کچھ دہائیاں قبل تک بجٹ سال میں ایک بار پیش ہوتا تھا۔ معیشت میں کم از کم اتنی سکت تھی کہ عوام کو تھوڑی بہت سہولت مل جایا کرتی تھی۔ لیکن آج پاکستان کی اقتصادی صورتحال کا یہ عالم ہے کہ اس بجٹ سے پیشتر کے چند مہینوں میں بجلی کی قیمت میں چھ بار، گیس کی قیمت میں چار بار اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پانچ بار اضافہ کیا جا چکا ہے۔ یعنی اصل کارروائی بجٹ سے قطع نظر بھی جاری و ساری رہتی ہے۔ بجٹ میں کوشش کی جاتی ہے کہ مختلف ثانوی نوعیت کے اعداد و شمار کو موضوع بنا کے اصل میکرو اکنامک معاملات کو مخفی رکھا جائے۔
پاکستان کی دو تہائی سے زیادہ معیشت ویسے ہی سیاہ یا غیر دستاویزی ہے جو سرکاری لکھت پڑھت میں ہی نہیں آتی ہے۔ ایسی معیشت کا بجٹ کتنی درستی سے تیار کیا جا سکتا ہے اس کا اندازہ قارئین خود لگا سکتے ہیں۔
10 جون کو پیش کیے جانے والے اکنامک سروے کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران 20 میں 15 اہداف نہ صرف یہ کہ پورے نہیں ہوئے بلکہ کئی صورتوں میں اہداف اور نتائج کے درمیان زمین آسمان کا فرق تھا۔ لارج سکیل مینوفیکچرنگ، جو سرمایہ دارانہ معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، جیسے کلیدی اعشارئیے تو باقاعدہ منفی میں چلے گئے ہیں۔ جی ڈی پی کی شرح نمو، جسے 3.2 فیصد ظاہر کیا جا رہا ہے‘ درحقیقت اس سے بھی کم ہے۔ شاید دو ڈھائی فیصد سے زیادہ نہ ہو۔ سننے میں آیا ہے کہ ہر اعشارئیے میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ کی جاتی ہے۔
بجٹ پر مختصراً بات کی جائے تو درمیانے اور نچلے درجے کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں جو معمولی اضافہ کیا گیا ہے‘ وہ نئی ٹیکس سلیبوں کی ہیر پھیر (اور مہنگائی) کی نذر ہو کے صفر ہو جائے گا یا منفی میں چلا جائے گا۔ چینی، خوردنی تیل، گھی، سیمنٹ، سی این جی، مشروبات، گوشت وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ اسی طرح کم از کم قابلِ ٹیکس آمدن کی حد 12 لاکھ سے کم کر کے تنخواہ دار طبقے کے لیے چھ لاکھ اور دیگر غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے چار لاکھ مقرر کر دی گئی ہے۔ انکم ٹیکس کے تعین کے لئے موجود سلیبوں کی تعداد بھی بڑھا کے 12 کر دی گئی ہے‘ جس سے درمیانے طبقے پر مزید بوجھ پڑے گا کیونکہ بالواسطہ ٹیکسوں کے ساتھ براہِ راست ٹیکس میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔
اسی طرح بنیادی یا کم از کم اجرت کا معاملہ ہے جو 10 فیصد اضافے کے ساتھ 17500 روپے کر دی گئی ہے۔ اس اجرت میں ایک خاندان تو کجا ایک انسان کا گزارہ بھی ممکن نہیں ہے۔ لیکن پاکستان میں محنت کشوں کی اکثریت کو اتنی اجرت بھی نہیں مل پاتی ہے۔ یہ شرمناک حد تک قلیل اجرت اس نظام کی حکومتوں کی محنت کش طبقے کے بارے میں بے حسی کی غمازی کرتی ہے۔
لیکن زیادہ اہم معیشت کی عمومی کیفیت اور سمت کا تعین ہے‘ جس کے لئے اس بجٹ کی روشنی میں کچھ میکرو اکنامک اعشاریوں پر توجہ دینا ہو گی۔ مثلاً اگلے مالی سال میں خود حکومت کے مطابق مہنگائی کی شرح 13 فیصد تک رہے گی (یعنی موجودہ شرح سے تقریباً 4 فیصد زیادہ) جو گزشتہ تقریباً دس سال کی بلند ترین شرح ہے۔ لیکن نہ صرف یہ کہ روزمرہ زندگیوں کو متاثر کرنے والی حقیقی مہنگائی حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو گی بلکہ 'سرکاری مہنگائی‘ بھی اس ہدف سے زیادہ ہی رہے گی۔
اسی طرح بجٹ کے مطابق معیشت صرف 2.4 فیصد کی شرح سے نمو پائے گی۔ معیشت میں اتنی سست روی 2008-09ء کے بحرانی عرصے میں بھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی‘ جب شرح نمو 2.6 فیصد تھی۔ یاد رہے کہ پاکستان میں ہر سال محنت کی منڈی میں داخل ہونے والے پندرہ سے بیس لاکھ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لئے کم از کم 8 فیصد کی شرح نمو درکار ہے‘ جو کہ فی الحال نہیں ہے اور مستقبل قریب میں اس کے پیدا ہونے کا امکان بھی نہیں ہے۔
2.4 فیصد کی انتہائی کم شرح نمو کو بلند افراطِ زر (مہنگائی)کے ساتھ ملا کے دیکھیں تو یہ 'سٹیگفلیشن‘ کی انتہائی گمبھیر صورتحال بنتی ہے‘ جس سے غربت اور بیروزگاری میں بے حد اضافہ ہی ہو گا۔ یوں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ عملی طور پہ معیشت نمو یعنی بڑھوتری کی بجائے سکڑائو کا شکار ہو چکی ہے۔
بجٹ کا کْل تخمینہ 7022 ارب روپے ہے جو پچھلے سال سے 30 فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی محصولات مجموعی طور پر 6717 ارب روپے ہوں گے جو پچھلے سال سے 19 فیصد زیادہ ہیں۔ ایف بی آر نے اس سال ٹیکس وصولی کا ہدف 5550 ارب روپے رکھا ہے۔ بجٹ خسارے کا ہدف 3560 ارب روپے ہے جبکہ مجموعی مالیاتی خسارہ تقریباً 3137 بلین روپے ہو گا۔
لیکن یہ خسارے ان اہداف سے کہیں زیادہ بڑھ جانے کے قوی امکانات ہیں کیونکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف سراسر غیر حقیقی ہے۔ ختم ہونے والے مالی سال کے دوران حکومتی آمدن میں اضافہ صفر رہا ہے جبکہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولیاں ہدف سے کئی سو ارب روپے کم رہی ہیں۔ نوٹوں کی مسلسل چھپائی، ترقیاتی بجٹ میں کٹوتیوں اور عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کی یلغار کے باوجود مالیاتی خسارہ بدستور جی ڈی پی کے 5.5 فیصد پہ کھڑا ہے۔ آئندہ مالی سال یہ 7.5 فیصد (تقریباً چار ہزار ارب روپے) سے اوپر جا سکتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرضوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو گا۔
پہلے ہی صورتحال یہ ہے قرضوں اور شرح سود میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے میں سود کی ادائیگی حکومتی آمدن کے 41 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو موجودہ حکومت سے قبل 33 فیصد تھی۔
غیر سرکاری مبصرین کے مطابق موجودہ حکومت اپنے پہلے تقریباً ایک سال کے دوران قرضوں میں پانچ ہزار ارب روپے کا اضافہ کر چکی ہے۔ جبکہ خود حکومت کے مطابق بھی یہ اضافہ ساڑھے تین ہزار ارب روپے سے زائد بنتا ہے۔ تقریباً دس ارب ڈالر کا قرضہ سعودی عرب اور چین وغیرہ سے لیا گیا۔ ابھی آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہے۔ داخلی قرضوں کا حجم اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
قرضوں کے اس دیوہیکل حجم کو مذکورہ بالا سٹیگفلیشن کے ساتھ ملا کے دیکھیں تو ایک بھیانک صورتحال اور بھی واضح ہو کے سامنے آتی ہے۔
دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ دفاعی اخراجات کی مد میں ''رضاکارانہ کٹوتی‘‘ کے بعد 52 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 1152 ارب روپے سے زائد رقم مختص کی گئی ہے۔ اور یہ اس مد کے صرف اعلانیہ اخراجات ہیں۔
مجموعی طور پر 4 ہزار ارب روپے سے زائد رقم صرف دو شعبوں یعنی دفاع اور قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے مختص کی گئی ہے جو مجموعی بجٹ کے دو تہائی سے زیادہ بنتی ہے۔ باقی کی زیادہ تر رقم جاری اخراجات کی نذر ہو جائے گی۔ ترقیاتی اخراجات مزید 17.5 فیصد کمی کے ساتھ 949 ارب روپے رہیں گے جن کا بڑا حصہ پھر ٹھیکے داروں اور کمیشن خوروں کی جیبوں میں ہی جائے گا۔
صحت اور تعلیم کے شعبوں کو صوبوں کے حوالے کر کے ویسے ہی گول کر دیا گیا ہے۔ صوبوں کے لئے جو 3255 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ان کا بڑا حصہ پھر جاری اخراجات اور بد عنوانیوں کی نذر ہو جائے گا۔ صحت اور تعلیم کے اخراجات جو پہلے ہی جی ڈی پی کے ڈیڑھ دو فیصد کے درمیان جھولتے رہتے ہیں، مزید کم ہی ہوں گے۔
اس معیشت کے بجٹ، جو موجودہ بحرانی حالات میں مزید بے رحمانہ ہو گئے ہیں، عوام سے روزی روٹی چھین ہی سکتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پہ حکمران طبقات کے نظام کے بحران کی قیمت محنت کش طبقے سے وصول کرنے کی کھاتے داری ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ بحران اور عوام پر اس کے بوجھ میں اضافہ ہی ہو گا۔ سوال صرف معیشت کے ڈھانچے کو بدلنے کا نہیں بلکہ معاشرت، سیاست اور ریاست کو بھی حکمران طبقے کی بجائے وسیع تر عوام کے مفادات کے مطابق ڈھالے بغیر بہتری اور آسودگی کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اس تاریخی تبدیلی کا واحد راستہ انقلابی سوشلزم ہی بن سکتا ہے۔