پاکستان کی اردو جرنلزم کے چند بڑے ناموں میں سے ایک رحمت علی رازی کی اچانک وفات کا سنا‘ شدید جھٹکا لگا‘ یوں لگا جیسے کوئی پرانا دوست بچھڑ گیا ہو۔
زیادہ اداس ہوا تو یاد آیا‘ میری ان سے زندگی میں ایک ہی ملاقات ہوئی تھی۔ حیران ہوا‘ ایک ہی ملاقات تھی‘ پھر بھی ان کی موت کا سن کر زیادہ دکھ کا احساس ہوا؛ اگرچہ ہر بندے کی موت افسردہ کرتی ہے اور یہ یاد دلاتی ہے: ایک دن ہم سب نے مرنا ہے۔
سوچتا رہا کہ ایسی کیا بات تھی رحمت علی رازی میں کیونکہ ان سے زندگی میں ایک ہی ملاقات تھی‘ جو پچھلے سال ستمبر میں ہوئی۔ قسمت دیکھیں کہ دوسری یا آخری ملاقات ہوتے ہوتے رہ گئی۔ فیصل آباد میں چودہ جون کی رات جس شادی سے لاہور واپس جاتے ہوئے انہیں دل کا دورہ پڑا اس میں، مَیں بھی شریک تھا‘ لیکن ہماری ملاقات نہ ہو سکی۔ نہ میں نے انہیں دیکھا‘ نہ ان کی نظر مجھ پر پڑی‘ ورنہ کیسے ممکن تھا کہ میں ان کی طرف خود چل کر نہ جاتا۔
رحمت علی رازی نے جب مجھے جانا، اس سے برسوں پہلے سے میں انہیں ایک قاری کے طور پر جانتا تھا۔ ان کی خبروں اور کالموں کا دیوانہ تھا۔ لیّہ گائوں میں بھائی سلیم کی مہربانی کی وجہ سے سب رسائل، ڈائجسٹ اور ایک اردو اور ایک انگریزی اخبار آتا تھا‘ لہٰذا بچپن سے ہی اخبار، رسائل پڑھنے کا چسکا لگ گیا۔ باقاعدہ صحافی بننے سے پہلے بھی مجھے اس وقت اخبار میں ادارتی صفحات ہی اچھے لگتے تھے‘ جن پر ہارون الرشید، حسن نثار، عبدالقادر حسن، اظہارالحق، جمیل الدین عالی، عباس اطہر، ارشاد حقانی، سلہری صاحب، نذیر ناجی اور مجیب الرحمن شامی جیسے بڑے کالم نگاروں کی تحریریں چھپتی تھیں۔ پھر مجھے کارٹونسٹ جاوید اقبال کے کارٹون بہت پسند تھے‘ بلکہ میں گھر میں اکثر کوشش کرتا کہ انہیں ایک کاغذ پر پنسل سے کاپی کروں اور لکیریں کھینچوں۔ کچھ عرصے بعد کسی کی خبروں نے اپنی طرف متوجہ کیا تو وہ رحمت علی رازی تھے۔ ان کی خبروں میں ایک ایسی کشش ہوتی تھی کہ انتظار رہتا کہ اب کی دفعہ وہ کون سے بڑی خبر نکال کر لائیں گے۔ رازی صاحب نے بڑی سمجھداری کی اور ایک ایسی فیلڈ چن لی‘ جس میں پہلے کوئی کام نہیں کرتا تھا اور پھر اس میں ایسا نام کمایا کہ آج تک ویسا کام کوئی نہیں کر سکا۔ وہ فیلڈ تھی بیوروکریسی کے بارے میں اندورنی خبریں بریک کرنا۔ ان کی خبروں نے بیوروکریسی پر دہشت بٹھائی ہوئی تھی۔ ہر سال سی ایس ایس کے امتحان کے بعد جب سب نئے نئے افسران لاہور والٹن سول سروس اکیڈیمی میں ٹریننگ کے لئے جاتے تو پھر رحمت علی رازی کی کمال خبر اخبار کی زینت بنتی‘ جس کا ہفتوں ہر طرف چرچا رہتا۔ اس خبر کا سب پورا سال انتظار کرتے تھے۔ وہ خبر سب کو دہلا کر رکھ دیتی تھی کیونکہ اس سے پتہ چلتا تھا کہ کیسے اس ملک کی سیاسی ایلیٹ اور بڑے گھرانوں نے سول سروس پر اپنا قبضہ جمایا ہوا تھا۔ اس خبر میں تفصیل سے بتایا جاتا کہ ڈی ایم جی اور پولیس‘ جو پاکستان میں اصل حکمران سمجھے جاتے ہیں‘ میں کس بڑے آدمی کا بیٹا، داماد، بیٹی یا بہو شامل تھے۔ اسے پڑھ کر لگتا تھا کہ یہ امتحان ایک ڈھونگ ہے‘ جو ہر سال رچایا جاتا ہے تاکہ ان بڑے سیاسی لوگوں کے بچوں کو ملک پر حکمرانی کرنے کا حق دیا جائے۔ ہر سال دس ہزار لڑکے امتحان دیتے لیکن رازی کی فہرست سے لگتا تھا کہ پولیس اور ڈی ایم جی صرف ان کو ملے ہیں جو کسی وزیر، سفیر یا بڑے آدمی کے بچے تھے۔ بڑے گھرانوں کے اگر اپنے بچے سول سروس میں نہ ہوتے تو پھر اکیڈیمی سے ہی داماد چن لیے جاتے تھے تاکہ ٹہکا برقرار ہے۔ یہ وہ خبریں تھیں جن کی وجہ سے میں ان کا فین بننا شروع ہوا۔ اس کے بعد رازی نے جو کالمز لکھنے شروع کیے وہ اپنی جگہ ایک ایسا نشہ تھا جس کے لیے اتوار کا انتظار کیا جاتا۔ پھر پتہ چلا انہوں نے اپنا اخبار نکال لیا ہے اور ان کے کالمز مجھے نہ ملتے۔
اور پھر ایک دن میں نے اپنے ٹی وی پروگرام میں رحمت علی رازی کی اس صحافت کے پہلو کو یاد کیا اور کہا تھا: کہاں گئے رازی صاحب۔ اب تو ہمیں کوئی نہیں بتاتا کہ ہر سال پولیس اور ڈی ایم جی میں کس کس کا بچہ سلیکٹ ہو کر آ رہا ہے۔
پروگرام کے فوراً بعد ان کا میسج آ گیا۔ میرے لیے یہ بڑی خوشی کی بات تھی کہ ایک ایسے صحافی‘ جسے میں برسوں سے فالو کرتا آیا تھا‘ نے مجھے میسج کیا تھا۔
کچھ دن بعد وہ اسلام آباد آئے۔ میں نے کہا: کہاں ہیں؟ بتایا: ہوٹل میں ہوں۔ میں نے گاڑی نکالی‘ انہیں وہاں سے لیا اور ایک چینی ریسٹورنٹ پر جا بیٹھے۔ ان کا خوبرو برخوردار ان کے ساتھ تھا‘ اور وہ بڑے فخر سے بیٹے کے بارے میں بتاتے رہے۔ ایسی گپ شپ اور قہقہے لگنا شروع ہوئے کہ کچھ دیر میں یوں لگا جیسے ہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہیں۔ میں نے ان سے ایک ذاتی قسم کی معذرت کرنا تھی۔ کئی برس پرانی میری ایک غلطی کی وجہ سے کچھ غلط فہمی ہو گئی تھی۔ ہنس پڑے اور کہنے لگے: آپ چھوٹے بھائی ہیں‘ جانے دیں۔
میں ایک بچے کی طرح ان سے سوالات کرتا رہا کہ وہ کس طرح اس فیلڈ میں آئے۔ انہیں ان کی خبریں یاد دلائیں‘ جس پر وہ حیران ہوئے کہ اتنے برسوں بعد بھی مجھے وہ یاد تھیں۔ میں نے گلہ کیا کہ آپ کے اپنا اخبار نکالنے اور ایڈیٹر بننے کے شوق سے ہم جیسوں کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ پہلے ہمیں ہر سال پتہ چلتا رہتا تھا اس سال کس بڑے سیاسی خاندان کی باری تھی کہ اس کے بچوں کو ڈی ایم جی اور پولیس گروپ ملے گا۔ آپ کے ایڈیٹر اور اخبار کا مالک بن جانے کے بعد اب کوئی رازی جیسا رپورٹر وہ خبریں نہیں نکالتا۔ قہقہہ لگا کر بولے: یہ آپ نے اچھا کہا کہ میرے ایڈٹیر بن جانے سے آپ کی خبروں کا ہرج ہوا۔ پھر بتانے لگے کہ وہ ایسی خبریں کیسے اور کس طرح محنت سے ایک اعلیٰ افسر سے نکلواتے تھے‘ جس کے پاس یہ سب ریکارڈ ہوتا تھا‘ اور اگلے دن وہ پوری محنت سے اخبار میں چھاپتے تھے۔
اپنی ماں کی باتیں سناتے رہے‘ اور ان کی آنکھوں میں اپنی ماں کے لیے پیار‘ محبت اور عقیدت دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہ اپنی والدہ سے کتنے قریب تھے۔ بتانے لگے کہ کیسے ان کی ماں نے انہیں سختی سے کہا تھا کہ اس نے ہمیشہ غریبوں کے لیے کھڑا ہونا ہے اور بڑے لوگوں کے لیے اپنا قلم استعمال نہیں کرنا۔
رحمت علی رازی کی ایک بڑی خوبی مجھے یہ لگی کہ وہ ان چند لوگوں میں سے تھے‘ جو اپنے جیسے صحافیوں کی ترقی اور عروج پر خوش ہوتے تھے۔ حسد نام کی کوئی چیز نہ تھی۔
میں ان سے کیریئر کے بارے میں پوچھتا رہا کہ جنوبی پنجاب کے ایک پسں ماندہ علاقہ سے اٹھ کر انہوں نے لاہور میں صحافت شروع کی اور بڑا نام کمایا اور اب تو وہ باقاعدہ اپنے اخبارات تک لانچ کر چکے تھے۔ وہ مجھے اپنی کہانی سناتے رہے اور میں محو ہو کر بچوں کی طرح سنتا رہا۔ وہ ان چند صحافیوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور علاقے کے لوگوں کی ہر ممکن مدد کی۔
پتہ ہی نہ چلا کہ تین گھنٹے گزر گئے اور پھر ہم نے جی بھر کے ایک دوسرے کو گلے لگایا‘ اور طے ہوا کہ وہ جب بھی اسلام آباد آیا کریں گے‘ ایک مجھے میسج آیا کرے گا اور ہم اکٹھے لنچ کیا کریں گے۔
ابھی یہ کالم لکھنے بیٹھا تو ان کے پرانے میسجز چیک کر رہا تھا۔ اچانک ایک پرانا میسج دیکھا‘ جو انہوں نے سترہ روز قبل تیس مئی کو بھیجا تھا‘ اور جو میں اب پڑھ رہا ہوں کہ واٹس ایپ کے دور میں اب ٹیکسٹ میسجز کم ہی پڑھتا ہوں۔
ان کا وہ میسج مجھ سے مس ہو گیا تھا۔
''پیارے رئوف بھائی کبھی زندگی میں فارغ ہوں تو مجھ سے بات کر لینا، ممنوں رہوں گا... رازی‘‘
کافی دیر سے افسردہ بیٹھا ان کا سترہ دن پہلے کا آخری میسج پڑھ کر خود کو کوس رہا ہوں۔ پتہ نہیں وہ مجھ سے کیا بات کرنا چاہتے تھے۔
قسمت دیکھیں‘ تین دن پہلے ایک ہی شادی میں شریک تھے پھر بھی نہ مل سکے۔ کیا لاعلمی میں کوئی کوتاہی ہو گئی تھی کیونکہ مجھے لگا اس آخری میسج میں ایک حجت تھی۔ ایک گلہ تھا۔ ایک شکوہ تھا۔ ایک ایسے بڑے بھائی کا جس سے پوری زندگی میں صرف ایک ملاقات ہوئی تھی لیکن مل کر یوں لگا تھا جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کے کھلے ڈلے دوست ہیں۔