تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     14-06-2019

دلی کے تین بادشاہ

وزیر اعظم کی اچانک رات گئے تقریر سنتے ہوئے میں سوچ رہا تھا‘ عمران خان صاحب پاکستانی تاریخ کے وہ سربراہ حکومت ہیں جنہوں نے سب سے مشکل حالات میں حکومت سنبھالی ہے۔
جو باتیں وہ کر رہے تھے سب کے دلوں کو لگ رہی تھیں۔ ہم سے بہتر کون جانتا ہے‘ جنہوں نے پچھلے بیس سال اس لوٹ مار کی رپورٹنگ کی اور ان سب کی کرپشن کی داستانیں اپنی آنکھوں سے فائلوں میں پڑھی ہیں۔ آصف زرداری پر بننے والی جے آئی ٹی کے چوبیس والیمز پڑھیں تو حیران ہوں کہ واقعی اس ملک کو اس بے دردی سے لوٹا گیا ہے۔ 
نواز شریف خاندان پر جو جے آئی ٹی بنی تھی وہ صرف دس والیمز پر ختم ہو گئی تھی تو زرداری صاحب کی جے آئی ٹی پچیس والیمز تک جا پہنچی۔ اگر زرداری اور شریفوں جیسی جے آئی ٹی گجرات کے چوہدریوں پر بنا دیں تو یقین کریں شاید چالیس والیمز تک بات جا پہنچے اور ایسے ایسے کارنامے سامنے آئیں کہ لوگ زرداری اور شریفوں کو بھول جائیں۔ شریف، زرداری اور چوہدری وہ تین بڑے کاروباری اور سیاسی خاندان ہیں جو پچھلے تیس چالیس سال سے اس ملک کی باگیں سنبھالے ہوئے ہیں۔ اب ان کے بچے اور نواسے‘ پوتے اس ملک کو وہیں سے لوٹنے کے لیے تیار ہو چکے ہیں‘ جہاں ان کے بزرگ چھوڑ گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان صاحب کی رات گئے ایسی تقریریں اس ملک کی قسمت بدل سکتی ہیں؟ میرے خیال میں قسمت بدلی جا سکتی تھی‘ لیکن اب شاید اتنا آسان کام نہیں رہا۔ عمران خان اپنے سیاسی مخالفوں کے لیے اس وقت تک بہت خطرناک تھے جب تک وہ اعلیٰ اخلاقی بنیادوں پر سیاست کر رہے تھے۔ مخالف ایسے عمران خان سے خوفزدہ تھے جو ان سے بہتر ساکھ کا حامل تھا۔ لوگوں کو یہ یقین تھا کہ جو کچھ عمران خان انہیں بائیس سال سے بتا رہے تھے اور جو وعدے کر رہے ہیں وہ پورے کریں گے۔ وہ کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے۔ وہ اقتدار کو لات مار دیں گے‘ لیکن ایسا اقتدار نہیں لیں گے جہاں انہیں اپنے تمام نظریات اور وعدوں پر کمپرومائز کرنا پڑے گا۔ یہ سب تاثر عمران خان نے خود پیدا کیا تھا۔ بد قسمتی دیکھیں‘ عمران خان ایسے وزیر اعظم کے طور پر یاد رکھے جائیں گے‘ جس نے بہت جلد وہ تمام وعدے توڑے۔ جب عمران خان ریاستِ مدینہ کی مثالیں دیتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ قران پاک میں وعدوں کے بارے میں کیا کہا گیا ہے۔ جب بھی عمران خان سے ان وعدوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے‘ وہ بڑی معصومیت سے بتاتے ہیں: کیا کریں سیاسی چوروں اور ڈاکوئوں کے بغیر وہ حکومت نہیں بنا سکتے تھے۔ سوال یہ ہے‘ کیا اقتدار کے چند برس آپ کی پوری عمر کے کردار اور ساکھ سے بڑھ کر ہیں؟ ایک دن جب ہم آپ نہیں ہوں گے تو کیا یہ ملک نہیں چل رہا ہو گا؟
آج جمالی، شوکت عزیز، شجاعت، گیلانی، راجہ یا نواز شریف ملک کے وزیر اعظم نہیں ہیں تو ملک نہیں چل رہا؟ کیا جمالی اور شوکت عزیز اچھے وزیر اعظم سمجھے جاتے ہیں یا پھر جونیجو کا نام لوگ عزت سے لیتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں جونیجو ملٹری ڈکٹیٹر کے آگے کھڑا ہو گیا تھا؟ کسی سے بھی، شوکت عزیز‘ جمالی اور جونیجو بارے پوچھ لیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ لوگ کس کی عزت کرتے ہیں اور کیوں؟ حالانکہ تینوں جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے وزیر اعظم تھے۔ جونیجو نے کریکٹر دکھایا‘ جبکہ جمالی جنرل مشرف کو باس کہتے تھے۔ وزیر اعظم جونیجو نے تو جنرل ضیا کی اس فائل تک کو مسترد کر دیا تھا‘ جس میں انہوں نے اپنے گھریلو ملازم کی توسیع مانگی تھی۔ جنرل ضیا سے وزیر اعظم کی اجازت کے بغیر ملنے پر جونیجو نے اپنے وزیر خارجہ سے استعفیٰ لے لیا تھا۔ کسی کو یاد نہیں رہتا کہ آپ نے اقتدار کیوں لیا تھا‘ لیکن سب کو یاد رہتا ہے کہ آپ نے اقتدار میں ہوتے ہوئے کیا کیا؟ گیلانی صاحب ہر آتے جاتے کو فخر سے بتاتے تھے کہ وہ اس وقت پاکستان کے سب سے زیادہ سرونگ وزیر اعظم کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ آج ان کی کیا وراثت ہے؟ نواز شریف تین دفعہ وزیر اعظم رہے، ان کی وراثت کیا ہے؟ وہ خود جیل میں ہیں، بچے لندن مفرور اور بیٹی جلسوں میں باپ کا دکھڑا سنا کر مجمع اکٹھا کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔ یہی حال زرداری کا ہے۔ 
تو پھر ایک وزیر اعظم میں ایسی کیا بات ہونی چاہیے کہ لوگ اسے یاد رکھیں؟ تاریخ یاد رکھے۔ ہمارے نوجوانوں نے تو بھٹو زندہ ہے کا مذاق بنا لیا ہے کیونکہ بھٹو کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے بھٹو کی پھانسی کا بدلہ عوام کو لوٹ کر لیا‘ جس سے نوجوان نسل کا لفظ 'بھٹو‘ سے دل ہی بھر گیا ہے۔ ورنہ بھٹو کی وزیر اعظم کے طور پر وراثت اتنی طاقتور تھی کہ بینظیر بھٹو تو چھوڑیں جو دو دفعہ وزیر اعظم بن گئیں، زرداری جیسا بندہ‘ جو کونسلر بھی نہ بن سکتا‘ وہ بھٹو کے نام پر صدر پاکستان بن گیا۔ آخر کچھ تو بھٹو کی وراثت تھی۔
سوال یہ ہے کہ عمران خان صاحب کے لیے اس ساری گفتگو میں کیا سبق پوشیدہ ہے؟ عمران خان کو ایک چوائس کرنا تھا کہ وہ روایتی سیاستدان نہیں بنیں گے‘ اپنی ساکھ کو دائو پر لگا کر پنجاب کے ڈاکوئوں کو اقتدار میں نہیں لائیں گے۔ وہ جنہیں برا بھلا کہتے رہے، جن کے خلاف پریس کانفرنسیں کرتے رہے، انہی لٹیرا بنا کر پیش کرتے رہے، ان کے ساتھ ہاتھ نہ ملاتے۔ آپ اعلیٰ اصولوں پر زندگی گزارتے ہیں تاکہ آپ کے جانے کے برسوں بعد بھی تاریخ کی کتابوں میں آپ کا نام عزت سے لیا جائے۔ اس ایک سال میں خان صاحب سب کچھ گنوا چکے ہیں‘ جو انہوں نے بائیس سال کی محنت کے بعد کمایا تھا۔ اقتدار کا ایک سال پورے بائیس برس کی محنت پر بھاری پڑا ہے۔
آج شاید عمران خان خود کو نہیں پہچان پائیں گے اور انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہے۔ یہی وجہ ہے‘ عوام کو بہلانے کے لیے وہ بار بار اس نعرے کی طرف جاتے ہیں کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے اور یہ بتانے کے لیے وہ آدھی رات کا انتخاب کرتے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ بات نہیں بن پا رہی۔ وہ جن طبقات کو ریلیف دینے اور آسانیاں پیدا کرنے کے لیے اقتدار میں آئے تھے‘ وہ الٹا ان کی حکومت کے نئے بجٹ میں کچلے گئے ہیں۔ انہیں اور کوئی نہیں ملا تو تنخواہ دار طبقے کو ہی رگڑ دیا ہے۔ یا پھر مڈل کلاس کچلی گئی ہے۔ یہ وہ طبقہ تھا جو سمجھتا تھا کہ عمران خان ان کے لیے مسیحا ثابت ہوں گے۔ 
عمران خان اب اپنے فیصلوں کی وجہ سے جانچے جائیں گے نہ کہ زرداری یا شریفوں کے خلاف تقریروں کی بنا پر۔ لوگوں نے زرداری اور شریفوں کو برا سمجھا تو عمران خان کو اقتدار میں لائے۔ انہیں بار بار بتانے سے عوام متاثر نہیں ہوں گے۔ وہ اب آپ سے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ عوام جانتے ہیں کہ شریف اور زرداریوں نے بہت لوٹا ہے۔ پہلے تو عمران خان چوہدریوں کا نام بھی لوٹ مار میں لیتے تھے لیکن اب ان کے بارے میں خاموش ہیں۔ یہ وہ بات ہے‘ جو یہ پیغام دیتی ہے کہ خان صاحب اب کمپرومائز کرنا سیکھ گئے ہیں۔ یہ بات سب کو ہرٹ کرتی ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ آپ کب تک اپنے ترجمانوں یا رات گئے تقریروں سے لوگوں کو بہلا لیں گے کہ آپ سب کو لٹکا دیں گے کیونکہ لوگوں کو شکایت ہے جن کو لٹکانا چاہیے ان میں سے آدھے تو کابینہ یا حکومت میں شامل ہیں۔ 
ہزاروں سال کی انسانی تاریخ میں کئی بادشاہ آئے اور ابھی کئی آئیں گے لیکن تاریخ میں یاد صرف وہی رکھے جاتے ہیں جو ہائی مورال گرائونڈ پر حکومت کرتے ہیں اور وہی رعایا کے دل میں بستے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو کسی دن مشہور مورخ ابراہم ارلی کی کتاب جو دلی سلطنت پر اس نے لکھی تھی‘ The Age of Wrath ‘ وہ پڑھ لیں۔ پتہ چلے گا کہ دو سو سال خلجی، تغلق، غوری، سید اور لودھی خاندان دلی پر حکمران رہے۔ اس دوران کل 33 بادشاہ گدی پر بیٹھے لیکن صرف تین بادشاہ ایسے گزرے‘ جن کے کردار سے آپ متاثر ہوتے ہیں۔ بقیہ تیس بادشاہوں کو‘ جو ہر قیمت پر انسانوں پر راج کرنا چاہتے تھے‘ تاریخ نے دفن کر دیا ہے۔
یہ اعلیٰ کتاب پڑھ کر آپ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہر حکمران کے پاس چوائس ہوتا ہے کہ آیا اس نے دلی سلطنت کے ان تین اچھے بادشاہوں کی مختصر لیکن غیرمعمولی فہرست میں اپنا نام لکھوانا ہے یا دلی سلطنت کے ان تیس بادشاہوں کی اس طویل فہرست میں جسے شاید آپ پوری پڑھے بغیر اٹھا کر پھینک دیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved