑتا ہے نہ کوئی دستاویز بنتی ہے، اس لیے ٹیکس بھی نہیں آتا۔ چین نے اس کا حل یہ نکالا کہ عملی طور پر نقدی کو عام آدمی کی زندگی سے نکال دیا ہے۔ اس کا موبائل ہی اس کا بینک ہے اور کریڈٹ کارڈ بھی۔ پانی کی ایک بوتل سے لے کر گاڑی تک ہر چیز کی قیمت موبائل فون سے ادا ہوتی ہے‘ سو ہر لین دین بینکنگ سسٹم میں ریکارڈ ہوتا چلا جاتا ہے۔ بھارت نے بھی یہی کیا اور موبائل فون کو عام آدمی کے لیے بینک بنا دیا۔ وہاں کے ٹیکس والوں نے دکان داروں کو مجبور کیا کہ اپنی دکانوں کے بینک اکاؤنٹ کھلوائیں اور دکان پر ایسا انتظام کریں کہ موبائل فون سے ادائیگی ہو سکے۔ مسلسل مانیٹرنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس سال بھارت میں انکم ٹیکس دینے والوں کی تعداد ہدف سے بھی بڑھ گئی ہے۔ پاکستان میں حالت یہ ہے کہ کارڈ سے ادائیگی کرنا ہو تودکاندار کا منہ لٹک جاتا ہے۔ بعض نے تو کارڈ کے ذریعے ادائیگی کرنے والوں کے لیے ڈھٹائی سے ایک فیصد یا دو فیصد قیمت ہی بڑھا دی ہے۔ حکومت نے کرنا صرف یہ ہے کہ دکانداروں سے اپنی دکان کے نام کے بینک اکاؤنٹ کھلوانے ہیں اور چند سو روپے کی مشین کاؤنٹر پر رکھوانی ہے۔ پالیسی کے طور پر کیش مکمل طور پر ختم نہ بھی کریں تو اس کی حوصلہ شکنی ضرور کریں۔ ڈیجیٹل ادائیگی کے ذریعے لین دین پر ٹیکس کم کریں‘ اور کیش پر زیادہ رکھیں۔ دنوں میں سب کچھ دستاویزی ہو جائے گا۔ چین میں یہ طریقہ اتنا رائج ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک، صرف ایک یوآن کی ادائیگی بھی موبائل فون سے ہوتی دیکھی ہے۔ وزارت خزانہ، ایف بی آر اور ریونیو ڈویژن ٹیکنالوجی کے اس دور میں یہ بھی نہیں کر سکتے تو پھر کس مرض کی دوا ہیں؟ اسی طرح کی ٹیکس چوری ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ہوتی ہے۔ اسے بھی بہ آسانی اسی طریقے سے روکا جا سکتا ہے۔
جس ملک میں ساٹھ ارب ڈالر سال کی درآمدات ہوں‘ وہاں کوئی یہ سوچے کہ صنعتی ترقی نہیں ہو سکتی تو وہ جھوٹ بولتا ہے یا اسے پاکستان کے بارے میں کچھ پتا ہی نہیں۔ جو چیزیں آج ہم باہر سے منگوا رہے ہیں‘ دو ہزار چھ سے پہلے ان میں سے آدھی پاکستان میں ہی بن رہی تھیں۔ بھلا ہو چین کا کہ جس کے ساتھ تیرہ سال پہلے ہمارے کچھ احمق افسروں اور ان سے زیادہ احمق وزیروں نے آزاد تجارت کا ایسا معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں ہماری صنعت تباہ ہو کر رہ گئی۔ اگرچہ اس سال وہ معاہدہ تجدید کے بعد کچھ بہتر شکل میں آیا ہے لیکن پھر بھی بنیادی طور پر ہماری صنعتوں کے لیے اس کی حیثیت نقصان دہ ہی رہے گی۔ اس کا علاج یہ ہے کہ اپنے ملک میں اینٹی ڈمپنگ کے قوانین کو سختی سے نافذ کیا جائے اور درآمدات کا ایک کم سے کم معیار بھی مقرر کیا جائے۔ اگر کوئی اہل آدمی یہ کام کرے تو درآمدات میں واضح کمی لا سکتا ہے‘ جس کے نتیجے میں مقامی طور پر مصنوعات کی تیاری کو فروغ مل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جو ایک سو ارب روپے کے قرضوں کا پروگرام بنایا گیا ہے‘ اس میں یہ لازمی کر دیا جائے کہ صرف اور صرف مقامی مشینری یا مقامی تجارتی مصنوعات استعمال کرنے والے کاروباروں کے لیے دیا جائے گا۔ مثلاً اگر کسی نوجوان نے قرض لے کر حجامت کی دکان کھولنی ہے تو وہ گاہکوں کے لیے پاکستان میں بنی ہوئی کرسیاں ہی رکھے گا۔ کسی نے کچھ مشینری لگانی ہے تو وہ بھی پاکستان میں تیار کردہ مشینری لگائے گا۔ کوئی ٹرانسپورٹ کے دھندے میں آنا چاہتا ہے تو صرف پاکستان میں بنی ہوئی گاڑی ہی خریدے گا۔ یہ ایک سو ارب روپے ڈھنگ سے ہماری منڈی میں آ جائیں تو ایک سال کے اندر اندر چھوٹی صنعتیں وجود میں آ جائیں گی‘ اور بڑی صنعتیں چھلانگ لگا کر آگے بڑھ جائیں گی۔ اسی طرح موبائل فون اور کمپیوٹر کی درآمد کے ساتھ یہ شرط رکھ لی جائے کہ یہاں اسمبل ہونے والے موبائل اور کمپیوٹر پر ٹیکس کم ہو گا تو ملک میں الیکٹرونکس کی صنعت کی داغ بیل پڑ جائے گی۔ 
زراعت کی ترقی صنعت سے جڑی ہے۔ ملک میں ایسی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو زرعی پیداوار استعمال کریں تو زراعت ترقی کرنے لگتی ہے۔ چونکہ ہم نے ہر کام نہایت بد سلیقہ انداز میں کرنا ہے اس لیے بے تکے انداز میں لگائی گئی شوگر ملوں نے زراعت کی مدد کرنے کی بجائے اسے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس لیے سوچ سمجھ کر ایسی صنعتیں لگوائی جائیں جو غیر روایتی ہوں۔ جب یہ صنعتیں لگیں گی تو یہ خود ہی کاشت کاروں کی مدد سے پیداوار بڑھا لیں گی۔ کاشتکاروں کی مدد کے لیے انہیں پانی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ پانی بچانے کے طریقے بھی بتانے ہیں۔ یہ طریقے بتانے کے لیے پیسہ نہیں چاہیے بس صوبوں کے محکمہ ہائے زراعت میں ڈنڈا چلانے والا کوئی شخص چاہیے جو پیروں میں مہندی لگائے بیٹھے افسروں کو دفتروں سے ہانک کر کھیتوں میں بھیج سکے۔ اگر ہمت ہو تو زراعت کے نام پر بنے تحقیقی اداروں کو یا تو بند کر دیں تاکہ وسائل بچیں اور ایسا نہ کر سکیں تو ان سے کچھ کام ہی لے لیں۔ ان اداروں کی حالت یہ ہے کہ زرعی یونیورسٹیوں میں اساتذہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے پر لگے ہیں، تحقیق کے اداروں میں نام نہاد سائنسدان بیٹھے سرکاری خرچ پر نجی کمپنیوں کا کام کر کے پیسے کماتے ہیں یا ایک دوسرے کے خلاف سیاست کرتے رہتے ہیں۔ یہ ادارے میرے خیال میں تو از کارِ رفتہ ہو چکے ہیں، عمران خان صاحب کوئی جادو چلا لیں تو شاید بات بن جائے۔ 
ٹیکس اکٹھا کرنا، صنعت کو ترقی دینا اور زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا، تینوں ایسے کام ہیں جو دنیا نے کیے ہیں‘ اور خوب کیے ہیں۔ یہ کام کرنے کے لے پختہ عزم اور جزئیات میں جا کر رہنمائی کرنا ہی سب کچھ ہے۔ پختہ عزم کی حد تک تو عمران خان پر اعتما د کیا جا سکتا ہے‘ لیکن کام کی تفصیلات تو ظاہر ہے ان کی ٹیم نے طے کرنا ہوں گی اور اس ٹیم کی نالائقی پر بیس کروڑ لوگوں میں سے صرف انہی کو شک ہو گا جو خود حکومت میں بیٹھے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved