تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     01-05-2013

سپریم کورٹ کے کٹہرے میں!

ہفتے میں دوسری بار میں سپریم کورٹ کے کٹہرے میں موجود تھا۔ گزشتہ ہفتے اپنے وکیل سلمان اکرم راجہ کے ساتھ جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس عارف حسین خلجی کی عدالت میں پیش ہوا تھا ۔ سیکرٹ فنڈ کی فہرست کے حوالے سے جو کنفیوژن سامنے آیا‘ اس کے بعد ضروری سمجھا کہ عدالت سے رجوع کیا جائے۔ ہم صحافی شیشے کے گھر میں رہتے ہیں جو کنکر برادشت نہیں کرپاتے۔ میرے دوست بھی اس فہرست پر مضطرب تھے کیونکہ انہیں توقع تھی کہ ان صحافیوں کے نام پیش کیے جائیں گے جو حکومت سے اربوں روپے لیتے رہے۔ ان کا اندازہ تھا کہ چار ارب روپے کا سیکرٹ فنڈ لینے والوں کے نام سامنے آئیں گے۔ ابصار عالم نے عدالت کو بتایا: وزارتِ اطلاعات نے جان بوجھ کر اس معاملے کو خراب کیا ہے اور ساٹھ کے قریب ان صحافیوں کے نام بھی اس فہرست میں شامل کر دیے جو وزیراعظم کے ساتھ غیر ملکی دوروں پر اپنے اخباری مالکان اور ایڈیٹرز کی طرف سے کوریج کے لیے بھیجے گئے تھے یا جنہوں نے کبھی اسلام آباد میں کسی اعلیٰ عہدے دار سے چائے بھی پی تھی۔ میرا نام وزیراعظم کے ساتھ برطانیہ جانے والے بائیس صحافیوں کی فہرست میں شامل تھا ۔ اس سے یہ تاثر ملا کہ ان ساٹھ صحافیوں نے بھی سیکرٹ فنڈ سے کچھ لیا ہے اور سب حیران تھے کہ وزیراعظم کے ساتھ جانے پر سیکرٹ فنڈ کیسے خرچ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ وزارتِ اطلاعات اس فنڈ سے خود تمام اخراجات کرتی ہے۔ جسٹس عارف خلجی اور جسٹس جواد ایس خواجہ نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ نے کبھی نہیں کہا کہ وزیراعظم کے ساتھ بیرونِ ملک کوریج کے لیے جانا غیرقانونی یا غیر اخلاقی کام ہے۔ یہ صحافیوں کا پیشہ ورانہ کام ہے۔ انہوں نے کہا سپریم کورٹ نے یہ نہیں کہا کہ یہ سیکرٹ فنڈ کی فہرست ہے۔ وہ اس خرچے کا آڈٹ چاہتے ہیں جس پر سب صحافی اتفاق کرتے ہیں۔ عدالت نے کہا صحافیوں نے خود ہی اس فہرست کو سیکرٹ فنڈ قرار دے کر اس پر پروگرام شروع کیے ورنہ انہوں نے کوئی ایک لفظ بھی سیکرٹ فنڈ کا نہ تو اپنے آرڈر میں استعمال کیا اور نہ ہی ویب سائٹ پر لکھا؛ تاہم عاصمہ جہانگیر نے احتجاج کیا کہ جب سپریم کورٹ یہ فہرست اپنی ویب سائٹ پر ڈالے گی تو سکینڈل تو بنے گا ۔ جسٹس عارف حسین خلجی کا شکریہ کہ مجھے دیکھ کر کہا‘ آپ انتہائی قابلِ احترام صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں ’’ ایک سیاست کئی کہانیاں ‘‘ ،’’ایک قتل جو نہ ہوسکا ‘‘اور ’’ آخر کیوں ‘‘ پڑھ کر میں نے اپنے علم میں اضافہ کیا۔میں آپ کی تحریروں کا باقاعدہ قاری ہوں ۔ جسٹس خلجی اور جواد ایس خواجہ نے بار بار وضاحت کی کہ جو صحافی وزیراعظم کے ساتھ جاتے ہیں وہ کوئی غیرقانونی کام نہیں کرتے ۔ اس کے بعد میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی عدالت میں موجود تھا ۔ عدالت نے اس سکینڈل پر پہلے جنوری 2011ء میں نوٹس لیا جب میں نے انکشاف کیا تھا کہ انجم عقیل خان نے نیشنل پولیس فائونڈیشن کے ساتھ چھ ارب روپے کا فراڈ کیا ہے ۔ اب دو سال بعد میں نے دنیا ٹی وی کے پروگرام میں نیا سکینڈل دیا کہ کیسے انجم عقیل خان سے لیے گئے اربوں روپے اسے پیپلز پارٹی حکومت ختم ہونے سے دس دن قبل ایک خفیہ ڈیل کے بعد واپس کر دیے گئے اور نیشنل پولیس فائونڈیشن کے ساتھ ایک نیا فراڈ ہوگیا۔ صبح نوبجے عدالت پہنچا ۔ کیس کی باری ڈھائی بجے کے قریب آئی۔ایک گھنٹے تک نیشنل پولیس فائونڈیشن کے افسران عدالت کو چکر دیتے رہے اور میں چپ چاپ بیٹھا سنتا رہا ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ انجم عقیل نے باقی صرف پچاس کنال رقبہ دینا ہے جس کے بدلے وہ چار کروڑ روپے ادا کرے گا۔ میںنے کہا عدالت سے بہت کچھ چھپایا گیا ہے اور چھپانے والے اور کوئی نہیں‘ نیشنل پولیس فائونڈیشن کے افسران ہیں جو اپنے ایک پائو گوشت کے لیے پورا اونٹ ذبح کر چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے بھی آپ کے سکینڈل پر نوٹس لیا تھا‘ ابھی یہ کیس عدالت میں موجود تھا‘ پتہ چلا کہ نیا معاہدہ کر لیا گیا ہے۔میں نے کہا‘ مائی لارڈ آپ کے سوموٹو کے بعد ڈائریکٹر ایف آئی اے ظفر قریشی نے جو کل رقبہ انجم عقیل خان کے ذمے نکالا وہ 201 کنال تھا جس کی اس نے ادائیگی کرنی تھی۔ تاہم انجم عقیل نے منت سماجت کر کے ظفر قریشی کو راضی کر لیا کہ وہ اسے waste کے نام پر رعایت دیں۔ یوں اس سے 46 فیصد ویسٹ کی بجائے 23 فیصد لیا گیا اور رقبہ کم ہوکر 126 کنال ہوگیا ۔ انجم عقیل خان نے ظفر قریشی کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا جس کے تحت فوری طور پر دو ارب روپے کا کرسٹل کورٹ بھی نیشنل پولیس فائونڈیشن کوواپس کر دیا۔ اس دوران تین سینئر پولیس افسران‘ جن میں طارق کھوکھر اور حسین اصغر بھی شامل تھے‘ نے انجم عقیل کے خلاف کل واجب الادا رقبہ 298 کنال نکالا اور سفارش کی کہ اس کے خلاف مجرمانہ کارروائی کی جائے۔ سابق سیکرٹری وزارت داخلہ قمرالزماں چودھری کی زیر صدارت چودہ افسران بشمول چاروں صوبوں کے آئی جی صاحبان کا اجلاس ہوا اور فیصلہ ہوا کہ انجم عقیل سے 2011ء کا مارکیٹ ریٹ لگا کر باقی زمین کے پیسے لیے جائیں گے اور اس کے خلاف مقدمات بھی درج ہوں گے۔ اب حکومت ختم ہونے سے دس دن قبل اچانک سیکرٹری وزارت داخلہ خواجہ صدیق اکبر، آئی جی اسلام آباد بن یامین، ایم ڈی نیشنل پولیس فائونڈیشن زاہد محمود (جو بیس دن بعد ریٹائر ہورہے تھے) اور ڈائریکٹر ہائوسنگ طارق حنیف جوئیہ (کنٹریکٹ ملازم) نے ظفر قریشی، تین آئی جی صاحبان اور چودہ اعلیٰ افسروں کی رپورٹیں اور سفارشات اور معاہدوں کو کوڑے دان میں پھینک کر اپنا معاہدہ کر لیا ہے۔ اس حیران کن معاہدے کے تحت انجم عقیل خان کو وہ دو ارب روپے کا کرسٹل کورٹ واپس کر دیا گیا ہے جو اس نے ظفر قریشی کے ساتھ ہونے والی ڈیل میں فائونڈیشن کو واپس کیا تھا ۔ رقبہ ایک سو چھبیس کی بجائے پچاس کنال کر دیا گیا ہے اور ریٹ بھی 1997ء کا لگایا گیا ہے جو آٹھ لاکھ پچیس ہزار روپے بنتا ہے اور ساتھ ہی سابق ایم ڈی جاوید اقبال کی طرف سے انجم عقیل کے فراڈ پر کینسل کیے گئے بائیس پلاٹ جن کی قیمت پچاس کروڑ روپے بنتی ہے‘ بحال کر دیے ہیں۔ یوں اس خفیہ ڈیل سے انجم عقیل کو بیٹھے بٹھائے ڈھائی ارب روپے کا فائدہ ہوا ہے اور وہ ڈیڑھ ارب روپے بھی اسے معاف کردیے گئے ہیں جو اس نے فائونڈیشن کو ادا کرنے تھے۔ ایک ہی ہلے میں وہ چار ارب روپے جو انجم عقیل خان نے دینے تھے، وہ الٹا فائونڈیشن سے لے گیا ہے۔ ایف آئی اے کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ انجم عقیل کے خلاف تمام مقدمات واپس لے لیے جائیں۔ اللہ اللہ خیر سلا! ایک لمحے کے لیے عدالت میں سناٹا چھا گیا ۔ چیف جسٹس اور جسٹس عظمت شیخ یہ توقع نہیں کررہے تھے کہ معاملہ اتنا سنگین ہے۔ چیف جسٹس نے ان سب کو نوٹس کیے جنہوں نے انجم عقیل کے ساتھ نئی خفیہ ڈیل کی اور اس کے ساتھ ڈی جی ایف آئی اے کو حکم دیا کہ وہ انجم عقیل خان کے خلاف مقدمات واپس نہ لیں۔ اس طرح چار ارب روپے کا نقصان وقتی طور پر تو رک گیا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ بہت سے دوسرے لٹیروں کی طرح انجم عقیل خان بھی اب چیف جسٹس کے ریٹائر ہونے کا انتظار کرے گا۔ وہ کیسے چار ارب روپے اس طرح جانے دے گا۔ اسے سب کی چونچ گیلی کرنے کا ہنر آتا ہے۔ یہاں سرکاری افسروں کی اکثریت بکائو مال ہے اور انجم عقیل بہت جلد نئے بابو تلاش کر لے گا جو اسے نئی ڈیل لکھ کر تھما دیں گے! البتہ انجم عقیل کو نئی حکومت میںنئے وزیر داخلہ اور نئے بابوئوں کو بھائو کچھ زیادہ دینا پڑے گا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved