حضرت ابراہیم علیہ السلام کوقرآنِ مجید میں ''دینِ حنیف‘‘اور ''مِلَّتِ حنیف‘‘کا حامل اور داعی قرار دیا گیا ہے ۔حنیف کے معنی ہیں: ''باطل کی طرف کسی میلان یا جھکائو سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے پوری عزیمت کے ساتھ حق پر قائم رہنا ‘‘۔حق کو صراطِ مستقیم سے بھی تعبیر کیا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اہلِ کتاب نے کہا:یہودی یا نصرانی ہوجائوتو ہدایت یافتہ ہوجائو گے ‘آپ کہیے:بلکہ ہم ملتِ ابراہیمی پر ہیں ‘جو ہر باطل سے اجتناب کرنے والے تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے ‘‘(البقرہ:135)۔آیت کا مطلب یہ ہے کہ اُس دور میں یہود صرف یہودیت کواور نصرانی صرف مسیحیت کو ہدایت ونجات کا مَدار سمجھتے تھے اور اُن میں سے ہر گروہ اپنے دین کی طرف دعوت دیتا تھا۔
یہود ‘نصاریٰ اورمشرکینِ مکہ میں سے ہر ایک کادعویٰ یہ تھا کہ صرف وہی ملتِ ابراہیمی کے پیروکار ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اُن کے باطل دعووں کا رد کرتے ہوئے فرمایا: ''ابراہیم نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی ‘بلکہ وہ ہر باطل سے اعراض کرنے والے مُسلِم تھے اور وہ مشرکوں میں سے بھی نہ تھے‘‘(آل عمران67)الغرض حضرت ابراہیم علیہ السلام شرک کی تمام صورتوں کو مٹانے کیلئے آئے تھے ‘مُجَدِّدِ انبیاء تھے ‘اُولوالعزم رسول تھے اور تنہا باطل کے مقابل میدان میں استقامت کے ساتھ کھڑے ہوگئے‘جبکہ اُن کا اپنا خاندان بھی اُن کے مخالف تھا۔ حق کی راہ میں انہیں طرح طرح کی آزمائشوں ‘مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''اور(یاد کیجیے!)جب ابراہیم کے رب نے کئی باتوں میںاُن کی آزمائش کی‘ تو انہوں نے اُن کو پورا کردیا ‘(اللہ نے) فرمایا:بے شک میں تمہیں تمام لوگوں کا امام بنانے والا ہوں ‘ (ابراہیم علیہ السلام نے )کہا:اور میری اولاد سے بھی ‘(اللہ نے) فرمایا:میرا عہد (منصبِ امامت)ظالموں کو نہیں پہنچتا‘‘ (البقرہ: 124)۔
ابراہیم علیہ السلام غیر اللہ کی خدائی کی نفی فرماتے اور اللہ وحدہٗ لا شریک پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''کیا آپ نے اُس شخص کو نہیں دیکھا ‘جس نے ابراہیم سے اُن کے رب کے بارے میں اس پر جھگڑا کیا کہ اُسے (یعنی نمرودکو) بادشاہت اللہ نے عطا فرمائی ہے ‘ جب ابراہیم نے کہا:میرا رب وہ ہے جو جِلاتا اور مارتاہے ‘ (نمرود نے)کہا :میں جِلاتا اور مارتاہوں ‘(ابراہیم نے ) کہا: بے شک اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ‘سو (اگر تجھے خدائی کا دعویٰ ہے)تواُسے مغرب سے نکال لا‘تو کافرحیرت زدہ ہو گیااور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘(البقرہ:258)۔اس سے معلوم ہوا کہ باطل خدائی کا دعویٰ کرنے والے خدائی اختیارات کے بھی دعوے دار ہوتے ہیں اور اسی بنا پر نمرود لاجواب ہوا۔اللہ کے رسولوں کا مشن محض مناظرے میں غلبہ پانا اور اپنی برتری جِتانا نہیں ہوتا ‘بلکہ خالی الذہن اور عقلِ سلیم والے لوگوں کے ذہنوں میں حق کو جاگزیں کرنا ہوتا ہے ‘اِس لیے ایسی لفظی بحثوں اور منطقی دلائل میں الجھتے نہیں ہیں ‘جو عام لوگوں کی ذہنی سطح سے بالا تر ہوں۔ورنہ وہ یہ بحث کرسکتے تھے کہ اِحیاء ‘یعنی زندگی عطا کرنااوراِماتَت ‘یعنی زندگی سلب کرنے کے معنی یہ نہیں ‘ جو تم سمجھے ہو۔ قتل ہو جانایا سمندرمیں ڈوب جانایاسیلاب میں بہہ جانا یا ملبے تلے دَب جانا یابلندی سے گر جانا یا درندے کا چیرپھاڑ لینا یا کسی بم بلاسٹ یا آگ میں جل جانا وغیرہ یہ سب اسبابِ موت ہیں ‘اِن تمام صورتوں میں موت دینے والا ‘یعنی مُمِیْت صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔
یہی صورتِ حال اُس وقت پیش آئی جب قومِ نمرود اپنے میلے پر گئی ہوئی تھی ‘توابراہیم علیہ السلام نے بڑے بُت کو چھوڑ کر باقی سب بتوں کو پاش پاش کردیا ۔جب وہ میلے سے واپس آئے تو آپس میں ایک دوسرے سے سوال کرنے لگے کہ ہمارے تراشے ہوئے ان خدائوں کا یہ حشر کس نے کیا؟اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''انہوں نے کہا:ہم نے ابراہیم نامی ایک جوان کو سنا ہے کہ وہ اِن بتوںکا برا ذکر کررہے تھے ‘‘(الانبیائ:60)‘پھر ابراہیم علیہ السلام کو برسرِعام طلب کیا گیا اور آپ سے اس بارے میں باز پُرس ہوئی ۔ انہوں نے فرمایا: ''(مجھ سے سوال کرنا عبث ہے )یہ بڑا بُت (موجود)ہے ‘اگر یہ بُت بات کرتے ہیں ‘ تو انہی سے پوچھ لو‘پس انہوں نے اپنے دلوں میں جھانکا اور(اپنے آپ سے )کہا:بے شک تم ظالم ہو‘پھر (شرم کے مارے ) انہوں نے سر جھکا لیے (اور کہا:)آپ کوتو معلوم ہے کہ یہ بت بول نہیں سکتے ‘(ابراہیم نے )کہا:کیا تم اللہ کے مقابل اِن (بتوں) کی پوجا کرتے ہو ‘جونہ تمہیں نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں‘‘ (الانبیائ:64-66)۔ابراہیم علیہ السلام قوم کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ اللہ وحدہٗ لا شریک کی ذات ہی وہ ہے‘ جس کی قدرت ‘ علم اور ارادہ ہرچیز پر محیط ہے اور اُس کی مَشِیْئَت ہر چیزپرنافذ ہے ۔انسان کے اپنے تراشے ہوئے بُت ہوں یامَظاہرِ کائنات یا جنّات وغیرہ کی قسم سے کوئی غیبی طاقتیں یا انسان خودخدا بن بیٹھا ہو ‘یہ سب قادرِ مطلق کے سامنے بے بس ہیں ‘اِن کی طاقت اور عروج وکمال عارضی اور فانی ہے ‘اللہ چاہے توایک لمحے میں انہیں نیست ونابود فرمادے ‘ابدی اور لازوال ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے‘الغرض شرک توحید کی ضِد ہے ۔
شرک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں کوئی کسی کو شریک ٹھہرائے ‘خواہ کسی کو اللہ کے سوا واجب الوجود مانے جیساکہ مجوسیوں کا عقیدہ ہے یا کسی کو عبادت کا حق دار مانے جیساکہ بت پرست مانتے ہیں ‘‘(شرح العقائد ‘ ص:56)۔اس تعریف کی رُو سے اُلُوہیتِ حقیقی کو ہم دو چیزوں سے تعبیر کرسکتے ہیں : (1)واجب الوجودہونا‘(2)عبادت کا حق دار ہونا۔پس‘ اگر کوئی شخص کسی کو اللہ تعالیٰ کے سوا واجب الوجود یا مستحقِ عبادت مانے ‘تو یہ شرک ہے ۔واجب الوجود کے معنی ہیں:ایسی ہستی جس کی کوئی ابتدا وانتہا نہیں ہے‘وہ ایسا اَوّل ہے ‘جس سے پہلے کوئی اور نہیں اور وہ ایسا آخِر ہے ‘جس کے بعد کوئی اور نہیں ۔اسی کو فلسفے کی اصطلاح میں ازلی اور ابدی کہا جاتا ہے ۔ الغرض واجب الوجود وہ ہے ‘جو مسبوق با العدم نہیں ہے ‘یعنی اُس پر عدم و فنا کبھی طاری نہیں ہوا ‘وہ عدم سے وجود میں نہیں آیا ۔ آسان لفظوں میں واجب الوجود وہ ذات ہے ‘جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ‘ وہ کسی کے خَلق سے وجود میں نہیں آیا ‘ بلکہ اُس کا وجود اپنی ذات سے ہے ۔ اسی حقیقت کو ہم دوسرے لفظوں میں ''لا متناہی ‘‘سے تعبیر کرتے ہیں ‘یعنی جس کی کوئی حد وانتہا نہیں ہے ۔ ملحدین ‘عقل کو حتمی اور قطعی معیار ماننے والوں اور مادّہ پرستوں کے لیے اِس حقیقت کوسمجھنا دشوار ہے ‘ کیونکہ لا محدود حقیقت کا احاطہ محدود عقل نہیں کرسکتی ‘اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(1)''آنکھیںاُس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور سب آنکھیں اُس کے احاطے میں ہیں اوروہ نہایت لطیف ‘نہایت باخبرہے ‘‘ (الانعام:103)۔ (2)''اور انہوں نے جنّات کواللہ کا شریک ٹھہرایا؛ حالانکہ اُسی نے اُن کو پیدا کیا ہے اور اُنہوں نے جہالت سے اللہ کیلئے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لیں ‘ وہ (ان باتوںسے)پاک اوربالا تر ہے ‘ جو وہ بیان کرتے ہیں‘وہ (کسی مثالِ سابق کے بغیر ) آسمانوں اور زمینوں کاپیدا کرنے والا ہے ‘اُس کی اولاد کیوں کر ہوگی؟ حالانکہ اُس کی بیوی ہی نہیں ہے اور اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہرچیز کو خوب جاننے والا ہے ‘یہی ہے اللہ جو تمہارا رب ہے ‘اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے ‘وہ ہرچیز کا پیدا کرنے والا ہے ‘سو تم اس کی عبادت کرواور وہ ہرچیز پر نگہبان ہے‘‘ (الانعام:100-102)۔
صریح شرک تو یہ ہے کہ اللہ کے مقابل غیر اللہ کی عبادت کی جائے ‘ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''کہہ دیجیے!مجھے تویہی حکم دیا گیا ہے کہ (صرف) اللہ کی عبادت کروں اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائوں ‘میںاُسی کی جانب بلاتا ہوں اور اُسی کی جانب لوٹ جانا ہے‘‘ (الرعد:36)۔مسلمانوں کے اندر صریح شرک تونہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقابل کسی اور کی عبادت کریں ‘لیکن کئی ایسی باتیں در آئی ہیں ‘جو توحید ِ خالص کے منافی ہیں اور کچھ کو رسول اللہ ﷺ نے شرکِ اصغر سے تعبیر فرمایا ہے :محمود بن لَبِید بیان کرتے ہیں:رسول کریمﷺ نے فرمایا: ''سب سے زیادہ مجھے تمہارے بارے میں‘ جس چیز کا خوف ہے ‘ وہ شرکِ اصغر ہے ‘صحابہ نے عرض کی:یارسول اللہ!شرکِ اصغر کیا ہے؟‘آپﷺ نے فرمایا: ریاکاری‘ (مزیدفرمایا:) قیامت کے دن جب بندوں کو اُن کے نیک اعمال کی جزا دی جائے گی ‘تواللہ تعالیٰ ریاکاروں سے فرمائے گا:دنیا میں جن کو دکھانے کیلئے تم (بظاہر)نیک کام کرتے تھے ‘ اُن کے پاس جائو ‘کیا اُن کے پاس تمہارے لیے کوئی جزا ہے‘‘(مسند احمد:23630)۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو حکم ہوا کہ نصاریٰ کو اُن مشتَرکات(Comonalities) کی طرف آنے کی دعوت دیں‘ جواُن کے اور مسلمانوں کے درمیان مُسَلَّم ہیں ‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''کہہ دیجیے :اے اہلِ کتاب!آئو ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں طور پرتسلیم شدہ ہے ‘یہ کہ نہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت کریں اورنہ اُس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اورنہ ہم میں سے کوئی اللہ کے مقابل کسی دوسرے کو رب بنائے۔سو‘ اگر وہ اس میثاق سے پھر جائیں ‘تو کہہ دیجیے:(لوگو!) تم گواہ رہو ‘ بے شک ہم مسلمان ہیں‘‘ (آل عمران:65)۔عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں : میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میری گردن میں سونے کی صلیب تھی ‘آپ ﷺ نے فرمایا:عدی!''اِس بت کو اتارپھینکو ‘‘‘میں نے سنا : آپ ﷺ سورۂ برأ ت کی یہ آیت تلاوت کر رہے تھے: (ترجمہ): ''انہوں نے اپنے علماء اور راہبوں کو اللہ کے مقابل رب بنا لیا ہے‘‘آپ ﷺ نے فرمایا: ''بے شک وہ اپنے علماء اور راہبوںکی عبادت نہیں کرتے تھے ‘لیکن جب وہ ان کے لیے کسی (حرام )چیز کو حلال قرار دیتے ‘تو یہ اُسے حلال مان لیتے اور کسی (حلال )چیز کوحرام قرار دیتے ‘تو یہ اُسے حرام تسلیم کرلیتے ‘‘(سنن ترمذی: 3095)۔
اس سے معلوم ہوا کہ چیزوں کوحلال یا حرام قرار دینا اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے ‘غیر اللہ کو ‘ خواہ وہ کوئی بھی ہو ‘یہ اختیار دینا عملاً اُسے رب ماننا ہے۔ قرآنِ کریم فرقان ِ حمید نے اِسی حقیقت کو بیان کیا ہے ‘جبکہ رسول اللہ ﷺ کو یہ اختیار خود اللہ نے عطافرمایا ہے : ''(اس نبی کی شان یہ ہے کہ)وہ اُن کے لیے پاک چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو حرام‘ ‘(الاعراف:157)۔
نوٹ: '' توحید وشرک‘‘ کے عنوان سے تین حصوں پر مشتمل ویڈیوز ہمارے فیس بک پیج پر موجود ہیں‘ قارئین کرام تفصیل کیلئے ان کو سماعت فرماسکتے ہیں۔