کرکٹ ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں پاک‘ بھارت مقابلے کے باوجود یہ ملاقات میڈیا کے لیے کم اہم نہ تھی۔ سیاسی حلقوں کی نظر یں بھی اس پر لگی ہوئی تھیں۔ دوبڑی جماعتوں کی نوجوان قیادت میں ‘ یہ ایک ماہ میں دوسری ملاقات تھی۔ پہلی ملاقات ‘ بلاول بھٹو کی دعوتِ افطار پر 19مئی کو اسلام آباد میں ہوئی تھی۔ اس اتوارکو جاتی امرا میں یہ دوسری ملاقات مریم نواز کی دعوت پر ہوئی ‘ جسے مریم کی طرف سے جوابی اظہارِ خیر سگالی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مریم کا کہناتھا کہ اس دعوت کے لیے انہیں اپنے والد (میاں نواز شریف) اور چچا (میاں شہباز شریف) کی تائید حاصل ہے۔ رانا ثنا اللہ کے بقول:اس سے ایک روز قبل بلاول اور شہباز شریف کی ملاقات بھی ہو چکی تھی۔
بلاول کی دعوتِ افطار کے موقع پر شہباز شریف لندن میں تھے۔ تب حمزہ ضمانت پر تھے اور مریم کے ساتھ وہ بھی اس دعوتِ افطار میں موجود تھے۔ظاہر ہے‘ دعوتِ افطار میں مریم کی شرکت‘ میاں نواز شریف کی آشیر باد کے ساتھ تھی۔ تب میڈیا سے گفتگو میں مریم کا کہنا تھا کہ بلاول کی دعوت قبول کرنے کا ایک سبب کوٹ لکھپت جیل میں میاں صاحب سے بلاول کی ملاقات بھی تھی‘ جب میاں صاحب کی علالت کی خبروں پر وہ ان کی مزاج پرسی کے لئے آئے تھے۔گیارہ مارچ کو اس ملاقات کے بعد بلاول کا کہنا تھا:دونوں جماعتوں میں سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن ہمیں اپنی مذہبی اور معاشرتی اقدار کی ضرور پیروی کرنی چاہیے جس میں کسی بیمار کی عیادت بھی شامل ہے۔ میاں صاحب اور بے نظیر بھٹو کے مابین میثاق جمہوریت کی یادد ہانی کراتے ہوئے بلاول نے کہا تھا کہ موجودہ حالات کے سنگین چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے میثاق جمہوریت کے بنیادی اصولوں پر مبنی نئی دستاویز بھی تیار کی جاسکتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے زیرِ حراست قائد کے ساتھ پیپلز پارٹی کے نوجوان لیڈر کی اس ملاقات کو سیاسی حلقے دونوں جماعت کی اعلیٰ قیادت کے درمیان کافی عرصے موجود کشیدگی اور تلخی کی برف پگھلنے کا آغاز قرار دے رہے تھے۔
16جون کو جاتی امرا میں وفود کی سطح پر مذاکرات کے علاوہ نوجوان قیادت میں ون ٹو ون ملاقات بھی ہوئی۔ میڈیا پرسنز کی بڑی تعداد جاتی امرا کے باہر موجود تھی‘ خیال تھا کہ اس (ایک اور )تاریخی ملاقات کے بعددونوں لیڈر میڈیا کو بریف کریں گے لیکن مریم اندر ہی رہیں اور بلاول بھی میڈیا سے کوئی لفظ کہے بغیر بیدیاں روڈ پر بیرسٹر اعتزاز احسن کے فارم ہاؤس تشریف لے گئے ۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ اعتزاز احسن کا معاملہ ایک بار پھر دلچسپ مرحلے میں ہے۔ 1977ء میں بھٹو صاحب کے اقتدارکے دو اڑھائی سال باقی تھے جب وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پرپنجاب اسمبلی کے بلا مقابلہ رکن منتخب ہوگئے(اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا تھا)۔ پھرنوجوان بیرسٹر نے پنجاب کی وزارتِ اطلاعات و نشریات کا حلف بھی اٹھا لیا۔ مارچ1977ء کے (دھاندلیوں کے الزامات والے) انتخابات میں وہ ایک بار پھر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔پی این اے کی تحریک کے دوران نو اپریل کو لاہور میں گولی چلی تو اعتزاز احسن نے احتجاجاًپارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا (پارٹی میں ان کے مخالفوں کا کہنا تھا‘ پارٹی مشکل میں آئی تو بھاگ گیا)۔ ایئر مارشل اصغر خاں کی تحریک استقلال ان کا نیا ٹھکانہ تھا۔ 1988ء کے عام انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو صاحبہ کی پہلی کابینہ میں اعتزاز احسن وزیرِ داخلہ تھے۔اس دوران سیاسی مخالفین کی طرف سے ان پر خالصتانی سکھوں کی فہرستیں‘وزیر اعظم اندرا گاندھی کو پہنچانے کا الزام بھی عائدہوا(یہ سوال اپنی جگہ کہ کیا بے نظیر حکومت کی وزارتِ داخلہ کو ان حساس الماریوں تک رسائی حاصل تھی جن میں یہ فہرستیں موجود تھیں۔بے نظیر صاحبہ کو تو اول روز سے ہی سکیو رٹی رسک قرار دیا جا رہا تھااور سو ‘سو طرح کی یقین دہانیوں اور حفاظتی اقدامات کے بعد وہ پرائم منسٹر ہاؤس میں داخل ہوئی تھیں)۔ چیف جسٹس افتخار چودھری والی عدلیہ بحالی مہم کے دوران صدر زرداری اعتزاز احسن کے فعال کردار سے ناراض تھے۔ تب میاں نواز شریف کے ساتھ اعتزاز احسن کی گاڑھی چھنتی تھی لیکن نواز شریف سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے 2013ء کے الیکشن میں لاہور کے ایک حلقے میں بیگم بشریٰ اعتزاز احسن کے حق میں مسلم لیگ ن کے شیخ روحیل اصغر کو بیٹھنے کے لیے نہیں کہا اور بیگم صاحبہ اپنی ضمانت بھی نہ بچا سکیں۔ یہاں پی ٹی آئی کے ولید اقبال دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ تب سے جاٹ کا انتقام جاری ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے خلاف وکلا تحریک میں پی ٹی آئی کے حامدخاں بھی اپنے وکلا گروپ کے ساتھ شامل ہیں‘ پیپلز پارٹی بھی اس کی بھر پور حمایت کر رہی ہے‘ اعتزاز احسن سے کسی نے پوچھا : کیا آپ بھی اس تحریک میں شامل ہوں گے؟ ان کا جواب تھا: میں کسی ایسے کام کا سوچ بھی نہیں سکتا جس سے جاتی امرا والوںکو فائدہ ہو۔
مریم ‘ بلاول ملاقات کے حوالے سے جو پریس ریلیز جار ی ہوا (اور خود بلاول نے بھی اعتزاز احسن کے فارم ہاؤس پر میڈیا سے جو گفتگو کی)‘ اس کے مطابق دونوں لیڈروں میں نئے وفاقی بجٹ کی منظوری کی راہ روکنے کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ‘ کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔ ادھر پی ٹی آئی کی حکمت عملی یہ لگتی ہے کہ اپوزیشن کو پارلیمنٹ میں بجٹ پر بولنے نہ دیا جائے لیکن اس سے کیا فرق پڑ ے گا؟ بجٹ میں عام آدمی سے لے کر متوسط اور نچلے طبقے تک اور تنخواہ داروں سے لے کر کاروباری لوگوں تک جو قیامتیں موجود ہیں‘ وہ ان سب نے خود جھیلنی ہیں۔ آپ اپوزیشن کے منہ پر ٹیپ لگا دیں ‘ ان کی لیڈر شپ کو جیلوں میں ڈال دیں اور اظہار کے تمام دروازے بند کر دیں‘ لیکن بجٹ کی تپش نے اپنا احساس خود دلانا ہے اوربجٹ کی منظوری سے پہلے ہی یہ تپش سر سے پاؤں تک محسوس ہونے لگی ہے۔ ڈاکٹر اشفاق حسن کے بقول: وزیر اعظم صاحب ( اور ان کی حکومت ) پر اس بجٹ کے حوالے سے الزام یا تنقید اس لیے روا نہیں کہ اس کی تیاری میں ان کا عمل دخل ہی کتنا تھا؟ یہ وزیر اعظم عمران خاں یا ان کی وزارتِ خزانہ کا نہیںآئی ایم ایف کا بجٹ ہے۔ ان کے بقول:وزیر اعظم کی زیر صدارت نیشنل اکنامک کونسل میں جن بجٹ تجاویز کی منظوری دی گئی ان میں 2019-20ء کے لیے جی ڈی پی کی شرح 4فیصد رکھی گئی تھی جسے آئی ایم ایف نے کاٹ کر 2.4فیصد کردیا۔ ان کا کہنا تھا : جس ملک میں سالانہ 15لاکھ نوجوان روزگار کی تلاش میں مارکیٹ میں آجائیں‘ وہاں کم از کم سات ‘ آٹھ فیصد جی ڈی پی درکار ہوتا ہے۔ 2.4فیصد گروتھ ریٹ کے ساتھ آپ بے روز گار ی کے سونامی کا سد باب کیسے کریں گے؟ان کے بقول : ہمارے ہاں جس مصری (Egyptian)ماڈل کو فالو کیا جا رہا ہے‘ اس کی برکات سے مصر میں غربت کی لکیر سے نیچے والوں کی تعداد دوگنا ہو گئی‘ آئی ایم ایف کے اس ماڈل سے پہلے وہاں یہ تعداد کل آبادی کا تیس فیصد تھی جو تین سال بعد ساٹھ فیصد ہو گئی۔
سوموار کی شام جس وقت یہ سطور قلم بند کی جار ہی تھیں‘ سپیکر جناب اسد قیصر نے ہنگامہ آرائی کے باعث قومی اسمبلی کا اجلاس کل تک ملتوی کردیاتھا ۔ پارلیمنٹ سے باہر بھی سیاسی ماحول گرماگرم ہوتا جا رہا ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے لیے مولانا فضل الرحمن کے رابطے آخری مراحل میں ہیں‘ سوموار کی شام قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے ان کی ملاقات بھی ہو چکی تھی۔جے یو آئی کے سینیٹر مولانا عطاالرحمن کے بقول‘ اے پی سی کے حوالے سے تمام اہم نکات پر اتفاق رائے ہو چکا ۔ اب صرف تاریخ کا اعلان باقی ہے۔