کیا ایک مرتبہ پھر مخصوص سرمایہ گردش میں آنے والا ہے اور امسال ملک بھر کی عدالتوں کے اندر اور باہر وہی بارہ برس پرانا کھیل نئے نام اور کرداروں سے کھیلا جائے گا ؟ بارہ برس قبل تو ان کے چار نشانے تھے؛ جن میں سٹیل مل‘ ریکوڈک کے نام سے سونے کی کان ‘ سکیورٹی اداروں کی تحقیر و عوام میں تفریق اور چوتھا لال مسجد کے ذریعے سوات‘ فاٹا اور کے پی کے سمیت ملک بھر میں دہشت گردوں کی نئی کھیپ تیار کرنا۔
12 برس قبل پرویز مشرف نے جب پاکستان سٹیل مل کی نجکاری کا فیصلہ کیا ‘تو ملک دشمنوںنے اس نجکاری کے خلاف وہ مکروہ جھوٹ گھڑے کہ خدا کی پناہ ۔ ملک کے انتہائی اہم اثاثے اونے پونے داموں بیچنے کی کہانیاں سنا سنا کر امریکی ایجنڈے پر کام کرنے والے اس وقت کامیاب تو ہو گئے‘ لیکن ان کے کئے کی سز اآج پوری قوم اور سٹیل مل کے ورکرز اور ان کے ہزاروں خاندان بھگت رہے ہیں اور نہ جانے کب تک بھگتیں گے۔ بارہ برس گزر چکے اور سٹیل مل کے ہزاروں ورکروں کے گھروں کے ساتھ اس فیصلے سے کیا بیتی ‘ان کے بچوں کی تعلیم کا کس طرح ستیا ناس ہوا‘ کس طرح بھوک ننگ اور افلاس نے ہزاروں ورکروں کے گھروں میں ڈیرے ڈال لئے‘ اس سب کی ذمہ داری افتخار چوہدری کے علا وہ اور کسی پر نہیں‘جنہوں نے مبینہ طور پر ایک پاکستان دشمن بیرونی طاقت کے کہنے پر سٹیل مل کی نجکاری کے خلاف سو موٹو ایکشن لیا تھا۔
سٹیل مل کراچی کی نجکاری کے خلاف لئے جانے والے از خود نوٹس کا فیصلہ سنانے سے ایک دن قبل اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جنرل پرویز مشرف کے ملٹری سیکرٹری کو فون کیا کہ سپریم کورٹ کل سٹیل مل کراچی کا فیصلہ سنانے جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں جنرل مشرف سے باہمی مشاورت نا گزیر ہے۔ جنرل مشرف نے اپنے ملٹری سیکرٹری کو کہا کہ آج شام ان سے ملاقات کا وقت طے کر لیں اور ساتھ ہی اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی اطلاع کر دیں کہ وہ بھی ان سے کراچی سٹیل مل کی نجکاری کے فیصلے کیلئے کی جانے والی اس باہمی مشاورت کیلئے میٹنگ میں مقررہ وقت پر پہنچ جائیں۔ جنرل مشرف سے ملاقات کا وقت طے ہونے کے بعد افتخار چوہدری نے اس بارہ رکنی بنچ کے دوسرے ممبران کو اس میٹنگ کی باقاعدہ اطلاع کر دی‘ جب جنرل مشرف‘ افتخار محمد چوہدری اور اٹارنی جنرل تینوں میٹنگ میں اس موضوع پر گفتگو کرنے کیلئے اکٹھے ہوئے‘ تو جنرل مشرف نے گفتگو میں پہل کرتے ہوئے کہا: افتخار‘ــ میں نہیں جانتا کہ آپ نے سٹیل مل پرسو موٹو کیوں لیا؟ لیکن میری خواہش ہے کہ اب آپ جو بھی فیصلہ کریں‘ اس میں آپ کی اور ادارے کی عزت ِنفس پر حرف نہیں آنا چاہیے ۔
جنرل مشرف اور افتخار چوہدری کے درمیان ہونے والی اس ابتدائی گفتگو کی روشنی میں اٹارنی جنرل سے اس کیس کے قانونی پہلوئوں پر تفصیل سے گفتگو کرنے کے بعد یہ لوگ ایک درمیانی فیصلے پر پہنچ گئے ۔حتمی فیصلہ کرنے کے بعد افتخار چوہدری نے خود جنرل مشرف کو اس سوموٹو کے قانونی مندرجات کے ایک ایک پہلو سے آگاہ کر تے ہوئے بتایا کہ ہم نے اس مقدمہ کا 'یہ فیصلہ‘ کیا ہے۔ جنرل مشرف نے ڈرافٹ کئے گئے‘ اس فیصلے کو پڑھنے اور اٹارنی جنرل سے ان کی رائے لینے کے بعد کہا کہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ملکی مفاد کے عین مطا بق بھی ہے۔اگلی صبح جب سپریم کورٹ کا بارہ رکنی بنچ کورٹ روم میں آنے سے پہلے اکٹھا ہوا تو افتخار چوہدری نے بنچ کے دوسرے اراکین کو بتایا کہ میٹنگ میں جانے سے پہلے آپ سب کو اس بارے آگاہ کیا تھا۔ اس معاملے پر تفصیلی بات کرتے ہوئے میں نے اپنے تحفظات سے صدر کو آ گاہ کیا‘ توانہوں نے کہا کہ مجھے سٹیل مل کی پرائیویٹائزیشن منسوخ کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘ جس پر بنچ کے کچھ اراکین حیران ہو کر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ‘کیونکہ ان کے پاس تو میٹنگ کے بعد کچھ اور کچھ ہی خبر آئی تھی ‘لیکن افتخار چوہدری کی نیت پر وہ شک بھی نہیں کر سکتے تھے‘ لیکن لمحے بھر کیلئے وہ کچھ پریشان سے ضرور ہوئے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس وقت کے ایک جج جو مدت ِملازمت میں توسیع کے بعد ریٹائر ہو ئے‘ ان کے لکھے گئے فیصلے پر بارہ رکنی بنچ کے اراکین کے دستخط لینے کے بعد کورٹ روم میں سٹیل مل کی نج کاری منسوخ کرنے کا فیصلہ سنا دیا گیا۔جیسے ہی یہ فیصلہ سامنے آیا ‘ہر طرف ایک کہرام مچ گیا۔
اس فیصلے نے جنرل مشرف کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنے بڑے اور مقدس عہدے پر بیٹھا ہوا کوئی انسان اس طرح کی حرکت بھی کر سکتا ہے‘ لیکن یہ سوچتے ہوئے جنرل مشرف بھول گئے یا کسی نے انہیں بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ فخرالدین جی ابراہیم کے مقدمے کی پندرہ فروری 2007ء کو سماعت کرنے کے بعد چوہدری صاحب نے بھری عدالت میں ان کی اپیل منظور کرنے کا حکم جاری کر دیا‘ لیکن جب اس اپیل کا تحریری فیصلہ سامنے آیا تو وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ یہ عدالت میں دیئے جانے والے اس زبانی حکم کے بالکل ہی الٹ تھا‘جسے انہوںنے کمرہ عدالت میں درجنوں وکلاء اور دوسرے لوگوں کے سامنے دیا ‘۔پھر یہ بھی سب کے سامنے ہے کہ ڈاکٹر شیر افگن نیازی مرحوم کی ایک اپیل‘ جس میں خالد انور اور قادر سعید ان کے وکیل تھے ‘ان کے ساتھ بھی انہوں نے یہی حرکت کی تھی کہ بھری عدالت میں کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد ان کی اپیل کو مسترد کر دیا‘ لیکن جب تحریری فیصلہ سامنے آیا تو اس میں ان کی اپیل منظور ہونے کا حکم تحریر تھا ۔اندازہ کیجئے کہ خالد انور‘ جو اس ملک کے وزیر قانون رہ چکے اور فخر الدین جی ابراہیم ‘جو اس ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں جج کے با وقار عہدے پر فائز رہے؛ اگر ان کے ساتھ افتخار چوہدری کی کورٹ میں اس قسم کا توہین ِآمیز اور جھوٹا انصاف ہو سکتا ہے ‘تو دوسرے لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ کیسا رہا ہو گا؟
سٹیل مل کے اس فیصلے کے بعد افتخار چوہدری کے اس فیصلے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے گئے اور یہ تاثر دیا کہ افتخار چوہدری تو پاکستان کا مسیحا ہے اور جس بات کو سب سے زیا دہ اچھالا گیا‘ وہ یہ تھا کہ جس قیمت میں یہ سٹیل مل بیچی جا رہی ہے‘ اس سے کئی گنا زیادہ تو اس سے ملحقہ زمین کی قیمت ہے‘ جبکہ سچ یہ ہے کہ مئی2006 ء میں سعودی عرب کے ایک گروپ نے سٹیل مل کے75 فیصد حصص ‘جس میں سٹیل مل کی زمین شامل نہیں تھی؛362 ملین ڈالر کی سب سے زیا دہ بولی دینے کے بعد21.6 ملین ڈالر حکومت پاکستان کو ادا کر دیئے اور اس طرح کراچی سٹیل مل کی زمین فروخت کئے بغیر اس بولی سے سٹیل مل کو 13 ملین ڈالر زیا دہ منافع پر بیچنے کا فیصلہ کیا گیا۔
تاہم افتخار چوہدری کا فیصلہ آنے کے بعد ایک بڑے ملک کے گروپ نے کراچی سٹیل مل اور پاکستان میں روس کی MAGNI TAGERSAK کی فنی مدد سے ایک اور نئی سٹیل مل لگانے کیلئے پاکستان کے بینکوں میں جمع کرائے گئے اپنے کروڑوں ڈالر فوری طور پریہ کہتے ہوئے واپس منگوالیے تھے کہ یہ ملک سرمایہ کاری کیلئے منا سب نہیں ہے ۔
کاش !کبھی اس ملک کا کوئی فنانشل ایڈوائزر اٹھے اور بتائے کہ اس فیصلے سے اب تک پاکستان اور سٹیل مل کراچی کو کتنے کھربوں کا نقصان پہنچ چکا ہے۔