اپوزیشن کا رویہ غیر پارلیمانی اور کرپشن کا دور گزر گیا: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کا رویہ غیر پارلیمانی جھوٹ اور کرپشن کا دور گزر گیا‘‘ جبکہ یہ نااہلی اور نالائقی کا دور ہے ‘جو گزرنے والا نہیں ‘بلکہ جب تک ہم رہیں گے‘ یہ بھی اپنی موجیں کرتا رہے گا‘ کیونکہ یہ وہ ہنر ہے‘ جو سیکھا نہیں جا سکتا‘ بلکہ آپ یہ تحفہ اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں اور اس کی جلوہ نمائیاں جاری و ساری رہیں گی‘ جبکہ ناتجربہ کاری کی آمیزش سے یہ دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہو گیا ہے اور اس میں روز بروز اضافہ ہو سکتا ہے‘ کمی کا کوئی اندیشہ نہیں ہے اور جو جتنا بڑا عہدیدار ہے‘ اتنا ہی بڑا نالائق بھی ہے‘ جبکہ اس پر حیران ہونے اور حسد کرنے کی ضرورت نہیں ‘بلکہ خود اس جیسا ہونے کی آرزو کرنا چاہیے کہ یہ اللہ کی دین ہے اور وہ اسے اپنے پسندیدہ بندوں ہی کو عطا کرتا ہے۔ آپ اگلے روز والد سے محبت کے دن پر اپنا پیغام جاری کر رہے تھے۔
تحریک انصاف کے 15ارکان اسمبلی
رابطے میں ہیں: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''تحریک انصاف کے 15ارکان اسمبلی رابطے میں ہیں‘‘ جو ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ ڈیل کی کوششیں جاری رکھیں‘ مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کہ آخر دنیا امید پر قائم ہے؛چنانچہ وہ اس کوشش میں ہیں کہ جس وقت بھی عمران خان کو یاد نہ رہے کہ وہ وزیراعظم ہیں ‘چپکے سے ڈیل پر دستخط کروا لیں اور ہمارے ساتھ ہمدردی انہیں اس لیے بھی ہے کہ زیادہ تر معززین ہماری اور پیپلز پارٹی ہی کی طرف سے وہاں گئے ہوئے ہیں‘ جبکہ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ جب بھی وزیراعظم زور دے کر این آر او نہ دینے کا اعلان کرتے ہیں‘ اس وقت اُنہیں شدت سے یاد آیا ہوتا ہے کہ وہ وزیراعظم ہیں‘ بلکہ بعض اوقات تو وہ غیر ملکی دوروں کے درمیان بھی بھول جاتے ہیں اور وہاں بھی اُنہیں یاد دلانا پڑتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
بلاول سے ملاقات نواز شریف اور شہباز شریف
کی اجازت سے ہو رہی ہے: مریم نواز
مستقل نااہل اور سزا یافتہ وزیراعظم نواز شریف کی سزا یافتہ صاحب زادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''بلاول سے ملاقات نواز شریف اور شہباز شریف کی اجازت سے ہو رہی ہے‘‘ کیونکہ اب وہ وقت نہیں ہے‘ جب میں اپنے میڈیا سیل ہی کے ذریعے سارا کچھ اپنے آپ ہی کر لیا کرتی تھی ‘جس کے نتیجے میں والد صاحب کو نااہل ‘بلکہ اندر بھی ہونا پڑا‘ بلکہ ہمیشہ کے لیے اپنا مستقبل بھی تاریک کر لیا‘ جس کے تابناک ہونے کی ساری امیدیں چچا جان کی لندن سے واپسی پر خاک میں مل گئی ہیں ؛حالانکہ میں حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کے لیے بالکل تیار تھی اور یہ اُن کے لیے کافی ہونا چاہیے تھا‘ لیکن لالچ کا کوئی علاج نہیں ہے ؛اگرچہ مستقبل میں ان عہدوں کی بجائے جیل نظر آ رہی ہے۔ آپ اگلے روز حسب ِمعمول سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنا پیغام نشر کر رہی تھیں۔
جو کرنا ہے کر لو‘ مؤقف نہیں بدلیں گے: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''جو کرنا ہے کر لو‘ مؤقف نہیں بدلیں گے‘‘ اور یہ اینٹ سے اینٹ بجانے والا موقف نہیں ہے ‘جو والد صاحب کو فوری طور پر تبدیل کرنا اور دبئی میں جا کر کافی عرصے کے لیے پناہ لینا پڑی تھی؛ چنانچہ ہمارا موقف یہی ہے کہ ہمارے ساتھ لین دین کر لیا جائے اور خواہ مخواہ پریشان نہ کیا جائے اور میں جاتی اُمرا جا کر بھی مریم نواز کو سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ جتنے پیسے بھی دینا پڑتے ہیں‘ دے کر اپنی جان چھڑائیں ‘تاکہ حکومت ہمارے بارے میں بھی مثبت انداز میں سوچے اور آپ کی تویہ سرا سر حق تلفی ہے کہ اتنا عرصہ خاموش رہنے کا بھی حکومت نے کوئی صلہ نہیں دیا اور وہی مرغے کی ایک ٹانگ والا معاملہ ہی چلا آ رہا ہے‘ اس لیے آپ کو بھی چاہیے کہ مرغے کی دوسری ٹانگ بھی حکومت کے ماتھے ماریں اور اپنا مسئلہ حل کروا لیں‘ تاکہ ہمارے مسئلے کے حل کی بھی کوئی صورت نکل سکے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ابرار احمد کی یہ خوبصورت نظم:
یہ شام بکھر جائے گی!
ہمیں معلوم ہے/ یہ شام بکھر جائے گی/ اور یہ رنگ/ کسی گوشۂ بے نام میں کھو جائیں گے/ یہ زمیں دیکھتی رہ جائے گی/ قدموں کے نشاں/ اور یہ قافلہ/ ہستی کی گزرگاہوں سے/ کسی انجان جزیرے کو نکل جائے گا/ جس جگہ آج/ تماشائے طلب سے ہے جواں/ محفلِ رنگ و اُمنگ/ کل یہاں/ ماتم ِ یک شہر نگاراں ہوگا/ آج جن رستوں پہ/ موہوم تمنا کے درختوں کے تلے/ ہم رُکا کرتے ہیں/ ہنستے ہیں/ گزر جاتے ہیں/ ان پہ ٹوٹے ہوئے پتوں میں ہوا ٹھہرے گی/ آج‘ جس موڑ پہ ہم/ تُم سے ملا کرتے تھے/ اس پہ کیا جانیے/ کل کون رُکے گا‘ آ کر/ آج‘ اس شور میں شامل ہے/ جن آوازوں کی دلدوز مہک/ کل یہ مہکار/ اُتر جائے گی‘ خوابوں میں کہیں/ گھومتے گھومتے تھک جائیں گے/ ہم‘ فراموش زمانے کے ستاروں کی طرح/ ارضِ موجود کی سرحد پہ/ بکھر جائیں گے/ اور کچھ دیر ہماری آواز/ تم سُنو گے‘ تو ٹھہر جاؤ گے/ دو گھڑی رک کے/ گزر جاؤ گے‘ چلتے چلتے/ اور سہمے ہوئے چوباروں میں/ انہی رستوں/ انہی بازاروں میں/ ہنسنے والوں کے/ نئے قافلے آ جائیں گے...!
آج کا مطلع
سوچا ہی نہ ہر کام سے رخصت کے علاوہ
کچھ اور بھی کرنا تھا محبت کے علاوہ