احتساب سے انتقام کی بُو آ رہی ہے: جاوید ہاشمی
بزرگ سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''احتساب سے انتقام کی بُو آ رہی ہے‘‘ اور‘ یہ ایک چھپا ہوا بیان ہے ‘جو ہر اپوزیشن لیڈر دے رہا ہے۔ اس لیے میں بھی اسی روایت پر عمل کر رہا ہوں‘ جبکہ یہ آج تک نہیں بتایا گیا کہ حکومت اپوزیشن سے کس بات کا انتقام لے رہی ہے‘ بلکہ اس کی بجائے یہ کہنا زیادہ قرین ِ حقیقت ہوگا کہ حکومت اپوزیشن والے لیڈروں کی بے تحاشا خوشحالی پر حسد کا اظہار کر رہے ہیں‘ جو اُن کی شب و روز کی محنت ِ شاقہ کا نتیجہ ہے‘ جبکہ خود حکمرانوں میں خوش حال ہونے کی توفیق ہی نہیں اور نہ وہ اس حق میں کوئی جانکاری رکھتے ہیں اور جس کیلئے انہیں باقاعدہ انہیں ٹیوشن کی ضرورت ہے‘ جس کیلئے خاکسار ر اپنی خدمات پیش کر سکتا ہے‘ کیونکہ میں حکومت میں رہتے ہوئے کچھ زیادہ خوشحال نہیں ہوا‘ تاہم اپوزیشن کی خوشحالی کا کاروبار ان گناہگار آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا ہے ‘جبکہ خوشحال ہونا کوئی جرم بھی نہیں ہے ‘بلکہ سیاست اور اقتدار میں داخل ہونے کا واحد مقصد ہی اپنی مالی حالت کو مضبوط بنانا ہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اپوزیشن لیڈروں کو چُن چُن کر گرفتار کیا جا رہا ہے: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن لیڈروں کو چُن چُن کر گرفتار کیا جا رہا ہے‘‘ حالانکہ سب کے کام ماشاء اللہ ایک ہی جیسے تھے‘ اس لیے انہیں تھوک کے حساب سے پکڑنا زیادہ مناسب ہوتا‘ تاہم‘ چُننے کی ضرورت شاید اس لیے پیش آئی ہے کہ حفظِ مراتب کے تقاضوں کا خیال رکھا جائے‘ یعنی جس نے جتنی زیادہ خدمت کی ہے ‘ اس کی گرفتاری کیلئے اتنی ہی فوقیت دی جائے‘ اوّل تو نواز شریف اور زرداری کو گرفتار کرنا ہی کافی تھا‘ کیونکہ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں‘ جبکہ یہ دونوں ویسے بھی سفید ہاتھی تھے اور کالی چیزوں کو سفید کرنا ان کی مجبوری ہے‘ نیز ان دونوں کے ادوارِ اقتدار کے دوران غریبوں کی حالت اس حد تک بہتر بنائی گئی کہ فالودہ فروش ‘ سائیکلوں کو پنکچر لگانے والے‘ یا رکشہ چلانے والوں کو بھی ارب پتی بنا دیا گیا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
وفاق‘ کراچی کے عوام کو کیوں تکلیف دے رہا ہے: مراد علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ''وفاق ‘کراچی کے عوام کو کیوں تکلیف دے رہا ہے‘‘ جبکہ جو تکلیفیں انہیں ہم پہنچا رہے ہیں‘ اس کے بعد اس قسم کے کسی تردد کی ضرورت ہی نہیں تھی اور ملک میں تکلیف ہے ہی اس قدر زیادہ کہ یہ عوام میں برابر برابر تقسیم ہونی چاہیے‘ جو کہ ہم اور ہمارے قائدین یہ تکلیف تھوک کے حساب سے پیدا بھی کر رہے ہیں‘ تا کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ جفا کش بنایا جا سکے‘ جیسا کہ زندہ قوموں کا وتیرہ ہے اور تھوڑے ہی عرصے میں جتنے بھی عوام باقی رہ جائیں گے‘ وہ بلا کے محنتی ہوں گے اور اگر کچھ اخباری اطلاعات کے مطابق ؛ مجھے بھی گرفتار کرنے کا سوچاجا رہا ہے‘ تو میرے لیے یہ ایک نیک فال ہی ہو گا‘ کیونکہ جیل میں اپنے قائد کی ہم نشینی کا شرف حاصل رہے گا ‘جن کا ریکارڈ ہے کہ وہ دس گیارہ برس سے کم عرصہ جیل میں قیام نہیں کرتے اور یہ کوئی معمولی بات ہرگز نہیں ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اداروں کے سہارے لے کر ملک پر آمریت مسلط کی گئی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''اداروں کے سہارے لے کر ملک پر آمریت مسلط کی گئی‘‘ جو گزشتہ آمریتوں سے بھی بدتر ہے‘ کیونکہ ان کے ساتھ میرا اچھا تعلق تھا ‘جبکہ یہ آمر میرے کسی کام کے نہیں؛ حالانکہ اصل سٹریٹ پاور میرے پاس ہے ‘جبکہ اس لحاظ سے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ دونوں ویلی ہیں، اس لیے فیصلہ سازوں کو براہ راست مجھ سے بات کرنی چاہیے‘ ورنہ بقول برخوردار بلاول بھٹو زرداری 'دما دم مست قلندر ہوگا‘ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ آپ اگلے روز ڈیرہ غازی خاں میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
محمد عاصم بٹ کا ناول ''بھید‘‘
یہ ناول سنگِ میل پبلی کیشنز ‘لاہور نے چھاپاہے۔پیشِ لفظ میں مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں: (آخری پیراگراف) ''... عاصم بٹ نے لاہور سے وفا کی ہے۔ اس کی روح میں اُتر کر اُسے زندہ شہر کر دیا ہے۔ اسے لکھنو یا دِلّی سے کچھ رغبت نہیں کہ وہ انہیں نہیں جانتا اور یہ لاہور ہے‘ جسے وہ جانتا ہے...عاصم بٹ کے ناول میں داخل ہونے میں بہت سے خدشات مضمر ہیں کہ شاید آپ اس سے باہر نہ آ سکیں... آپ کو بہر طور اپنی جان دائو پر لگانی ہو گی؛ اگر آپ اس کائنات میں مخفی کسی بھید تک پہنچنا چاہتے ہیں‘‘۔یہ ہمارے سب سے بڑے فکشن رائٹر کی رائے ہے۔ اس میں آپ کا مختلف کرداروں سے سامنا ہوگا ‘جو اپنے حصے کی زندگی بسر کرتے اور غائب ہو جاتے ہیں۔ اسلوب اور اندازِ تحریر کے حوالے سے عاصم بٹ کی نثر ہمیشہ دلپذیر رہی ہے اور اس میں برتی گئی زبان سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ خود لاہور ہی بول رہا ہے۔ جا بجا پنجابی الفاظ اور لہجوں کے استعمال نے اس کی دلچسپی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ایک سے ایک دلچسپ کردار سے آپ کا واسطہ پڑے گا‘ تاہم بھید‘ آخر تک بھید ہی رہے گا۔ بقول مصنف یہ تحریر اُنہیں ایک مسوّدے کی شکل میں ملی تھی‘ جو اس کے ہاتھوں میں آ کر ایک دلنواز ناول میں ڈھل گئی۔ یہ بھی مصنف کا ایک ٹشن ہے۔کوئی سوا دو سو صفحات پر محیط یہ ایک سمارٹ ناول ہے‘جس میں ناول اور مختصر افسانہ کے ذائقے موجود ہیں۔ اس میں کردار سازی کی کوئی زحمت نہیں اٹھائی گئی‘ بلکہ یہ خود ہی پیدا اور اپنا کردار ادا کر کے غائب ہو جاتی ہیں اور قاری کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے‘ جو یہ بھی سمجھتا ہے کہ اسے ایک چکر میں بھی ڈالا گیا ہے۔ شاباش محمد عاصم بٹ‘ جیتے رہو!
آج کا مطلع
سب سمجھتے ہیں کہ جس سے ملتا جلتا رنگ ہے
لاکھ تُو کہتا پھرے میرا تو اپنا رنگ ہے