اس کرۂ ارض پر حصول زر کے لیے ایک حشر بپا ہے۔ ایک طبقہ دولت کے انبار اور اثاثوں کے لامتناہی اضافے کی اندھی دوڑ میں ہر قدر، ہر انسانی احساس اور معاشرتی زندگی کی تہذیب کو روندتا چلا جارہا ہے۔ اس ہولناکی میں حکمران طبقہ اگرچہ آپس میں برسرپیکار ہے اور اس کے مختلف دھڑوں کے درمیان لوٹ مار کی تقسیم پر جاری تصادم ، سماج کو جہنم بناتا جارہا ہے لیکن لوٹ مار، استحصال اور حکمرانی کی ضمانت فراہم کرنے والے سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت اور اس کی بقا کے لئے حکمران ہمیشہ متحد ہوتے ہیں۔ محنت کش طبقہ سماجی جمود کے عام حالات میں حکمرانوں کی ثقافت، سماجی اقدار، اخلاقیات، ریت رواجوں، تعصبات اور توہمات کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوتا ہے۔ ریاستی اور معاشرتی جبرمیں دبا ہوا بظاہر اس مخصوص کیفیت میں نحیف ولاچار دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں حکمرانوں کی دانش اور ذرائع ابلاغ اس جبرکے تسلط کو عمومی سماجی نفسیات پر حاوی رکھنے کے لیے مسلسل ایک یلغار جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔آج دنیا کا کوئی ملک کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں سرمایہ داری کا استحصال اور ظلم کسی نہ کسی درجے پر موجود نہ ہو۔خوشحالی اور بہتری اب ترقی یافتہ ممالک میں قصہ پارینہ بن کر رہ گئی ہے۔ 2008ء سے شروع ہونے والے سرمایہ داری کے تاریخی اور عالمی بحران کی شدت سے پاکستان جیسے ممالک جو پہلے سے ہی بدحال تھے مزید بربادیوں اور تباہ کاریوں کے بھنور میں ڈوبتے جارہے ہیں۔ اس نظام کی فوجی آمریتوں نے تو ان کے جسموں پر زخم لگائے ہی تھے لیکن اس کی جمہوریتوں نے بھی ان کی روح، احساس اور نفسیات کو غربت،مہنگائی، بیروزگاری اور محرومی کے تابڑ توڑ حملوں سے بری طرح مجروح اور گھائل کردیا ہے۔ طبقاتی خلیج بڑھتی جارہی ہے۔حکمران اپنے معیار زندگی، عادات و اطواراور سوچ سے کسی اور سیارے کی مخلوق لگتے ہیں۔ آج جہاں موجودہ معروض کا وحشت ناک جبر مظلوموں کی ہر آواز، ہرطبقاتی ابھار اورہر بغاوت کو درندگی سے کچل رہا ہے وہاںآج دنیا بھر میں ہمیں ابھرتی ہوئی عوامی سیاسی بغاوتوں کے پہلے قدموں کی چاپ میڈیا کی اس مجرمانہ خاموشی میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ ایک نئی نسل اس سفاک نظام اور استحصال کے خلاف تلملا رہی ہے۔پاکستان میں اگرچہ محنت کشوں کی کوئی بڑی اور اجتماعی تحریک موجود نہیں ہے لیکن ہمیں پچھلے کئی سالوں سے مختلف اداروں میں درجنوں چھوٹی بڑی تحریکیں نظر آرہی ہیں۔نوجوان ڈاکٹرز، لیڈی ہیلتھ ورکر ز،ٹیلی کمیونیکیشنز، ریلوے ، سٹیل مل، اساتذہ غرضیکہ شاید ہی کوئی ادارہ یا شعبہ ایسا ہوگا جہاں ایک تسلسل کے ساتھ اس ذلت اور بربادی کے خلاف محدود سہی مگر تحریکیں ابھرنہ رہی ہوں۔ اس کے علاوہ لوڈشیڈنگ اورمہنگائی کے خلاف کونسا شہر یا قصبہ ہے جہاں غصہ اور نفرت بار بارمحنت کشوں اور نوجوانوں کو سڑکوں پر نہیں لارہی۔یہ تحریکیں فی الوقت الگ تھلگ اور ایک دوسرے سے غیر منسلک ہیں،اس کے علاوہ سماج میں عمومی طور پر ایک بیگانگی اور سیاسی بے حسی حاوی ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی تحریک اپنا معیار حرکت (Momentum)زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھ پارہی۔لیکن سماجی شعور اور معروضی حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے، پاکستان میں جلد یا بدیرمحنت کشوں اور نوجوانوں کی انقلابی تحریک نا گزیر ہے۔حکمران سمجھتے ہیں کہ محنت کش طبقہ اب ہار چکا ہے لیکن ان کی یہی غلط فہمی ان کو آنے والے وقت میں ایک شدید دھچکے سے دوچار کرے گی۔ حکمران مظلوم عوام کی تحریک کے تمام راستے ریاست، سیاست اور صحافت کے ذریعے بند کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، مگر اس تحریک کو حکمران کب تک روک سکیں گے؟جیسے مختلف ندیوں اورجھرنوں کا پانی کسی بڑے بندمیں جمع ہوتا رہتا ہے لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب اس جمع ہونے والے پانی کا زور بڑے سے بڑے بندکو توڑ کر ایک سیلاب بن جاتا ہے۔قومی،مذہبی، فرقہ وارانہ،لسانی،نسلی اور دوسرے تعصبات کو بھی حکمران ایک حدتک ہی استعمال کرسکتے ہیں۔ آج یہ نظام اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ اس میں اصلاح کی صلاحیت ہی ختم ہوچکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ٹریڈ یونین میں منظم مزدوروں کی تعداد صرف 3فیصد رہ گئی ہے۔ نتیجہ: استحصال زوروں پر ہے۔ یکم مئی1886ء کو امریکہ کے شہر شکاگو میں مارے جانے والے مزدوروں نے بھی اسی سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف آواز بلند کی تھی۔یہ مزدور سفید جھنڈے لے کر شہر کے مرکزی ’’ہے اسکوائر‘‘ میں آٹھ گھنٹے روزانہ کام کے اوقات کار کا مطالبہ لے کر ایک مظاہرے میں آئے تھے۔انہیں کیا خبر تھی کہ اس پر امن مظاہرے کو کس سفاکی سے کچلا جائے گا! جوں جوں یہ آگے بڑھتے گئے امریکی ریاست کی پولیس نے ان پر گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ ایک کے بعد دوسرا مزدور ان گولیوں کی بوچھاڑ میں گرتا چلا گیا۔ ان کے بہتے ہوئے لہو میں بھیگ کر ان کے سفید پرچم سرخ ہوگئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اس واقعے کے بعد مزدوروں کی ہر جدوجہد اور تحریک کا پرچم سفید نہیں بلکہ سرخ ہو گیا۔ 14جولائی 1889ء کو پیرس میں مارکسسٹوں کی دوسری بین الاقوامی (Second International)کی تشکیل کے لئے ایک تاسیسی کانگریس ہوئی ۔ اس کانگریس میں عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز نے شکاگو کے ان شہید مزدوروں کی یاد میں یکم مئی کو پوری دنیا میںمحنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔مزدوروں کی اس بین الاقوامیت کا مطلب صرف یہی ہے کہ ان کی زندگی کی جدوجہد اور مقاصد ایک ہی ہوتے ہیں۔محنت اور سرمائے کی اس جنگ میں طبقات، مفادات کا فیصلہ کرتے ہیں۔اس لئے اس طبقاتی جنگ کو ماند کرنے کے لئے حکمران رنگ، نسل، قوم، مذہب اور دوسرے تعصبات کا سہارا لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مارکس اور اینگلز نے جوبنیادی نعرہ مزدور تحریک کو دیا تھا وہ ’’دنیا بھر کے محنت کشو! ایک ہو جائو‘‘ کا تھا۔یہ نعرہ ماضی کے تمام تعصبات سے بالا تر ہو کر ایک عظیم طبقاتی یکجہتی کا پیغام ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کے معنی ہیں ’’ایک کا دکھ… سب کا دکھ!‘‘۔یوم مئی دنیا کا واحد تہوار ہے جو تمام تعصبات کے بندھنوں سے آزاد ہو کر محنت کرنے والے انسان مناتے ہیں۔ دنیا بھر کے گوشے گوشے میں محنت کرنے والے اس روز صرف محنت اور سرمائے کے تضاد اور طبقاتی کشمکش کے نام پر اکٹھے ہوں گے۔ اس سال یوم مئی کو پاکستان میں انتخابات کے شور شرابے میں دبانے کی کوشش کی جائے گی۔ان انتخابات میں کوئی بھی بڑی پارٹی محنت کشوں کے طبقاتی مفادات اور مطالبات کی نمائندگی نہیں کر رہی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈرمالیاتی سرمائے کے غلام ہیں۔محنت کشوں کی تحریک کو 2007ء میں جس پسپائی کا سامنا کرنا پڑا تھاابھی تک وہ اس سے نکل کر دوبارہ تاریخ کے میدان میں نہیں اُتر سکی۔ انتخابات تو ہو جائیں گے لیکن کچھ بدلے گا نہیں۔ اب محنت کشوں کواس طبقاتی جنگ کا آخری فیصلہ کن معرکہ لڑناہوگا۔ انسانی بقا کااب سوشلسٹ انقلاب کے بغیر کوئی راستہ نہیں۔ یہی یوم مئی کا پیغام ہے۔۔۔!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved