تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     16-06-2019

بھارتی سرکار کی پس و پیش

بھارتی سرکار کی جانب سے پاکستان کے بارے میں پس و پیش کی پالیسی میری سمجھ سے باہر ہے۔ ایک طرف اس نے پاکستان کو سبق سکھانے کی ٹھان رکھی ہے اور دوسری طرف اس کی چھوٹی سے مہربانی پانے کے لیے گڑگڑاتی رہتی ہے‘ پاکستان کی حکومت کے ترلے کرتی رہتی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں بشکیک میں ہونے والے شنگھائی تعاون کانفرنس میں شرکت کی ہے۔ اب شنگھائی اجلاس میں شرکت کے لیے ان کی روانگی سے پہلے سوال یہ تھا کہ وہ پاکستان کی ہوائی حد سے اڑ کر کرغیزستان کے دارالحکومت بشکیک جائیں گے تو یہ سفر چار گھنٹے میں ہو گا اور پاکستان نے اجازت نہیں دی تو ان کا جہاز چکر لگا کر آٹھ گھنٹے میں پہنچے گا۔ یاد رہے کہ سابق بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی بشکیک جاتے ہوئے پاکستان کی اجازت مانگی تھی اور پاکستان نے ان پر مہربانی کر کے اجازت دے دی تھی۔ اب اصل سوال یہ نہیں کہ مودی نے بشکیک جانے کے لئے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کیں یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ مودی کو اس مہربانی کی ضرورت کیا ہے؟ اس سے زیادہ اہمیت کے معاملات پڑے ہیں جن پر بھارتی حکومت کو پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے۔ آپ کے چار یا آٹھ گھنٹے کیا اتنے اہمیت والے ہیں کہ آپ اپنی عزت بھی دائو پر لگا دیں؟ اور صرف آپ کی ہی عزت ہے‘ دوسرے ایشوز نہیں ہیں؟ مثلاً اکیلے ایئر انڈیا نے اپریل اور مئی کے مہینوں میں پاکستان کی اس راستہ بندی کے سبب تین سو کروڑ روپے کا نقصان اٹھایا۔ پٹرول اور دیگر اشیا کی درآمد اور قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔ یہ تو صرف ایک ہوائی کمپنی کا ایک ماہ کا نقصان ہے۔ اگر سبھی کمپنیوں کا نقصان جوڑا جائے تو یہ ہزاروں کروڑ بیٹھے گا۔ اس سے بھی زیادہ فکر کی بات ہمارے کسانوں کی ہے۔ پاکستان کو بیچا جانے والا کھیتی کا مال ہمارے بازاروں میں سڑ رہا ہے۔ پاکستان سے ہماری تجارت 92 فیصد کم ہو گئی ہے۔ مہاراشٹر میں انگور چالیس روپے سے کم ہو کر اٹھارہ روپے کلو میں بک رہا ہے۔ 27 فروری کو بالا کوٹ کا واقعہ ہوا۔ ہوا سو ہوا۔ دونوں ملکوں کا تھوڑا بہت نقصان ہوا۔ اب اس کے بہانے فضائی راستہ اور تجارت بند کر کے زیادہ نقصان کر نے پر دونوں ملکوں کے لیڈر کیوں آمادہ ہیں؟ بھارت اور پاکستان‘ دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنا دماغ ٹھنڈا کریں اور اپنے باہمی تعلقات کو آسان بنائیں۔ اس وقت پاکستان گہری مشکل میں گھرا ہوا ہے۔ اس کے باوجود وہ بھارت کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے گا۔ کبھی نہیں ٹیکے گا۔ بھارت بھی بڑا ہو کر دکھائے اور اس کی مجبوری سمجھے۔ اس کی فراخ دلی کا اثر وہاں کسی اور پر پڑے یا نہ پڑے‘ پاکستان کے لوگوں اور لیڈروں پر اس کا اثر پڑے بنا نہیں رہے گا۔ پاکستان کی جانب سے اس سلسلے میں کئی بار پہل کی جا چکی ہے اب وزیر اعظم مودی کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہو گا۔
مودی‘ سری لنکا اور مالدیپ میں 
دوسری بار وزیر اعظم بنتے ہی نریندر مودی نے مالدیپ اور سری لنکا جانا طے کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب بھارت پڑوسی ملکوں کو کتنی اہمیت والا سمجھنے لگا ہے۔ پہلے مالدیپ جا کر وزیر اعظم نے یہ پیغام دیا کہ اس بار انہوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں سارک کی بجائے بمسٹیک کے ممالک کو بلایا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھارت سارک کا مذاق اڑا رہا ہے۔ بمسٹیک مخفف ہے The Bay of Bengal Initiative for Multi-Sectoral Technical and Economic Cooperation کا اور اسے انگریزی زبان میں مختصراً BIMSTEC لکھتے ہیں۔ مالدیپ سارک کا ممبر ہے‘ بمسٹیک کا نہیں لیکن مودی سری لنکا بھی گئے‘ جو بمسٹیک اور سارک دونوں کا ممبر ہے۔ دونوں ملکوں میں انہوں نے جو کیا‘ اس ضروری بات پر میرا دھیان گیا۔ انہیں ہندو ہردے سمراٹ کہا جاتا ہے‘ لیکن مالدیپ میں انہوں نے سترہویں صدی کی جامع مسجد کو دوبارہ بنانے کا ذمہ لیا اور سری لنکا میں وہ سینٹ ایتھونی چرچ میں گئے‘ جہاں دہشت گردوں نے ڈھائی سو عیسائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ مودی کے اس دورے نے دنیا کے سبھی مسلم اور عیسائی ملکوں کو بھارت کی دریا دلی اور انسانیت کا پیغام دیا۔ سچے ہندوتوا کا تعارف دیا۔ دوسری بات یہ کہ ان دونوں ملکوں میں انہوں نے کسی ملک کا نام لیے بنا دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ تیسری بات‘ ان ملکوں کو مدد کے نام پر قرض میں ڈبونے کی چینی چال کو انہوں نے بیدار کیا یعنی اجاگر کیا اور بتایا کہ دراصل کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ چوتھی‘ ان دونوں ملکوں میں انہوں نے جو بھاشن دیے‘ ان میں ایک بزرگ بھارتی خاندان کی تہذیب کا عکس جھلکتا ہے‘ جو چین کے اکانومی حملے کے مقابلے بہت بھاری پڑتا ہے۔ پانچواں‘ ان دونوں کے ساتھ جو اقتصادی اور جنگی سمجھوتے ہوئے ہیں‘ ان سے باہمی اعتماد اور تعاون بڑھے گا۔ مالدیپ سرکار نے مودی کو اپنا سب سے بڑا ملکی اعزاز بھی دیا ہے۔ سری لنکا میں مودی نے اپوزیشن لیڈر مہندا راج پکشے سے بھی مل کر دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کیونکہ وہاں کی سیاست آج کل نازک حالت میں ہے۔ تامل لیڈروں سے ملنے اور بھارتیوں کے بیچ بھاشن دینے کا اثر تامل ناڈو کی سیاست پر پڑے بنا نہیں رہے گا یعنی وہاں اس کے اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ مودی نے دونوں ملکوں میں اپنے بھاشن ہندی میں دیے۔ وزیر اعظم چندر شیکھر جی نے مالدیپ میں ہوئے سارک اجلاس میں میری گزارش پر ہندی میں خطاب کیا تھا۔ ان کے بعد اب مودی نے اس زبان میں خطاب کیا ہے۔
زیادتی کرنے والوں کو پھانسی دی جائے! 
کچھ عرصہ قبل جموں و کشمیر کے کٹھوا ضلع میں بکروال کی ایک مسلم لڑکی کے ساتھ پہلے زیادتی کی گئی اور پھر اس کا قتل کر دیا گیا۔ وہ لڑکی صرف آٹھ برس کی تھی۔ اسے ایک مندر میں لے جا کر نشیلی ادویات کھلائی گئیں اور پھر زیادتی کی گئی۔ مجرموں پر مقدمہ چلا اور ان میں سے تین کو عمر قید ہوئی اور تین کو پانچ پانچ برس کی سزا۔ صرف ڈیڑھ برس میں یہ فیصلہ آ گیا‘ بھارت میں یہ بھی غنیمت ہے۔ لیکن میں اس فیصلے کو نا کافی مانتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس گندے فعل کو فرقہ واریت کی شکل دی گئی۔ صد افسوس کہ ایک ہندو منچ نے گنہگاروں کو بچانے کی کوشش کی‘ کیونکہ وہ ہندو تھے اور وہ بچی مسلم تھی۔ اس معاملے میں بھاجپا کے دو وزیروں کو اپنی بے وقوفی کے سبب استعفے بھی دینے پڑے۔ اس کے لیے بھاجپا لیڈرشپ مبارک کی حق دار ہے‘ لیکن یہ کتنے شرم کی بات کی ہے کہ یہ گناہِ عظیم ایک مندر میں ہوا اور اس مندر کا پجاری اس گناہ میں شامل تھا۔ میں پوچھتا ہوں کہ وہ مندر کیا اب عبادت کے لائق رہ گیا ہے؟ وہ بازاری جگہ سے بھی زیادہ نفرت آمیز مقام بن گیا ہے۔ اس پر کٹھوا کے لوگوں کو ہی بلڈوزر چلوا دینا چاہیے۔ جہاں تک تین لوگوں کی عمر قید کا سوال ہے‘ اس میں وہ پولیس افسر بھی ہے‘ جو ان درندوں میں شامل تھا اور جس نے سارے معاملہ کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی تھی۔ جن دیگر مجرموں کو پانچ پانچ برس کی سزا ملی ہے اور جرمانہ بھی ٹھوکا گیا ہے‘ وہ لوگ اتنے خطرناک مجرم ہیں کہ ان کے لیے یہ سزا کوئی سزا نہیں ہے‘ بلکہ انعام ہے۔ اب ان میں سے آدھے عمر بھر اور آدھے پانچ برس تک جیل میں محفوظ رہیں گے‘ سرکاری روٹیاں توڑیں گے اور موج کریں گے۔ کبھی کبھی پیرول پر چھوٹ کر مٹر گشتی بھی کریں گے۔ ان کو ملی اس سزا سے مجرموں پر کیا اثر پڑے گا؟ یہی ناں کہ پہلے جرم کرو اور پھر چین سے سرکاری روٹیاں توڑتے رہو۔ میری رائے میں ان سبھی لوگوں کو نہ صرف موت کی سزا ملنی چاہیے بلکہ انہیں لال قلعہ پر پھانسی دینا چاہیے اور ان کی نعشیں کتوں سے کھنچوا کر جمنا ندی بہا دی جانی چاہئیں تاکہ اس طرح کا خیال کسی کے دل میں آتے ہی اس کی ہڈیوں میں کپکپی دوڑ جائے۔ اس طرح کی سخت سزا نہ دئیے جانے کا انجام یہ ہے کہ کٹھوا واقعہ کے بعد اس سے بھی زیادہ خوفناک واقعات ملک میں ہو چکے ہیں اور آج بھی ایم پی (مدھیہ پردیش) سے کٹھوا جیسی ہی خبر آئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved