تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     01-05-2013

جو بیجا تھا‘ کاٹنا تو ہوگا

نفسیاتی معالج مدتوں سے کیتھارسس طریقِ علاج کو نفسیاتی الجھنوں، غصہ، ہیجان یہاں تک کہ شدید ذہنی مرض کے لیے زود اثر سمجھتے چلے آ رہے ہیں اور آج بھی اس پر عمل ہو رہا ہے۔ یہ کوئی مکمل طریقہ علاج تو نہیں لیکن یہ ہر علاج کا کہیں نہ کہیں جزو ضرور ہوتا ہے۔ سادہ الفاظ میں کیتھارسس کا مطلب بھڑاس نکالنا ہے۔ انسان روز مرہ معمولات میں پریشانیوں اور ناکامیوں کا شکار ہوتا ہے، اکثر اسے ناکردہ گناہ کی پاداش میں سزا ہو جاتی ہے، بے وجہ ڈانٹ پڑتی ہے، ذلیل و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تمام باتیں اس کی شخصیت پر دو طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں۔ کمزور قوتِ ارادی والا شدید پژمردگی اور ڈپریشن کا شکار ہو جائے گا۔ اگر اُس کے اندر حد درجہ غصہ اور جذباتی ہیجان ہوگا تو پھر اُس کی حالت جنونی شخص جیسی ہو جائے گی جو بلاوجہ توڑ پھوڑ کرتا پھرے گا اور ہر ایسی چیز کو جس پر اُس کا بس چلے گا‘ برباد کردے گا۔ کمزور کو گالیاں دے گا، تھپڑ مارے گا، بلاوجہ زدو کوب کرے گا۔ ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ جس زیادتی اور ظلم کا شکار ہوتا ہے‘ اُس کے خلاف آواز اُٹھانے اور اپنے اندر اُبلتے جذبات کو زبان پر لانے کا اُسے موقع نہیں ملتا‘ یہاں تک کہ یہی جذبات ایک دن آتش فشاں بن کر اُبل پڑتے ہیں۔ یہی آتش فشاں انسانوں میں دو متضاد رویّے پیدا کرتا ہے، ایک خودکشی (Suicide) کا رجحان اور دوسرا قتل (Homicide) کرنے کا۔ خودکشی کرنے والا بھی اپنی ذات کی حد تک اعتماد کی آخری منزل پر ہوتا ہے ۔ اُسے یقین ہو جاتا ہے کہ اب اس دنیا میں کوئی اُس کی بات نہیں سنے گا؛ چنانچہ اب یہاں زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ موت کو گلے لگانا انتہائی مشکل کام ہے لیکن وہ اپنی نفسیات کے زیر اثر یہ کام کر گزرتا ہے۔ اسی طرح لوگوں کی جان لینا، قتل کرنا اور بار بار قتل کرنا بھی اعتماد کی آخری منزل ہے۔ ایسا شخص بھی اس بات کا قائل ہو جاتا ہے کہ اُس کے غصے کی آگ اسی وقت ٹھنڈی ہوگی اور اسے چین اُسی وقت نصیب ہوگا جب وہ کسی کی گردن اُڑادے گا، کسی کا گھر اُجاڑدے یا پھر کسی کی عمارت، گھر یا کاروبار کو تباہ کردے گا۔یہ دونوں رویّے بنیادی طور پر ایک ہی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ یہ کہ ایسے شخص کو اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے، اپنا دکھ درد بیان کرنے کے لیے کوئی شخص، کوئی محفل یا کوئی معالج میسر نہیں آتا۔ اسی لیے نفسیات دان سب سے پہلے اس غصہ، ہیجان اور اضطراب کو نکالنے کے لیے کیتھارسس کے عمل کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ عمل بالکل ایسے ہی ہوتا ہے جیسے کسی نالی میں رکھی اینٹ کی وجہ سے پانی جمع ہوتا رہے۔ کیتھارسس اس اینٹ کو ہٹانے کا عمل ہوتا ہے، تا کہ پانی مزید جمع نہ ہو‘ ورنہ وہ کناروں سے بہہ نکلے گا۔ اوّلین نفسیات دان فرائڈ، ژُنگ اور ایڈلر اور جدید ترین ماہرین نفسیات و معالج سب کے سب‘ مریض کے ذہن سے ایسے بوجھ کو فوراً ہلکا کرتے ہیں جس نے اُس کا جینا عـذاب کیا ہوتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں مریض بڑی حد تک پُرسکون ہو جاتا ہے اور معالج کی بات سننے لگتا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل وہ خود کشی کی طرف بھاگ رہا ہوتا ہے یا اس قدر بپھر جاتا ہے کہ کئی کئی لوگ اسے سنبھالتے پھرتے ہیں مگر وہ توڑ پھوڑ کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے اور کسی کے قابو نہیں آتا۔ یہی نفسیاتی رجحان اور رویہ قوموں، قبیلوں اور گروہوں کا بھی ہوتا ہے۔ انسانوں کے ذاتی دکھ، کرب اور المیے مل کر کسی گروہ، قبیلے اور قوم کا مزاج ترتیب دیتے ہیں۔ جو قوم مصائب میں رہنے اور اُس کے سامنے سر جھکانے کی تاریخ رکھتی ہو وہاں خود کشی کے رجحان زیادہ پیدا ہوتے ہیں اور جس قوم کی تاریخ مقابلہ کرنے ،لڑنے اور سر نہ جھکانے سے عبارت ہوتی ہے وہ قتل و غارت، افراتفری اور توڑ پھوڑ کی طرف مائل ہوتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے گزشتہ دس سال ایسے گزرے ہیں کہ دو قوموں کو نفسیات کی زبان میں کیتھارسس یا بھڑاس نکالنے کا موقع نہیں مل سکا۔ وہ اپنے او پر ہونے والے ظلم و زیادتی اور قتل وغارت پر خود ہی کڑھتے رہے۔ ان کے اندر غصہ شعلہ بنتا رہا۔ یہ تھے قبائلی علاقے کے پشتون اور بلوچستان کے بلوچ۔ گزشتہ دس سال ان پر بڑا ظلم ہوا‘ ان کے گھر اُجڑے، ان کے بچے اغوا ہوئے، انہیں اپنے بچوں کی لاشیں ٹکڑوں کی صورت اٹھانا پڑیں۔ قبائلی علاقے کے پشتون اس بہیمانہ ظلم اور تشدد کو سہتے رہے۔ کبھی سکیورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں اور کبھی امریکہ کے ڈرونز حملوں سے۔ دوسری جانب بلوچستان بھی اسی صورتحال سے دوچار رہا۔ دونوں علاقوں کے و ہ مظلوم افراد جن کے پیارے غائب کر دیے گئے، جن کے افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے، جن کو مدتوں اپنے گھروں میں واپس لوٹنے کا موقع نہ مل سکا‘ وہ سب اس کیتھارسس سے محروم رہے۔ ہمارا میڈیا وہ واحد ذریعہ ہے جو اجتماعی کیتھارسس فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ دس سال اس میڈیا پر کریکرحملوں کی خبریں بریکنگ نیوز کے طور پر آتی رہیں۔ سکول کا ٹیچر اگر بچے کو تھپڑ مارتا تو خبر بنتی۔ لاہور یا کراچی کے پُر رونق بازاروں میں حملہ ہوتا تو مہینوں تک اُس کی یاد تازہ رکھی جاتی، کہیں کسی شخص یا قافلے پر حملے کی کوشش بھی ہوتی تو کئی کئی دن ٹاک شو چلتے رہتے‘ لیکن وزیر ستان میں مرنے والے کسی بچے یا عورت کا ماتم تو دور کی بات‘ مناسب انداز میں ذکر تک نہ کیا گیا۔ ان کے اجڑے ہوئے گھروں کی شکل تک میڈیا پر نظر نہ آئی۔ ان میں سے لاکھوں افراد نے شہروں کو ہجرت کی ، ان کے بچے لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر کوڑا دانوں میں رزق تلاش کرتے رہے لیکن ان پر کسی نے کوئی ڈاکو مینٹری نہ بنا ئی۔ یہی حال بلوچستان کا رہا۔ بلوچوں کی مسخ لاشیں بھی ان کی ویب سائٹس کے علاوہ کہیں نظر نہ آئیں۔ یہ سب لوگ اپنے دکھ اپنے اندر لے کر سلگتے رہے، لاو اپکتا رہا ۔یہی وہ لاوا ہے جس نے اب آتش فشاں کی صورت اختیار کرلی ہے ۔ آتش فشاں ہمیشہ کمزور جگہ دیکھ کر اپنا لاوا باہر نکالتا ہے۔ ان دونوں مظلوم اقوم کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ صدیوں ان کی آتشِ انتقام نہیں بجھتی۔ ان کا اندرونی لاوا ایک کمزور وقت کا انتطار کر رہا تھا ۔ آج سب کو اقتدار کی ہوس الیکشنوں میں باہر نکلنے پر مجبور کررہی ہے۔ ایسے میںہر قدم پر آتش فشاں ہے، ہر علاقہ ایک بارودی سرنگ ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔ دس سال کیتھارسس نہ ہونے سے ان کا غصہ شدید ہو گیا۔ اب یہ غصہ، نفرت، ہیجان اور اضطراب خواہ خودکشی کا رجحان پیدا کرے یا قتل و غارت کا، یہ تو مقدر ہے۔ بیجا‘ کاٹنا پڑتا ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved