'' ناقص اور جھوٹی من گھڑت اطلاعات پر ہمارے ہاتھوں اسامہ بن لادن اور اس کے خاندان کا قتل ہو گیا۔ آج ہم لادن اور اس کے اہل خانہ سمیت ان کے ساتھیوں کو واپس تو نہیں لایا جا سکتا؛ چونکہ یہ سب کچھ غلط فہمی اور غلط اطلاعات کی وجہ سے ہوا۔ اس لئے اسامہ بن لادن کی موت پر ہم نادم ہیں کہ اس کا امریکیوں کے ہاتھوں بے گناہ خون بہا یا گیا۔ افسوس کہ ہماری وجہ سے ان کی زندگی چھن گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسامہ بن لادن ہمارا ایک بہترین دوست تھا۔ اس نے روسی کمیونزم کو شکست دینے میں افغان جہاد میں رضا کارانہ طور پر شامل ہو کر امریکہ اور تمام مغربی دنیا کی بے لوث خدمت کی۔ اس نے روس اور افغانستان کی کمیونسٹ طاقتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے عرب اور دنیا بھر سے مجاہدین تیار کرنے میں کروڑوں ڈالر اپنی جیب سے خرچ کئے ۔ ہماری بہت بڑی غلطی کی وجہ سے وہ ہم میں نہیں رہے اور بد قسمتی سمجھ لیجئے کہ امریکیوں کے پاس اب سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں ۔امریکہ بن لادن خاندان کو اپنے اس جرم پر 18 ملین ڈالر بطورِ تاوان ادا کر رہا ہے۔ امید ہے کہ آپ سب لوگ امریکیوں کو دلی طور پر معاف کرتے ہوئے اسے قبول کر لیں گے۔ امریکہ اور اس کی تمام خفیہ ایجنسیاں آپ کے والد اور خاندان کے تمام افراد سے انتہائی شرمندہ ہیں اور آپ سے اپنی غلطیوں اور زیا دتیوں کی معافی چاہتے ہیں ۔ ہمیں حال ہی میں ملنے والی تازہ اطلاعات اوراس پر کی جانے والی تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ اسامہ بن لادن بے قصور تھا۔ اس کا نائن الیون کی دہشت گردی سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ امریکی حکومت اور عوام بن لادن خاندان سے سخت شرمندہ ہے۔ امریکہ کو اسامہ بن لادن اور اس کے ان تمام ساتھیوں کے ساتھ اٹھارہ برس میں کی جانے والی زیا دتیوں پر ندامت ہے۔ امریکہ سے غلطی یہ ہوئی کہ ایک ایسے شخص کی گواہی کو تسلیم کر لیا‘ جس نے ایک چشم دید گواہ کے طور پر امریکہ کو اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کئے‘ لیکن آج وہ گواہ مکمل طور پر اپنے تمام بیانات سے منحرف ہو چکا ہے۔ امید ہے کہ بن لادن خاندان امریکہ کو دل سے معاف کر دے گا۔ اس کیلئے ہم مستقبل میں ان کی ہر طرح سے مدد کرنے کو تیار ہیں‘‘۔
نائن الیون کے 18 سال بعد اچانک امریکی سی آئی اے سمیت ایف بی آئی ‘ پینٹاگان اور برطانوی MI6 نے ایک مشترکہ رپورٹ تیار کرنے کے بعد جب اسے وائٹ ہائوس کے مکین مسٹر ٹرمپ کے سامنے رکھا‘ تو اس رپورٹ کو پڑھتے ہوئے ان کے اوسان خطا ہو گئے۔ دو گھنٹے سے زیا دہ جاری رہنے والی اس میٹنگ میں جب امریکی صدر کو تمام تفصیلات اور ان کے شواہد دکھائے گئے‘ تو کچھ لمحے چپ رہنے کے بعد فیصلہ ہوا کہ بن لادن خاندان کو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے معذرت کا خط لکھنے کی بجائے یہ فریضہ سی آئی اے کو نبھانے کا کہہ کر میٹنگ برخواست کر دی جائے اور پھر وہ خط تیار کیا جانے لگا‘ جس کے مندر جات کو کئی بار درست کرنے کے بعد اس پر ڈائریکٹر سی آئی اے Gina Haspel نے دستخط کرنے کے بعد ایک خصوصی نمائندے کے ذریعے بن لادن خاندان کے حوالے کیا اور یہ خط گزشتہ بدھ کو لکھا گیا‘ جس میں بن لادن خاندان سے انتہائی معذرت خواہانہ انداز میں اسامہ بن لادن پر نائن الیون کو ہونے والی دہشت گردی کے احکامات اور پس پردہ تیاری میں مدد دینے جیسے الزامات پر پینٹاگان اور ٹریڈ سینٹر پر طیاروں کو ہائی جیک کراتے ہوئے دہشت گردی کے جھوٹے الزمات عائد کئے۔ اس خط میں لکھا گیا ہے کہ اختیار کئے گئے غلط اندازوں کو سی آئی اے سمیت امریکہ اور برطانیہ کے جاسوسی اداروں کی جلد بازی قرار دیتے ہوئے اسامہ بن لادن کے بارے دیئے گئے تمام احکامات کو آج سے واپس لیا جاتا ہے۔ امریکی سی آئی اے کو اپنے کئے گئے ان تمام اقدمات پر انتہائی دکھ اور افسوس ہے کہ ایک ایسے انسان اور اس کے خاندان کے علا وہ اس کے دوستوں کو بے گناہ ہلاک کرنے کے علا وہ ان پر برسوں عرصۂ حیات تنگ کئے رکھا۔جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے ‘کم ہے۔ افسوس کہ ہم اس گزرے وقت کو واپس نہیں لا سکتے ‘جس کا ہمیں افسوس رہے گا۔امریکہ کی بد حواسیاں کہہ لیں یا گھر بیٹھے مفروضے یا پھر دنیا بھر کے افراد کی زندگیاں بر باد کرنے کا شغل ‘ آج اسامہ بن لادن کے خاندان سے معذرت کرتے ہوئے انہیں اٹھارہ ملین ڈالر بطور ہرجانہ ادا کیا جا رہا ہے‘ جبکہ تین ماہ قبل یکم مارچ2019ء کو اسامہ کے بیٹے حمزہ بن لادن کی گرفتاری پر ایک ملین ڈالر کا انعام رکھتے ہوئے سعودی حکومت کو مجبور کیا گیا کہ اس کی سعودیہ کی شہریت منسوخ کی جائے۔
اسامہ کے بیٹے نے امریکی حکومت کو خط لکھتے ہوئے درخواست کی تھی کہ اسے اس کے والد اسامہ بن لادن کی موت کا'' ڈیتھ سرٹیفکیٹ‘‘ جاری کیا جائے‘ جس پر امریکی حکومت نے ریاض میں اپنے سفارت خانے کے قونصل جنرل گلن کائزر کے دستخطوں سے9 ستمبر2011ء کو خط لکھا کہ ہم یہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے مجاز نہیں۔امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی نے‘ جس چشم دید گواہ کے بیانات اور ثبوتوں کی بنیاد پر القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو دہشت گرد قرار دیا‘ آج اس گواہ نے اپنے تمام بیانات اور ثبوتوں سے لا تعلقی اعلان کر دیا ہے اور سی آئی اے نے اس کے ان بیانات کی مکمل تحقیق کی‘ اس کے ایک ایک پہلو کا جائزہ لیا‘ دنیا کی جدید ترین جھوٹ اور سچ پکڑنے والی مشینوں کے ذریعے اس کے متعدد ٹیسٹ بھی کئے اور بالآخر سب کو تسلیم کرنا پڑا کہ یہ شخص ‘جو امریکہ کے پاس واحد چشم دید گواہ کے طور پر ثبوت تھا۔ آج سب کے سامنے اپنے تما م سابقہ بیانات اور شواہد سے منحرف ہو چکا۔ افسوس کہ یہ ہم سب امریکیوں کو بیوقوف بناتا رہا۔وائٹ ہائوس اور سی آئی اے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ نائن الیون کی دہشت گردی صرف زکریا موسوی کی پلاننگ تھی ۔آج امریکہ کے پاس ساتھ ہاتھ ملنے کے اور کچھ نہیں ۔کاش کہ ہم اسامہ بن لادن اور اس کے خاندان کے ان تمام افراد کو واپس لا سکتے‘ جو امریکی غلط فہمی اور جلد بازی کی وجہ سے اپنی قیمتی زندگیوں سے محروم کر دیئے گئے۔
زکریا موسوی Zacarias Moussaoui فرانسیسی شہری تھا‘ جو30 مئی1968ء کو فرانس میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین کا تعلق مراکش سے تھا۔ اس پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ ٹریڈ سینٹر کی طرح وائٹ ہائوس کو ٹارگٹ کرنا چاہتا تھا۔ زکریا موسوی یکم اگست کو فلائٹ ٹریننگ سکول میںداخل ہوا‘ جہاں نائن الیون سے25 روز قبل امریکہ میں امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور ایف بی آئی کے ایجنٹس اس سے بار بار سوال کرتے رہے کہ وہ'' جمبو جیٹ جہاز اڑانے اور اس سے متعلق معلومات اور تربیت کس لئے حاصل کر رہا ہے؟‘‘15 اگست2001ء کوMinnesota میں فلائٹ سکول کے انسٹرکٹر نے ایف بی آئی کو مطلع کیا کہ پوری کلاس میں صرف یہی ہمہ وقت پوچھتا رہتا ہے کہ جہاز کو کس طرح ٹیک آف اور لینڈ کیا جاتا ہے۔ اس طرح مجھے یہ شخص مشکوک لگتا ہے۔ ایف بی آئی نے فیصلہ کیا کہ اس شخص کو واپس فرانس بھیج دیا جائے اور اس کیلئے وہ فرانسیسی حکومت کو یہ خط بھی لکھنے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ اس کے گھر کی اچھی طرح تلاشی لی جائے ۔ایف بی آئی کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ ابھی اس کو ڈی پورٹ کرنے اور فرانسیسی حکومت کو خط لکھنے کیلئے مطلوبہ کاغذات کی تیاریاں کی جا رہی تھیں کہ نائن الیون ہو گیا؛ اگر یہ خط لکھ دیا جاتا‘ تو شاید یہ سب کچھ نہ ہوتا۔