اپنے بزرگوں کو بچانے کے لیے جمہوریت کی بقا کے نام پر مریم صفدر اور بلاول بھٹو کی ملاقات ہو چکی ہے۔ ایسی ملاقاتیں ہمارے ہاں کوئی نئی بات نہیں۔ ایک دوسرے کو تحفظ دینے کے لیے یہ گٹھ جوڑ ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔ اس سیاسی اور مفاہمتی گٹھ جوڑ کو سمجھنے کے لیے مریم کے والد اور بلاول کی والدہ کے درمیان میثاق ِجمہوریت کے حالات‘ اسباب اور نتائج پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ برادرِ محترم حسن نثار نے 22برس پہلے اپنے کالم میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب بی بی اور بابو ایک ہی ٹرک پر سوار ہو کر جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد کرتے نظر آئیں گے۔ یہ کالم انہوں نے اس وقت لکھا تھا جب نواز شریف اور بے نظیر بھٹو اپنی پارٹیوں سمیت ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار تھے اور ایک دوسرے کو سکیورٹی رِسک سے کم خطرہ قرار دینے کو تیار نہ تھے۔ سیاسی اختلافات اور تعصبات کا عالم یہ تھا کہ دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کو جھوٹے سچے مقدمات کے گڑھے میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب حسن نثار نے اپنے کالم میں دونوں کے گٹھ جوڑ کی پیش گوئی کی تھی تو بڑے بڑے دانشور‘ تجزیہ کار اور سیاسی پنڈتوں نے اسے ناممکن‘ اچنبھا اور انہونی قرار دیا تھا۔ بعض نے تو یہ کہنے سے بھی دریغ نہ کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے سے ہاتھ ملا لیں گے ۔ اُس دور میں دوپارٹی نظام چل رہا تھا‘ایک پارٹی برسرِاقتدار آکر اپوزیشن کو ''کرش‘‘ کرتی تو اپوزیشن کی کوشش ہوتی کہ برسرِاقتدار پارٹی اپنی مدت پوری نہ کر سکے اور موقع ملتے ہی ایک دوسرے پر برتری کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا تھاحتیٰ کہ دونوں پارٹیوں کے قائدین سمیت صف اوّل کے رہنماؤں کو قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔
اُس دور میں یہ بات لکھنا اور کہنا (معذرت کے ساتھ) دیوانگی یا بونگی سے کم نہ تھا۔ پھر چشم فلک نے دس سال بعد یہ بھی دیکھا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف‘ دونوں ہی ''جان بچی سو لاکھوں پائے‘‘ کے مصداق جلا وطنی کے ''دورے‘‘ پر تھے اور اقتدار سے محرومی اور ہجر کے ایام گن گن کر گزار رہے تھے۔ اقتدار کی تڑپ اور طلب نے دونوں کو مجبور اور آمادہ کیا کہ ہماری باہمی لڑائی اور اختلافات تیسری پارٹی کیلئے غنیمت اور باعثِ راحت ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) دونوں ہی پارٹیوں کا ایک ایک دھڑا جنرل پرویز مشرف کے ہاتھ پر بیعت کر کے اقتدار کے مزے لوٹ رہا تھا۔ دونوں سیاسی رہنماؤں کو یہ کیسے گوارا تھا کہ ان کی بی ٹیم پاکستان میں حکمران ہو اور خود وہ جلا وطنی پر مجبور ہوں۔ پھر وطن واپسی کیلئے حیلے بہانے‘ منتیں ترلے اور سمجھوتے شروع ہوئے اور بالآخر میثاقِ جمہوریت کے نام سے ایک سیاسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جمہوریت کی بحالی اور ڈکٹیٹر سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے متحد ہوگئے۔
جنرل پرویز مشرف سے معاملات طے کر کے 2007ء کے عام انتخابات سے قبل بے نظیر بھٹو پاکستان آگئیں اور انتہائی زور و شور سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ قسمت کی ستم ظریفی کہ بے نظیر کی زندگی نے وفا نہ کی اور راولپنڈی میں ایک کامیاب انتخابی جلسہ کے بعد واپسی کے سفر سے ہی سفر آخرت پر روانہ کر دی گئیں۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد وطنِ عزیز میں جو پرتشدد مزاحمت اور احتجاج ہوا اس نے برسرِ اقتدار مسلم لیگ(ق) کو ہلا کر رکھ دیا اور آصف علی زرداری نے مسلم لیگ(ـق) کی قیادت کو بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا اور (ق)لیگ کو قاتل لیگ قرار دیا۔ مؤخر ہونے والے عام انتخابات کا انعقاد 2008ء میں کیا گیا جن میں مسلم لیگ(ق) اور اس کے اتحادی بری طرح مسترد کر دئیے گئے ‘اس طرح وفاق اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی اور پنجاب کی حکمرانی مسلم لیگ(ن) کے حصے میں آئی۔
آصف علی زرداری اور نواز شریف چھوٹے بھائی‘بڑے بھائی بن گئے... ایک دوسرے پر فدا اور واری جاتے رہے... پرتکلف ضیافتوں پر ایک دوسرے کو پکوان پیش کرنے اور پہلے آپ ‘پہلے آپ اور شیروشکر کا منظر دیکھ کر لگتا تھا اب حکمران اپنے باہمی اختلافات ختم کر کے وطن عزیز کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن یہ خوش فہمی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ جوں جوں آصف علی زرداری کی گرفت معاملات اور اقتدار پر بڑھتی گئی توں توں ان کے وعدے اور دعوے کمزور پڑتے گئے۔ بتدریج دونوں قائدین بھائی چارے سے نکل کر ایک بار پھر روایتی سیاسی حریف بن گئے اور پھر وہی ''مشقِ ستم‘‘ دہرائی گئی جس کا نشانہ عوام ہر دور میں بنتے چلے آرہے ہیں۔
بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں ہی اپنے متوقع قتل کے حوالے سے جن شخصیات پر خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا تھا ان میں سے ایک کو آصف علی زرداری نے گارڈ آف آنر دے کر ایوانِ صدر سے رخصت کیا اور خود آگھسے... جبکہ (ق)لیگ کو قاتل لیگ قرار دینے کے بعد چوہدری پرویز الٰہی کو ڈپٹی پرائم منسٹر بناکر نہ صرف مفاہمت کا قلعہ سر کر لیا بلکہ بے نظیر بھٹو کی لازوال قربانی کو بھی گٹھ جوڑ اور ملی بھگت کی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ پانچ سال بلا شرکت غیرے اقتدار کے دوران آصف علی زرداری نے سیاسی رواداری اور مفاہمت کے نام پر ایک نیا کلچر متعارف کروایا۔ ملک و قوم کی دولت کے بٹوارے سے لے کر اقتدار کے بٹوارے تک چوروں نے چوروں کو تحفظ دینے کا ایک نیا فارمولا ایجاد کر ڈالا‘ تاہم نظریۂ ضرورت کے تحت ایک دوسرے کو برا بھلا اور چور کہنے کی ممانعت نہ تھی۔
بلاول بھٹو زرداری کے اکثر بیانات غیر سنجیدہ ہوتے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ اس ملک پر قرضوں کا غیر معمولی اور تشویشناک بوجھ موجودہ حکومت کی پیداوار نہیں ‘یہ کارِبد اس وقت سے جاری ہے جب بلاول کی عمر تقریباً دو ماہ تھی۔ اسی دوران دو مرتبہ ۱ن کی والدہ محترمہ وزیراعظم کے منصب پر فائز رہیں اور اُن کے اقتدار کے دوسرے دور کے خاتمے تک بلاول بھٹو زرداری کمسن ہی تھے۔ گمان غالب ہے کہ بلاول بھٹو کو اس وقت ملنے والا جیب خرچ بھی آج تک قرضے کی صورت میں واجب الادا ہو۔ بعد ازاں طاقت اور اختیار سے بھرپور دور اِن کے والد آصف علی زرداری کی حکمرانی کا دور تھا۔ پیپلز پارٹی کے ان تین ادوار میں جو قرضے اس ملک پر چڑھائے گئے اس کا جواب کون دے گا؟
غضب خدا کا قرضے کی قسط ادا کرنے کیلئے بھی قرضہ ہی لینا پڑا... دورِ حکومت نواز شریف کا ہو یا بے نظیر کا... پرویز مشرف کا ہو یا آصف علی زرداری کا... اس ''بھیانک خیانت‘‘ میں ہاتھ سبھی حکمرانوں کے رنگے ہوئے ہیں اور رہی بات زرداری خاندان کے خلاف احتسابی کارروائی کی تو لانچوں میں بھر کر کرنسی نوٹوں کی نقل و حمل سے لے کر درجن سے زائد شوگر ملز‘ کمپنیاں‘ جائیدادیں اور نجانے کیا کیا... صرف گذشتہ دس سال میں ؟ تعجب ہے...! ڈاکٹر عاصم اور انور مجید سمیت کئی دوسرے کرداروں کے پس پردہ ''بینی فشری‘‘ کون ہے۔ کیا بلاول بھٹو زرداری نہیں جانتے؟
ان کے علم میں مزید اضافے اور یاددہانی کے لیے عرض ہے کہ چارٹرڈ طیاروں پر وزرا اور مشیروں کی سوٹڈ بوٹڈ فوج لے کر بیرونی قرضے حال کرنے کیلئے جانے والے حکمران کون تھے؟ والدہ کے دورِ اقتدار میں تو خیر آپ چھوٹے تھے لیکن والدِ محترم کی طرزِ حکمرانی کے نتیجے میں کھربوں روپے کی ملیں‘ کمپنیوں‘ اکاؤنٹس اور جائیدادوں کا حساب تو دیکھا ہی ہوگا۔ دور نہیں جاتے گزشتہ دس سالوں کو لے لیجئے‘روزانہ کی بنیاد پر کمائی گئی دولت اور وسائل کی بربادی کا حساب مانگنا تماشا نہیںاحتساب کہلاتا ہے اور روزِ حساب تو آنا ہی ہوتا ہے جلد یا بدیر... یہی قانونِ فطرت ہے۔