جب چاہیں حکومت گرا سکتے ہیں: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''جب چاہیں حکومت گرا سکتے ہیں‘‘ جبکہ ابھی ہم حکومت کو گرانا نہیں چاہتے ‘کیونکہ اندر خانے بات چیت جاری ہے‘ جو؛ اگر کامیاب ہو گئی تو گرانے کی بجائے حکومت سے تعاون کیا جائے گا‘ بصورت ِدیگر اس بات کا انتظار کیا جائے گا کہ ہمارے دل میں حکومت گرانے کی خواہش بیدار ہوتی رہے‘ کیونکہ والد صاحب سمیت ہم کوئی بھی کام زبردست خواہش کے بغیر نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر جب ہم نے دیکھا کہ جعلی اکاؤنٹس کا کوئی وارث ہی نہیں ہے ‘تو ہمارے دل میں زبردست خواہش نے جنم لیا کہ بے وارثوں کی مدد کیلئے ہمیں قربانی دینا ہوگی اور آگے آنا ہوگا ‘جبکہ یہ ہمارے اکاؤنٹس قدرت کی طرف سے بھرے گئے تھے اور ان کی خبر گیری کی خواہش بھی ہمارے دل میں قدرت ہی نے پیدا کی تھی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
دھاندلی زدہ حکومت کا یومِ حساب قریب آ چکا: شہباز شریف
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''دھاندلی زدہ حکومت کا یومِ حساب قریب آ چکا ہے‘‘ اگرچہ اس وقت تک ہم سب سرکاری مہمان خانے میں ہوں گے اور برادرم اسحق ڈار‘ برخورداران حسین اور حسن بھی داماد جی کے ہمراہ واپس لائے جا چکے ہوں گے‘ تاکہ وہ موجودہ حکومت کا یومِ حساب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ‘جبکہ کل بجٹ تقریر کے دوران میری تقریر میں رکاوٹ ڈالنے والے اپوزیشن کے ارکان سب سے آگے تھے اور اپنی سیٹ پر اُٹھک بیٹھک سے میری کمر کی ساری تکلیف رفع ہو گئی ہے اور امید ہے کہ اس طرح دیگر امراض بھی‘ جن کا لندن میں دو ماہ تک چیک اپ ہوتا رہا‘ افاقہ ہوگا؛ حالانکہ سپیکر صاحب مجھے پون گھنٹہ تقریر کرنے کی دعوت دیتے اور اصرار کرتے رہے‘ لیکن بار بار اٹھنے بیٹھنے سے مجھے کافی ریلیف مل رہا تھا‘ اس لیے تقریر کرنے کی بجائے میں نے اپنا یہی کام جاری رکھا۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے دوران اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
عمران خان میری مانیں‘ استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں: زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''عمران خان میری مانیں اور مستعفی ہو کر گھر چلے جائیں‘‘ حالانکہ میں مفت مشورہ کبھی نہیں دیتا‘ کیونکہ؛ اگر سارا کچھ مفت کرتا رہتا تو روپے پیسے کی یہ ریل پیل کیسے ہو جاتی ؟یہاں تو زہر بھی مفت میں نہیں ملتا۔ جیسا کہ اگلے روز میں نے اپنے ملازم کو زہر لانے کیلئے بھیجا تو اُس نے آ کر کہا کہ وہ پیسے مانگتے ہیں‘ کیا زمانہ آ گیا ہے کہ سابق صدر کی اتنی سی فرمائش بھی پوری نہیں کی جا سکتی؛ حالانکہ وہ زہر میں نے اپنے لیے نہیں ‘بلکہ اپنے بعض فرنٹ مینوں کیلئے منگوایا تھا‘ جن کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ نمک حرام میرے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے جا رہے ہیں؛ چنانچہ اب ان کا کوئی اور بندوبست کرنا پڑے گا کہ ان کیلئے زہر پر تو پیسے خرچ نہیں کیے جا سکتے ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہم مہنگائی‘ بیروزگاری پر مزید خاموش نہیں رہ سکتے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''ہم مہنگائی اور بیروزگاری کے طوفان پر مزید خاموش نہیں رہ سکتے‘‘ کیونکہ اب تک ہم جتنا خاموش رہے ہیں‘ اُسی کو کافی سمجھا جائے؛ البتہ‘ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ہم ان مسائل پر مزید کچھ عرصے کیلئے خاموش رہیں تو ہمارے ساتھ بات کرے‘ کیونکہ سیاست لین دین ہی کا نام ہے ‘بصورت ِدیگر حکومت تیار رہے‘ میں بیان دے دے کر ہی اس کی ناک میں دم کر دوں گا اور اسے ناک کی بجائے منہ کھول کر سانس لینا پڑے گا‘ جبکہ سانس لینے کیلئے مستقل طور پر منہ کھولے رکھنے سے منہ میں مکھیوں کی آمد و رفت بھی شروع ہو سکتی ہے اور اس دوران کوئی مکھی ناک پر بھی بیٹھ سکتی ہے‘ جسے کوئی معزز آدمی کبھی برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ ناک کٹوا تو سکتا ہے‘ اس پر مکھی کو بیٹھنے نہیں دے سکتا ۔ آپ اگلے روز گجرات میں عید ملن پارٹی سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
اُس نے جادو بھی کیا‘ سحر بھی ایسا ویسا
اور نس نس میں چڑھا زہر بھی ایسا ویسا
تم سے ملنے کی خوشی تھی کوئی ایسی ویسی
بے کراں بحر تھا اور بحر بھی ایسا ویسا
ایسی ویسی تھی کوئی چھاؤں ترے وعدے کی
اور وعدہ بھی‘ لبِ نہر بھی ایسا ویسا
سیر کو باغ تھا‘ گلگشت کو جا کافی تھی
شہر چھوٹا تھا مگر شہر بھی ایسا ویسا (رفعت ناہید)
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں (عباس تابش)
آج بے تاب اُسے دیکھ کے حیران ہوں میں
جو مجھے صبر کی تلقین کیا کرتا تھا (طارق جاوید)
ذرا بھی فرق نہیں‘ صبح و شام ایک سے ہیں
تمہارے ہجر کے موسم تمام ایک سے ہیں (آزاد حسین آزاد)
کھینچ لی جائے زمیں پاؤں کے نیچے سے اسدؔ
آسماں کو بھی مرے سر سے اُتارا جائے (اسدؔ اعوان)
کبھی دروازے کے دونوں طرف ہوں میں
کبھی دونوں طرف ہی میں نہیں ہوتا
اُس نے پانی پی کے ضمیرؔ
پیاس بجھائی پانی کی
آپ کیوں اتنے ستم کرتے ہیں
آپ میرے کوئی اپنے تو نہیں (ضمیرؔ طالب)
آج کا مقطع
یہ شہر وہ ہے کہ ہر کوئی بے خبر ہے‘ ظفرؔ
کہاں سے خالی ہے یہ اور کہاں بھرا ہوا ہے