تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     17-06-2019

عمران‘ مودی اور بشکیک

جب ہم پہنچے تو پشاور کی سڑکیں خالی تھیں۔ سکولوں میں چھٹیاں ہیں، اس لیے بچہ لوگوں کی ٹریفک بھی بند ہے۔ میں ہمیشہ وقت سے پہلے منزل پر پہنچ کر ریسٹ کرنے کو ''رش آورز‘‘ میں پھنس کر ملنے والی بوریت پر ترجیح دیتا ہوں۔ آج بھی ایسا ہی کیا‘ اسی لیے پشاور ناشتہ کرنے کا موقع مل گیا۔ پنیر سلائس، پکوڑا، پشوری چنا، بڑے پونچے (پائے)‘ بکری قیمہ، کڑک دودھ پتی اور ساتھ پشوری قہوہ بھی۔ 2 مقدموں میں پیش ہوا مگر عدالتی کارروائی بر وقت اور مختصر تھی۔ اس لیے پی ایم کے بُلاوے پر بڑی آسانی سے بنی گالا پہنچنے کا موقع مل گیا۔ اقتصادی ٹیم کے ساتھ میٹنگ جاری تھی جو 90 منٹ تک چلتی رہی۔ پھر وزیرِ اعظم اور میں گپ شپ کے لیے علیحدہ بیٹھے۔ میں نے پوچھا: بشکیک وِزٹ کیسا رہا؟ پی ایم کا جواب سن کر‘ واجبی سا لفظ ہے، مگر خوشی ہوئی۔ پھر روسی صدر پیوٹن سے ملاقات کی باری آئی۔ وزیر اعظم نے بہت امید افزا تفصیل بتائی۔ اور ایک حیران کُن انکشاف بھی کیا‘ جو کشمیر کے حوالے سے تھا۔ تفصیل میں نہیں جا سکتا‘ لیکن اتنا جان لیں کہ مشرف کے بعد کبھی بھی کسی پاکستانی حکمران نے روسی صدر پیوٹن سے رابطہ کیا‘ نہ ہی کبھی ملاقات۔ اس لیے اعلیٰ ترین سطح پر کشمیر کے حوالے سے پاکستانی مؤقف کی بریفنگ کا فقدان تھا۔ یہ کمی عمران خان کے دورۂ بشکیک نے بروقت پوری کر دی۔
پچھلے چار دن سے بھارت کی سیاست، سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر عمران خان اور نریندرا دیمودر داس مودی کے دورۂ کرغستان کا تقابل جاری ہے۔ بھارتی غصے میں ہیں، شدید غصے میں۔ ویسے تو ہندو مذہبی ریاست کے طور پر دوسرا جنم لینے کے بعد بھارتی بحیثیتِ قوم غصے والی ہو گئی ہے۔ لیکن بشکیِک کا زخم ہے کہ دُکھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ پہلے اس بات پر غم و غصہ ہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کو کرغستان کے وزیرِ اعظم مخمدیکالیائی ابیلگازیو (Mukhammedkalyi Abylgaziev) خود کیوں لینے آ گئے۔ دوسرا غم و غصہ یہ کہ ہندتوا کی مہا بھارت کے یُدھی پُرش پردھان منتری نریندرا دیمودر داس مودی کو زمیربیک ماریپباوچ آسکرو (Zamirbek Maripbaevich Askarov) یعنی ڈپٹی پی ایم کیوں لینے آیا۔ کرغی وزیرِ اعظم سواگت کے لیے خود کیوں نہیں پہنچا۔ غصیلی بھارتی قوم کا یہ غصہ انڈین مین لائن تک محدود نہیں رہا۔ سات سمندر پار مقیم بھارتی بھی اس غصہ مہم کا حصہ بن گئے۔ اس کی وجہ انڈین وزیر اعظم مودی کی تازہ جگ ہنسائی ہے۔ آئیے اشوک سوائین کی ایک ٹویٹ دیکھ لیں جو موصوف نے سویڈن سے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر جاری کی۔ اشوک سوائین عام بھارتی ہندو نہیں ہیں۔ وہ سویڈن کی ایک ممتاز یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں‘ اور رائے عامہ کو متاثر کرتے ہیں۔ ان کی ٹویٹ یہ ہے:
(India's papulation is 1 billion more than Pakistan and india's economy is $ 8 trillion more than Pakistan struggling to find the reasons why india's great leader Narindra Modi was received by the Deputy PM and Pakistan's PM Imran khan was received by the PM of Kyrgyzstan!)
پروفیسر اشوک سوائین کے ٹویٹر پیغام نے غصے والی ریاست کی ذہنیت کھول کر رکھ دی۔ اشوک جی کہتے ہیں: انڈیا کی آبادی پاکستان کے مقابلے میں 100 کروڑ زیادہ ہے۔ انڈیا کی اکانومی پاکستان سے 8 کھرب یعنی 800 ارب بڑی ہے۔ بشکیک میں بھارت کی شکست اور مودی کی بین الاقوامی سفارتی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے پرو فیسر اشوک نے مزید لکھا کہ میں ان وجوہات کو تلاش کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں‘ جن کے باعث مہاآتما رکھنے والے نریندر مودی جیسے لیڈر کو ڈپٹی پی ایم نے ریسیو کیا‘ اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا استقبال پرائم منسٹر آف کرغستان نے خود کیا۔ اسی ٹویٹ کے ساتھ اشوک سوائین نے پرائم منسٹر آف انڈیا کے آفیشل اکائونٹ اور پی ٹی آئی کے آفیشل اکائونٹ پر جاری شدہ دونوں وزرائے اعظم کے استقبال کی تصویریں پوسٹ کر دیں۔
تیسرا غم و غصہ اس بات کا ہوا کہ پیوٹن سمیت عالمی لیڈروں نے ہمارے وزیرِ اعظم کو دل کھول پذیرائی دی۔ اگلا غم و غصہ اس بات پر کہ ایونٹ میموریل فوٹوگراف میں مودی کے مقابلے عمران کے لیے اچھی جگہ کیوں؟
بھارت کا یہ عالمی غم و غصہ سمجھ میں آتا ہے‘ جس کے کئی اسباب ہیں۔ پہلا یہ کہ بھارت نے پاکستان کو ناکام اور بدمعاش ریاست ڈکلیئر کروانے کے لیے ہر طرح کی بدمعاشیاں کیں۔ پھر پاکستان کو عالمی تنہائی میں دھکا مارنا چاہا۔ پہلے پلوامہ ٹیررسٹ اٹیک ڈیزائن کیا۔ پھر انڈین ایئر فورس پاکستان کی مین لینڈ پر حملہ آور ہوئی۔ اس وقت واہگہ بارڈر کے دونوں طرف رائے عامہ کی معقول آوازیں صرف ایک بات پر متفق ہیں‘ اور وہ یہ کہ بھارت کو پاکستان کے خلاف سائبر وار کے عالمی محاذ سے لے کر شاہینوں کے ساتھ ڈاگ فائٹ تک میں خاک چاٹنا پڑی۔ اس حوالے سے غصیلے انڈیا کا بیانیہ پروفیسر اشوک کے دوسرے ٹویٹ سے ملتا ہے:
In Bishkek at #SCO summit 2019, all SCO leaders including Xi, Putin & even Imran khan stayed at the Al Archa presidential palace of the kyrgyz president Sooronbay Jeenbekov. but India's great leader Modi was kept 30 km away at the Orion hotel in central Bishkek .why?
بشکیک سمٹ کا تازہ وار بھارت کو بہت دن تڑپائے گا۔ 19ویں SCO سمٹ کے سارے لیڈرز عمران خان کی طرف متوجہ تھے۔ یہی نہیں بلکہ چین کے صدر شی جِن پِنگ اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن اور اپنے وزیر اعظم عمران خان کو اعلیٰ ترین سرکاری مہمان گاہ میں ٹھہرایا گیا‘ جسے ال آرچہ پریزیڈنشل پیلس آف کرغز پریزیڈنس سورن بکاف کہتے ہے‘ جب کہ بھارتی وزیر اعظم مودی کو عالمی لیڈروں سے 30 کلو میٹر دور اندرونِ شہر بشکیک میں واقع ہوٹل اورین بھیج دیا گیا۔
یہ سُبکی کی حد ہے اور ریاستِ پاکستان پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل۔ اب آلِ شریف کے ترجمانوں کی بھی سُن لیجیے جنہوں نے سال 2019 میں سوشل میڈیا کی عظیم ترین پٹائی کھانے کا اعزاز حاصل کیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے اُن کے حکمرانوں نے متحدہ عرب امارات سے اقامے وصول کیے۔ اقامہ ڈسکوری کے دنوں میں ایک بڑے عرب ڈپلومیٹ نے کسی پاکستانی سے پوچھا: آپ دنیا کا کوئی ایسا وزیرِ اعظم بتائیں جو غیر ملک کی تنخواہ کھاتا ہو۔ پھر سوال کیا: تنخواہ کے بدلے غیر ملک کو وہ کون سی خدمات فراہم کر رہا ہے۔
اگلے روز آلِ شریف کے ترجمانوں نے عمران اور مودی کی بشکیک سمٹ کی تصویریں جوڑ کر مودی کی مدح سرائی میں یوں لکھا: جس کے پاس سب کچھ ہے اس کی متانت دیکھیے۔ پھر اپنے وزیرِ اعظم پر پھبتی کسّی: جس کے پاس کچھ نہیں وہ اکڑ کر کھڑا ہے۔
اس طرح عمران، مودی اور بشکیک سمٹ کا ایک اور نتیجہ نکل آیا۔ آلِ شریف کے ترجمانوں نے تسلیم کر لیا کہ شریف حکومت پاکستانی خزانے کا صفایا کر گئی۔ اس لیے وزیرِ اعظم عمران کے ملک کی معیشت میں کچھ باقی نہیں بچا۔ مودی کو چھوڑیئے کچھ ایسے بھی ہیں جو ڈالر کی غلامی میں ملک کی ناکامی دیکھتے ہیں۔ اور یہ لوگ تھڑے پر نہیں بیٹھتے ہیں۔ وہ تھڑے سے اُٹھ کر ایوان کی کُرسیوں پر جا بیٹھے ہیں۔ جس ملک کا یہ ایوان ہے۔ اس کے حق میں بولتے ہوئے ان کی زُبان کٹتی ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے ڈیفالٹ ٹال دی‘ جس کا اہتمام کرنے والے بہت پریشان ہیں۔ یہ شِکرے جانتے ہیں کہ پاکستان، چین اور روس تینوں ایٹمی ممالک کے اکٹھے کھڑے ہو جانے سے ہمارا استحکام وابستہ ہے۔ عمران، مودی اور بشکیک کی کہانی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved