چالیس سال سے زیادہ عرصے سے سیاسی جنگ جاری ہے۔ صرف کھلاڑی، میدان اور وقت تبدیل ہوئے ہیں۔ اس کا آغاز جنرل ضیاالحق کے ایک حادثے میں جاں بحق ہونے، اور دوسری جمہوری تبدیلی سے ہوا۔ ایک طرف پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادی اور دوسری طرف مسلم لیگ نون اور اس کے ارد گرد جمع ہونے والے دھڑے تھے۔ سیاسی جماعتوں میں تو ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں، نظریاتی بھی اور موقع پرست بھی، مخلص کارکن بھی اور اُن کے زور پر مورثی سیاست کرنے والے بھی۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کی بجائے دو سیاسی خاندانوں کی بات کرنی چاہیے۔ بھٹو خاندان کی سیاسی تاریخ لمبی ہے۔ اس کا آغاز سر شاہنواز بھٹو سے ہوتا ہے؛ تاہم ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست اُن کے والد محترم کی پہچان سے نہیں تھی، بلکہ اُنھوں نے اپنا مقام ایوب خان کی حکومت میں وزیرِ خارجہ، اور بعد میں اُن کے خلاف عوامی تحریک کی قیادت کرکے حاصل کیا۔ پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، اور 1970 کے انتخابات میں نظریے اور عوامی مقبولیت کی سند لیے قومی افق پر ایک طاقتور سیاست دان کے طور پر ابھرے۔ اُنھوں نے کیا کارنامے انجام دیے، اور آخر کار اُن کے ساتھ کیا ہوا، یہ اس موضوع کا حصہ نہیں۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی پاکستان کی تاریخ میں پہلی پارٹی تھی جو ملک کے ہر حصے اور ہر کونے میں مضبوط جڑیں رکھتی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اُن کی سیاست کی وارث ضرور تھیں، لیکن اُنھوں نے ضیاالحق کے خلاف چلنے والی تحریک کی قیادت کی، پارٹی کو سنبھالا، اور اپنی اعلیٰ تعلیم اور سیاسی صلاحیتوںکی بدولت اپنا مقام بنایا۔ ایک لحاظ سے اُن کے ذمے بھٹو صاحب کی پھانسی کا ایک قرض تھا، جو اُنھوں نے مزاحمتی سیاست کے ذریعے اور قیدوبند اور جلاوطنی کی زندگی گزار کر اتارا۔
جب وہ واپس آئیں تو اُن کا مقابلہ شریفوںکے سیاسی خاندان سے تھا۔ یہ خاندان بنیادی طور پر صنعتی اور تجارتی تھا، کبھی سیاست میں نہیں رہا تھا۔ دیگر صنعتی اور تجارتی خاندانوں کی طرح ذوالفقار علی بھٹو کی صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی سے بری طرح متاثر ہوئے تھے، اس لیے ضیاالحق کی حکومت کے فطری اتحادی بن گئے۔ میاں نواز شریف ضیاالحق کے ساتھ تھے۔ جب بھٹو کو پھانسی دی گئی، اور اُس وقت بھی جب جونیجو کو اقتدار سے علیحدہ کیا گیا‘ شریف خاندان نے ضیاالحق کیساتھ وفاداری نبھائی، اور سیاسی فیض حاصل کیا۔ نہ صرف وزارتیں بلکہ مسلم لیگ، جسے جونیجو صاحب نے بحال اور منظم کیا تھا، بھی اُن کے حوالے کر دی گئی۔ پیپلز پارٹی سے خائف اور ماضی میں گزند رسیدہ یا تو مسلم لیگ میں شامل ہوئے، یا چھوٹے دھڑوں کی صورت انتخابات، اور اس کے بعد بننے والی حکومتوں میں اس کے اتحادی بنے۔
جمہوریت کی بحالی ہو یا اس کا انتقام، حکومتیں ہوں یا حزبِ اختلاف، تقریباً چالیس سال تک پاکستان کی سیاست بھٹو اور شریف خاندانوں کے درمیان ایک سیاسی جنگ ہی رہی ہے ۔ اُن کے ایک دوسرے خلاف سیاسی بیانیے، سیاسی لڑائی اور مورثی سیاست نے پاکستان کے سیاسی اداروں، روایات اور جمہوریت کی آئینی روح کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ شریف خاندان نے ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی ورثا کو ملک دشمن اور غدار، ناقابلِ اعتبار اور بدعنوان ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی‘ یہاں تک کہ محترمہ کی ذات پر کیچڑ اچھالا اور ایسے ایسے الزامات لگائے کہ سر شرم سے جھک جائے۔ جب بھی وہ طاقت میں رہے، اُنھوں نے نہ صرف مقدمات بنائے بلکہ آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف اپنی مرضی کے مطابق فیصلے بھی لکھوائے۔ سیاست کی بنیاد نہ تو کوئی نظریہ تھا، نہ کسی پالیسی پر اختلاف، بلکہ دونوں خاندانوں کے درمیان ذاتی، خاندانی دشمنی تھی۔
سیاست میں تو قانون، آئین اور روایات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو دل سے تسلیم کیا جاتا ہے۔ مگر سیاسی جنگ کے اس دور میں حکومتیں گرانا ایک روایت بن کر رہ گیا ہے۔ وفاق میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو اس نے پنجاب میں نون لیگ کی حکومت کے خلاف ہر حربہ آزمایا کہ اس کی عددی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے۔ سیاسی گھوڑوں کی خریدوفروخت کا دور آیا۔ یہ کوئی معمولی رسہ کشی نہ تھی۔ سیاسی ماحول اتنا خراب ہوا کہ دنوں سیاسی خاندان غیر جمہوری قوتوں کی طرف دیکھنے لگے، کہ اگر وہ اُن کا ساتھ دیں تو سیاسی حریف خاک چاٹنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کئی بار ہوا۔
کئی بار اقتدار میں رہ کر نواز شریف اپنی سیاسی اساس پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اُن کا طریقہ بہت سادہ، اور اپنی جیب پر بہت ہلکا تھا۔ اُنھوں نے ریاستی وسائل کو سیاسی سرپرستی کا ذریعہ بنایا۔ سیاست میں اُنھوں نے یہ گر سیکھا، اور ہمیشہ بہت مہارت سے استعمال کیا۔ گزشتہ چار دہائیوں میں سیاسی نمائندوں کی تین سیاسی نسلیں ریاستی وسائل کو استعمال کرتے ہو، کھلے الفاظ میں کرپشن کے ذریعے، اقتدار میں رہی ہیں۔ میاں صاحب کی سب سے بڑی کامیابی پنجاب کے سیاسی گھرانوں کو اپنے گرد جمع کرنا تھا۔ اسمبلیوں میں اراکین کی مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کے لیے انتخابی حلقوں میں نامور سیاسی گھرانوں کی حمایت ضروری ہے۔ جونہی پاکستان پیپلز پارٹی کی پنجاب میں مقبولیت کم ہونے لگی، سیاسی طور پر متحرک اور عملیت پسند سیاسی خاندان مسلم لیگ نون کے گرد جمع ہو گئے۔ لیگ نے 1997ء کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرکے تاریخی کامیابی حاصل کی۔ یہ وہ کامیابی تھی جو آج تک کسی اور سیاسی رہنما کو نصیب نہیں ہوئی۔ یہ اور بات کہ میاں صاحب کبھی اپنے اقتدار کو سنبھال نہ سکے۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ آخر پاکستان کے وہ کون سے مسائل تھے جو میاں صاحب غیر جمہوری قوتوں سے چھیڑ چھاڑ کئے بغیر حل نہیں کر سکتے تھے۔
سیاسی جنگ کا ایک اور دور شروع ہو چکا۔ اس کی ابتدا انتخابات کے دن کی شام، جب نتائج آنا شروع ہوئے، سے ہی ہو گئی تھی۔انتخابات کے دوران پنجاب کے سیاسی گھرانے‘ جو کبھی زرداری صاحب اور کبھی میاں صاحب کے ساتھ تھے، تحریکِ انصاف میں شامل ہوکر اس کی طاقت میں اضافے کا باعث بنے۔ لیکن ہوا وہی جو گزشتہ نصف صدی سے ہوتا چلا آ رہا تھا۔ انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنا۔ جیت جائیں تو شفاف، ہار جائیں تو دھاندلی۔ سیاسی قیادت کو تاریخ کا ایک ورق اپنے سامنے رکھنا چاہیے، صرف وہی مستقبل کے بارے میں ہوشمندی سے کام لینے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تمام تر اعلیٰ تعلیم، دانش اور سیاسی بصیرت کے باوجود 1970ء کے انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ سوچیں، اقتدار عوامی لیگ کا حق تھا۔ اسمبلی کا مجوزہ اجلاس ہونا چاہیے تھا۔ اقتدار کی پرامن منتقلی یقینی بنانی چاہیے تھی۔
انتخابات کو متنازع بنانا ہماری روایت بن چکا ہے۔ وہ منفی اور ذاتیات کی سیاست اور بیانیہ جو چالیس سال سے ملک میں جاری ہے، اگر ہم حکومت میں نہیں تو آپ کو بھی حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ اس سیاسی لڑائی میں نقصان صرف ملک، ریاست، ریاستی اداروں اور عوام کا ہے۔ سیاسی گھرانوں کے لیے یہ ایک کھیل ہے۔ اُن کی دولت، گھر، بچے، مستقبل پاکستان میں نہیں، کہیں اور ہیں۔ پاکستان تو ان کے لیے کرپشن کی ایک چراگاہ ہے۔ اس مرتبہ سیاسی جنگ کا نقشہ تبدیل ہوا ہے۔ ایک طرف تحریکِ انصاف، اور اس کے اتحادی ہیں، دوسری طرف دو سیاسی خاندان ہیں جو ایسی لڑائی کا چالیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ بیانیہ وہی گھسا پٹا، فرسودہ: نفرت کی آگ، طنز کے تیر، نوکیلی اور تیکھی زبانیں۔ معاف کیجیے یہ سیاست کا رنگ نہیں۔ یہ قبائلی اور جاگیردارانہ دشمنی کا عکس ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران خان صاحب اور اُن کے ساتھی بھی سیاسی نفرت کو ہی موثر ہتھیار خیال کرتے ہیں۔ امید تھی کہ وہ جلد ہی اقتدار، اور اقتدار کے تقاضے سمجھ جائیں گے، لیکن اُن کی گزشتہ تقریر نے مایوس کیا۔ اس میں جذبہ تھا، لیکن بصیرت نہ تھی۔ نفرت سے بوجھل سوچ ذہن پر سوار ہے۔ ٹھیک ہے، آپ کے حریفوں نے ملک لوٹا ہوگا، قوانین توڑے ہوں گے، لیکن جب تک عدالت میں ثابت نہیں ہوتا، وہ مجرم نہیں۔ سب شہری احترام کے قابل ہیں۔ یہ آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے۔ سیاسی جنگ کے شعلوں میں عوام جل رہے ہیں۔ ڈر ہے کہ جمہوریت کا رہاسہا خول پھٹ نہ جائے۔ سیاست جنگ یا دشمنی نہیں ہوتی۔ یہ آئین اور قانون کے دائرے کے اندر پرامن مسابقت کا نام ہے۔