ہر حساس، سنجیدہ، داخلی اور بیرونی کھوج کار پاکستانی معاشرے کی توانائیوں کا قائل ہے۔ کون سا حربہ ہے جو اپنوں اور غیروں نے نہیں آزمایا، لیکن معاشرہ اندرونی توڑ پھوڑ کا شکار نہیں ہوا۔ فرقہ واریت کا آسیب ہو یا لسانی تعصب کی یلغار، دہشت گردی ہو یا مذہب کے نام پر فسادیوں کے حملے، پاکستانی فرد اور معاشرے نے کبھی تحمل، صبر اور برداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے لے کر دہشت گردوں کی جنگ تک زخم ہی زخم کھائے ہیں، لیکن وسیع پیمانے پر اندرونی خلفشار پھیلانے کے تمام منصوبے ناکام ہوئے۔
آج بھی ہمارا ملک سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی کے حوالے سے جن مسائل کا سامنا کر رہا ہے، اُن میں سے بیشتر کا تعلق بیرونی و اندرونی عناصر کی سازشوں سے ہے۔ تقریباً چار دہائیوں سے کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کی معیشت کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ وہ کسی بھی دشمن کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رکھ سکے۔ نیز، طفیلی تحریکوں اور شدت پسند گروہوں کو کھڑا کرکے اس کے داخلی امن کو برباد کر دیا جائے۔ یہ کہ کئی محاذ کھلیں گے تو ریاست کی سلامتی کے اداروں کی طاقت بکھر ے گی، اور اُن کی مقابلہ کرنے کی سکت کمزور ہوتی جائے گی۔ ہر سمت پھیلے سیاسی موسم میں فعال گروہوں کو عوامی تائید کا لبادہ پہنایا جاتا ہے، اُن پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے، معاشرے کو اُن کی طاقت اور سکت کا احساس دلایا جاتا ہے، اور اُنہیں فعال بازو کی طرح استعمال کرتے ہوئے ریاست کو اندرونی طور پر کھوکھلا کرنے کے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ ریاستی اداروں کے خلاف مسلسل بیانیے کا منہ زور طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ کیسے کیسے لوگ، کہاں کہاں سے اٹھا کر اہم ممالک میں سفیر، پارلیمان کے ارکان اور کابینہ میں وزیر بنوائے گئے۔ لوٹ مار کا ایسا بازار گرم کیا گیا کہ خدا کی پناہ۔ تیسری دنیا کے ممالک سے ہر سال سینکڑوں ارب ڈالر امیر ممالک کی طرف منتقل ہوتے ہیں۔
کیا یہ باتیں پاکستانی عوام سے پوشیدہ ہیں؟ لیکن ان تمام لٹیروں کی دولت، سیاست اور موروثیت کو کچھ عالمی طاقتوں نے تحفظ فراہم کیا ہوا ہے۔ اس تعلق کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے تاریخ کے اوراق پلٹے ہیں، اور جو عالمی سیاست کے اسرارورموز سے واقف ہیں۔ سرمایہ محفوظ رکھنے کی بھی ایک قیمت ہے، اور یہ معمولی نہیں۔ اقتدار میں لانے اور کرسی پر قائم رکھنے کی بھی ایک قیمت چکانی پڑتی ہے۔ حکمران بننے والے ریاست کا نظریہ، اس کی سماجی ساخت، عسکری اور تزویراتی سمت اور سیاسی حرکیات سرپرست طاقت کی خواہش سے ہم آہنگ کریں گے۔ ذرا ذہن پر زور دیں، سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ پاکستان، ایران، افغانستان اور کچھ دیگر ممالک کی قسمت کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔
ایران پابندیوں کی زد میں کیوں ہے؟ آج نہیں، گزشتہ چالیس سال سے، پاکستان میں کیسے امرا اور کچھ گروہوں کے لیے سیاسی راہیں ہموار کی گئیں، اور اُن کا اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنا یقینی بنایا گیا؟ اس کے بعد اُن سے کیسے کیسے کام کروائے گئے؟ شرم سے سر جھک جاتا ہے، مگر وہ جو نئے نوآبادیاتی نظام کی پیداوار ہیں، اور آج بھی اس نظام سے مستفید ہو رہے ہیں‘ اتنے طاقتور اور بااثر ہیں کہ غرور سے پائوں بھی زمین پر نہیں رکھتے۔ ہر طرف اُن کے حاشیہ بردار اور چاپلوس ہیں۔ ایک تماشا سا سیاست کے نام پر لگا رکھا ہے۔ ایک گھنائونا کھیل جاری ہے۔ پاکستان کی ریاست پر ہاتھ صاف کرنا مقصد ہے۔
لیکن سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ پاکستان کی ریاست کو کمزور کرنے کی کوشش ضرور کی گئی، لیکن کلیدی ادارے نہ صرف فعال ہیں بلکہ اُنہوں نے کمال ہوشمندی سے ان سازشوں کو ناکام بنایا۔ انتقامی وار کے طور پر سازشی عناصر نے پاکستان کا دفاع کرنے والے اداروں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا شروع کردیا۔ کسی جمہوری یا غیر جمہوری ریاست میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
کیا زندگی ہے اس ٹولے کی بھی! دولت کے انبار ہیں، لیکن عزت نہیں۔ با اختیار دکھائی دیتے ہیں، لیکن آزاد نہیں۔ حیثیت نوآبادیاتی نظام کے کارندے سے زیادہ نہیں۔ ٹھاٹ باٹ دیکھیں تو انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ یہ عوامی نمائندے ہیں یا شہزادے؟ درحقیقت جہاں ریاستیں کمزور ہوتی ہیں یا کمزور کر دی جاتی ہیں وہاں ان کارندوں کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا‘ بلکہ نظام خود ان کے سیاسی اور مالی مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ داخلی حلیفوں کو متحرک کیا جاتا ہے، اور اُن کو بھی جو ہر شعبے میں اپنی آواز اور مقام بنا چکے ہوتے ہیں۔ حالات کا ادراک رکھنے والے افراد سمجھتے ہیں کہ جنگوں کے علاوہ بھی ریاستوں اور ملکوں کو تباہ کرنے کے طریقے ہوتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے کی تباہی کا آغاز اس کے ریاستی حصار کو کمزور کرنے سے کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد معاشرے کو تر نوالہ بنانا آسان ہوتا ہے۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ فوج، عدلیہ، پارلیمان، سیاسی عمل، انتخابات، ذرائع ابلاغ اور سیاسی جماعتیں، سب ریاست کا حصار ہیں۔ ان میں دراندازی کرکے وار کیا جاتا ہے۔ عام شہری دوست اور دشمن کی تمیز نہیں کرسکتے۔ وہ معاملات کو گہرائی میں جا کر دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے سامنے ایک طرفہ تماشا لگا ہوا ہے۔ جن افراد پر ریاست کے مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری ہے، اُن کے دل اور دماغ کہیں اور ہیں۔
یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ اسے ختم کرنے کی کئی بار کوشش کی گئی، کبھی احتساب کے ذریعے، کبھی قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتے ہوئے، کبھی جمہوریت کے ذریعے، اور کبھی عدلیہ کی آزادی کے ذریعے۔ راستہ یہی ہے۔ انقلابوں کا زمانہ گزر چکا۔ اس کا حل فوجی حکومتیں بھی نہیں، جن کا تجربہ ہم بارہا کر چکے۔ میں اس بات پر اتفاق کرتا ہوں کہ کمزور اور بدعنوان جمہوریت کا علاج صرف بہتر جمہوریت ہی ہے۔ جمہوریت سے میڈیا، صحافیوں اور دانشوروں کو جو آزادی نصیب ہوتی ہے، اس سے اُن چہروں کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے جو عوامی روپ دھارے ہوئے ہیں۔ ان اداروں‘ جو کمزور کیے گئے اور اُنہیں سیاسی خاندانوں کے زیرِ اثر کر دیا گیا، کو آزادی، خودمختاری اور قانونی ذمہ داری کی شرط پر دوبارہ استوار کیا جا سکتا ہے۔
میرے نزدیک یہی وہ معاملات ہیں‘ جن کی وجہ سے اس مفاد پرست ٹولے نے ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے۔ وہ سیاسی کشیدگی کی آنچ کو تیز تر کرتے ہوئے احتساب اور اصلاحات کے عمل کو پٹری سے اتارنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی شکست دیکھ رہے ہیں۔ فیصلے کا وقت آچکا۔ ضروری ہے کہ احتساب، قانون، برابری اور جمہوری اداروں کو طاقتور بنا کر مافیائوں کی طاقت کو کمزور کیا جائے۔ چند اداروں کا نہیں، پورے معاشرے کا فرض ہے۔
معاشرے کی خوابیدہ طاقتوں کو بیدار کرنا ہوگا۔ سیاست کے روپ میں روا رکھی جانے والی لوٹ مار نے عوام کو مایوس کر دیا ہے۔ ہر طرف قنوطیت نے جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں۔ اب لوگ سیاست کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے۔ سیاست اور سیاسی عمل پر عوام کے یقین کو صرف اسی صورت بحال کیا جا سکتا ہے کہ وہ تبدیلی کے اثرات اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ اُنہیں تجزیوں اور اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں نہ الجھایا جائے۔ وہ انصاف اور سہولیات کو اپنے حق کے طور پر موجود پائیں۔
اب معاشرہ اپنی توانائیاں سیاسی گھرانوں پر ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اس کا رخ استیصال شدہ افراد کی طرف ہے۔ نئے نئے تعلیمی اور فنی تعلیم کے ادارے نجی شعبوں میں قائم ہو رہے ہیں۔ خیرات اور ایثار کے ایسے ایسے سرچشمے‘ جنہیں دیکھ کر نویدِ صبح یقینی، اور بہار کے امکانات واضح دکھائی دیتے ہیں۔ یقینا تمام ترقہر کے باوجود معاشرے کی یہ توانائی برقرار ہے۔ کوئی لوٹ مار ہمارے سماجی ایثار کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ لیکن حتمی بات یہ ہے کہ معاشرے کی اس توانائی کو ریاست نے استعمال کرنا ہے، اور درست استعمال کرنا ہے۔ معاشرہ صرف ایک حد تک ہی خود کو سنبھال سکتا ہے، اسے ریاستی حصار اور سائے کی ضرورت رہتی ہے۔