نواز لیگ کے قائد میاں نوازشریف اور دیگر رہنماوں کی سزاؤں اور گرفتاریوں کے بعد پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کی گرفتاری سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے بعد اب پی پی پی بھی مفاہمتی سیاست کے حصار سے نکل کے مزاحمت کی راہ اختیار کرنے میں عزت تلاش کرنا چاہتی ہے؛اگر یہ بات درست ہے تو پیپلزپارٹی نے سہی وقت پہ درست فیصلہ کیا ہے۔بلاشبہ زمانہ اپنے انداز بدل رہا ہے۔سماجی اقدار کے ساتھ سیاسی تمدن بھی ایسی غیر معمولی تبدیلیوں کی زد میں ہے‘ جن کی راہ روکنا ممکن نہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں تیزی سے سمٹتی ہوئی دنیا قدرتی طور پہ ایک نئے سیاسی کلچرکی متقاضی ہے ‘کیونکہ سوشل میڈیا کی بساط تک آسان رسائی کی بدولت ذہن ِ انسانی کے اندر دفن احساسات کے سارے لاوے بہہ نکلے ہیں ‘جو لامحالہ ایک نئے عہد کی تعمیر کا سامان بنیں گے‘لیکن خدشہ ہے کہ اظہارِ رائے کی یہی غیر محدود آزادیاں ہمارے ڈھیلے ڈھالے سیاسی بندوبست کو پھر کسی حادثہ سے دوچار نہ کردیں۔
قرائن سے واضح ہے کہ مفاہمت کے خوگر آصف زرداری کو مزاحمت کی وادیِ پُرخار تک لانے کا کارنامہ بلاول بھٹو زرداری نے ہی سرانجام دیا ہو گا‘ جو مریم نواز کی مزاحمتی روش اور پشتون نوجوانوں کی تیزی سے مقبول ہوتی سیاسی جدوجہد سے متاثر نظر آتے ہیں۔یہ فطری امر ہے کہ پُرشکوہ سیاسی پس منظر رکھنے والے نوجوان بلاول بھٹو زرداری میدانِ سیاست میںکوئی ایسا رومانوی کردارچاہتے ہیں‘جو ان کی مرحومہ ماں بے نظیر بھٹو اور والد آصف علی زرداری کے دامن پہ لگے سیاسی سمجھوتوں کے وہ داغ دھو ڈالے‘ جو بعدازمرگ بھی ان کا تعاقب کرتے رہیں گے۔آج صورتِ واقعہ یہ ہے کہ قومی سیاست میں ملک گیر سیاسی جماعتوں کے کردار کو محدود کرنے کی حکمت ِعملی کے نتیجہ میں سیاسی مزاحمت صوبہ جاتی دائرہ میںمنظم ہوتی نظر آتی ہے۔بلوچستان سے قومی سطح کے لیڈر اکبر بگٹی کی موت کے بعد بلوچ سماج میں ابھرنے والی مزاحمت کی جڑیںگہری ہو رہی ہیں۔اگست 2016ء میں بلوچستان بارایسویسی ایشن کے صدر انورکانسی کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے مہیب خود کش دھماکہ میں 54 سینئر وکلاء کی شہادت نے بلوچستان کی دونوں نسلی اکائیوں کے سیاسی تصورات کو متاثر کیا۔اس سانحہ پہ قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ میں اٹھائے گئے سوالات بلوچستان کے سیاسی گروہوں کے سیاسی شعور کے کبھی نہ مندمل ہونے والے زخموں کی عکاسی کرتے ہیں۔جواں سال نقیب اللہ محسود کی کراچی پولیس کے ہاتھوں مبینہ ہلاکت کے نتیجہ میں اٹھنے والی احتجاج کی لہردیکھتے ہی دیکھتے ایک بھرپور سیاسی تحریک میں ڈھل گئی‘ جسے ریگولیٹ کرنے کی بجائے کنٹرول کرنے کی حکمت عملی خیبرپختونخوا میں ایک نئے سیاسی کلچر کو پروان چڑھانے کا زینہ بن گئی ۔
نوازشریف کی ہٹ دھرمی نے پہلی بار تابع ِفرمان پنجاب کو مزاحمتی سیاست کی راہ دکھائی اور اب مریم نواز کا سوشل میڈیا‘ پی ٹی ایم سے دوقدم آگے بڑھ کے مقتدرہ کے خلاف مخاصمت کی آبیاری میں مصروف ہے۔ملک بھر کی مذہبی قوتوںکی توانا آواز مولانا فضل الرحمن کے لب و لہجہ کی تلخی بتا رہی ہے کہ قومی سیاست ایسے نئے مرحلہ میں داخل ہونے والی ہے‘ جس میں ہمارے روایتی سیاسی تصورات اور فتح و شکست کے سیاسی پیمانے بدل جائیں گے۔مولانا فضل الرحمن نے اپنی جنم بھومی میں ضلعی جماعت کی طرف سے شہریوں کے اعزاز میں دی گئی‘ عیدملین پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی مبارزت اور جنگ ِ دہشت گردی کے خلاف نیا بیانیہ پیش کرنے کی ضرورت پہ زوردیا۔ان کے مربوط خیالات امید کی قوت سے سرشار نظر آتے تھے۔اب صرف سندھ ہی ایسا صوبہ باقی بچا تھا ‘جہاں پیپلزپارٹی کی مفاہمتی سیاست نے سندھی قوم پرستوںکی طویل مزاحمتی جدوجہد کو کُند کرکے سودے بازی پہ مشتمل پاور پالیٹکس کو مقبولیت عطا کی ‘جس سے مسحور ہو کے جی ایم سید کے پوتے اور رسول بخش پلیجو کے بیٹے باغیانہ روش کو چھوڑ کے اقتدار کی وادیِ گلنار میں رخش ِخرام نظر آتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا‘اب سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد سندھ بھی پنجاب‘خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی طرح مزاحمتی سیاست کی راہ اختیار کرلے گا؟
بظاہر یہی لگتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے دِل میں باقی تینوں صوبوں میں ابھرنے والی مزاحمتی تحریکوں کی قیادت کرنے کی آرزوئیں پال رہے ہیں۔ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے بعد ملک میں جدوجہد کا وہ سیاسی کلچر ختم ہو گیا تھا‘ جو انگریز سے آزادی کی تحریکوں کے دوران پروان چڑھا اور افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے باعث سیاست کا وہ نظریاتی رنگ بھی اتر گیا ‘جس نے رائٹ اور لفٹ کی رومانوی کشمکش کو زندہ رکھا ہوا تھا‘ اسی تغیر کے نتیجہ میں دائیں بازو کی مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی سے لیکر بائیں بازو کی نمائندگی کرنے والی پیپلزپارٹی سمیت تمام مذہبی وعلاقائی جماعتیں اپنے روایتی نظریات کو پس پشت ڈال کے موقعہ شناسی کی حامل پاور پالیٹکس کے محور میں گھومنے لگیں‘تاہم ایک مدت بعد پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج کر کے پاور پالیٹکس کے حصار میں حتمی دراڑ نواز شریف نے ڈالی‘ جس نے مفاہمت کی بیساکھی پہ کھڑے اُس سیاسی بندوبست کی چولیں ہلا ڈالیں‘جس کے تحت پہلے ایم ایم اے ‘پھر پیپلزپارٹی اوربعد میں مسلم لیگ ن نے محدود اختیارات کی حامل حکومتیں حاصل کر کے اپنے سیاسی نصب العین سے دستبرداری قبول کی۔
امرواقعہ یہ ہے کہ1990ء میں پہلی بار اقتدار حاصل کرنے کے بعد نوازشریف اس نتیجہ پہ پہنچ چکے تھے کہ بغیر اختیار کی حکمرانی ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں؛ چنانچہ 1993ء میں انہوں نے ایک کمزور سی مزاحمت کے ذریعے اپنے احساسات کا اظہار کرنے کا رسک لیا‘اس پیشقدمی میں؛ اگرچہ وہ مقاصد کے حصول میں ناکام رہے‘ لیکن یہی کشمکش انہیں عوامی مقبولیت کے سرور سے ہمکنار کر گئی۔1996ء میں پھر وہ ڈیل کر کے دوتہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئے تو دوسری بار بھی انہوں نے اُس بندوبست کی حدودسے باہر نکلنے کی جسارت کی‘ جسے وہ اپنی حاکمیت کی زنجیریں تصور کرتے تھے‘ تاہم اس بار ان کی مزاحمت پھر ناکام ہوئی‘طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں پہلے نوازشریف کوعمر قید کی سزا سنائی گئی‘ بعد میں خفیہ ڈیل کے ذریعے شریف فیملی دس سال کی جلاوطنی قبول کر کے سعودی عرب منتقل ہو گئی‘تیسری بار نوازشریف نے پھر ایک ڈیل کے ذریعے خود کو اقتدارکی منزل تک پہنچانے کا موقعہ پایا تو انہوں نے پرویزمشرف پہ سنگین غداری کا مقدمہ درج کرانے کے بعد ایک بار پھر خود کو ساورن وزیراعظم ثابت کرنے کی کوشش کر ڈالی اور انہوں نے مفاہمت کی ہر پیشکش کو نظرانداز کرتے ہوئے سویلین بالادستی کی خاطر ہرقربانی دینے کی ٹھان لی۔لاریب‘اپنے سیاسی نصب العین کی خاطر ‘ان کی ثابت قدمی ہی جے یو آئی اور پیپلزپارٹی سمیت چھوٹے گروپوں کو طاقت کے مراکز کے خلاف کھڑا ہونے کاحوصلہ دے رہی ہے۔
حالات کے تیور بتا رہے ہیں کہ چالیس سال بعد ایک بار پھر اقتدار کی سیاست کا سحر ٹوٹ رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ خود اختیاری کے شعلوں میں جلتے کمزورسیاستدان ‘اب زیادہ دیر تک اپنی حقیر حیثیت پہ قناعت نہیں رہ پائیں گے۔