قومی اسمبلی کے سیشن میں بجٹ بحث کے منسوخ ہونے کی وجہ پھر ممبران پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر کا جاری نہ ہونا تھا۔آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد بلاول نے بھی پریس کانفرنس میں بہت تنقید کی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک کی حاوی سیاست میں انتشار کس قدر بڑھ گیا ہے۔ طرزِ حکمرانی فوجی ہو یا سویلین‘ یہ کسی مخصوص نظام کی نمائندگی کرتا ہے۔آمریت یا جمہوریت ایک ہی نظام کو چلانے کے دو مختلف طریقے ہو سکتے ہیں۔لیکن آمریتوں میں جبر بالعموم اتنا ننگا اور وحشیانہ ہوتا ہے کہ اس کے خلاف نفرت عوام میں پھیل جاتی ہے اور حکمرانوں کو ایسی تحریکوں کے ابھرنے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے جو آمریت کے ساتھ ساتھ سارے نظام کی بساط لپیٹ سکتی ہیں۔اس لئے پھر بظاہر انتخابات کے ذریعے جمہوری حکومتیں لائی جاتی ہیں۔جن کے پیچھے نہ جانے کتنی مفاہمتیں اور معاہدے ہوتے ہیں۔
ظاہری طور پر پارلیمنٹ بن جاتی ہے۔مخصوص حدود و قیود میں تقریر و تحریر کی تھوڑی بہت آزادیاں دے دی جاتی ہیں۔سیاسی اشرافیہ کے لئے ایک دوسرے پر الزام تراشی اور طعنہ زنی کے بہت سے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں۔حکمران طبقات اور ریاست کے مختلف دھڑوں کے سیاسی نمائندے بہت توتکرار کرتے ہیں۔ نان ایشوز پر خوب لڑتے جھگڑتے بھی ہیں‘ جس سے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بڑی جمہوریت اور آزادی آ گئی ہے لیکن یہ آزادیاں وہیں تک ہوتی ہیں جہاں تک انہیں عطا کرنے والے چاہتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کی سیاست میں آبادی کی بھاری اکثریت پر ایک خودکار پابندی بھی عائد ہوتی ہے۔عام لوگ پیسے کی سیاست کے بے پناہ اخراجات برداشت ہی نہیں کر سکتے ہیںاور دھن‘ دولت بہائے بغیر معمول کے انتخابات جیتنا اور پارلیمنٹ میں آنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر عملی طور پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے تک کے لئے کئی قسم کی مقامی‘ قومی اور بین الاقوامی قوتوں تک رسائی کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ان تمام اقدامات سے حکمران طبقات کی جمہوری اداروں پر گرفت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
لیکن اگر موجودہ جمہوری سیٹ اپ کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا ہے کہ اس میں آمرانہ روش بھی پائی جاتی ہے۔ ہر ادارے‘ شعبے اور معاشرتی قدر کو کنٹرول کرنے کی کوشش اس حاکمیت کا خاصہ بن گئی ہے۔ اس مہم کا آغاز ذرائع ابلاغ سے ہوا تھا لیکن معاشرے پر اثرانداز ہونے والے ہر ذریعے کو مطیع کرنے کا سلسلہ ایک بے دریغ اور بے رحمانہ انداز میں جاری ہے۔پچھلے 9 ماہ میں جو کچھ ہو چکا ہے اس کے بعد موجودہ حکومت کے ناکام ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہنا چاہئے۔
حکومت پر بلاول کی حالیہ تنقید سے اختلاف کرنا مشکل ہے۔جس طرح گرفتاریاں ہو رہی ہیں اس کی مثال کھلی آمریتوں میں بھی کم ہی ملتی ہے‘لیکن آج کی حزب اختلاف کی بڑی پارٹیوں کو بھی ماضی میں مقتدر قوتوں سے مشروط‘ مطیع اور ادھورا اقتدار ہی ملا تھا؛ تاہم پھر ایسے ملک میں جس کی معیشت دائمی بحران زدہ ہو‘ جو سامراجی مداخلتوں اور پراکسی جنگوں کے انتشار میں گھرا ہو اور معاشرے میں وسیع غربت کی وجہ سے مسلسل عدم استحکام کا شکار ہو‘جمہوری حکومتوں اور حاوی طاقتوں کے درمیان کبھی نہ کبھی چپقلش لازمی ہوتی ہے۔ بحران اتنا شدید ہے کہ اب براہِ راست مارشل لگا کر یہ نظام چلانا ماضی کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہوگیا ہے۔اوپر بڑی ٹوٹ پھوٹ ہو سکتی ہے اور نیچے سے بڑی بغاوت مشتعل ہو سکتی ہے‘ اس لئے جمہوری لبادوں کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔آمریتوں کے دوران عوام پستے رہے‘ کوڑے کھاتے رہے‘ پھانسیوں پر بھی چڑھتے رہے‘ بھوک اور افلاس کے ساتھ ریاستی جبر سے بھی لڑتے رہے لیکن جب جمہوریت آئی تو انہی آمریتوں کے سویلین حواری سیاسی پارٹیوں کی ٹکٹیں اور نشستیں خرید کر اسمبلیوں کی زینت بن گئے۔ حکمران طبقات کے لئے رشتے‘ احساس‘ ضمیر‘ اصول اور نظریات کاروباری مصنوعات کی طرح ہوتے ہیں جنہیں جہاں منافع دکھائی دیا‘ وہیں فروخت کر دیا۔ ایوب خان کی آمریت نے بنیادی جمہوریت کا سویلین لبادہ اوڑھا اور خود ایوب خان نے مسلم لیگی شیروانی پہن لی جبکہ ان کا وزیر خزانہ سامراجی مالیاتی اداروں کا کارندہ تھا۔
ضیاالحق نے مجلس شوریٰ بنا ڈالی جس میں بڑے بڑے سیکولر اور لبرل ڈیموکریٹ بھی متقی بن کر سامنے آئے ۔ جمہوریت کا عالمی ٹھیکیدار امریکی سامراج اس ضیا الحق کا سرپرست بن کے افغانستان میں جنگ کرواتا رہا۔ صرف نواز لیگ ہی نہیں پیپلز پارٹی کے اعلیٰ عہدوں پر بھی اسی مجلس شوریٰ کے اراکین آج بھی فائز ہیں۔ مشرف نے خود کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کہلانے سے گریز کیا اور چیف ایگزیکٹو بنے۔ انہوں نے آدھا تیتر آدھا بٹیر جیسی نیم آمرانہ جمہوریت رائج کی جس کی کابینہ کے بیشتر وزیر موجودہ کابینہ کا بھی حصہ ہیں‘ بلکہ شاید اس کی اکثریت ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس جمہوری حکومت سے کہیں زیادہ آزادیاں مشرف آمریت میں حاصل تھیں۔ ریاستی جبر‘ قدامت پرستی اور فسطائی سوچوں کا غلبہ آج کی نسبت کہیں کم تھا۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کا اقتدار اس نظام کے اصل پالیسی سازوں کا ایسا تجربہ ہے جو بری طرح ناکام ہوا ہے۔ دائیں بازو کے پاپولزم والے معاشی پروگرام‘ جو موجودہ حالات میں ویسے ہی ناقابل عمل تھا‘ کی ناکامی کی وجہ سے سب کچھ براہِ راست آئی ایم ایف کے حوالے کرنا پڑ گیا ہے۔
آصف زرداری ‘ شہباز شریف اور حمزہ شہباز اقتدار کے بالائی ڈھانچوں کا حصہ رہے ہیں۔ آخر کار وہ اسی حکمران طبقے کا حصہ ہیں اس لئے انہیں قانونی اور سیاسی تحفظ بہرحال حاصل رہے گا‘مگر اس کے برعکس علی وزیر اور محسن داوڑ کی گرفتاری بالکل مختلف نوعیت کا معاملہ ہے۔ ان کے مطالبات کو آرمی چیف سے لے کے عمران خان تک جائز قرار دیتے رہے ہیں‘ یہ الگ بات کہ ان لوگوں نے اپنے مطالبات کے لیے کوئی مناسب رویہ اختیار نہ کیا ۔ ان سے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے مذاکرات ہوتے رہے ہیں لیکن بعض غیر مناسب مطالبات پر نظر ثانی نہ کرنے کے نتیجے میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے ۔آج اسمبلی کے اندر اور باہر ان لوگوں کی حمایت کہیں نہیں پائی جاتی۔ خود سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کھل کے اعتراف کیا ہے کہ علی وزیر اور محسن داوڑ کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنا اُن کے بس میں نہیں ہے۔ اگر غور کریں تو حکمرانوں کے تمام تر آپسی اختلافات اور انتقامی کارروائیوں کے باوجود بات کبھی اسمبلی رکنیت منسوخ کرنے تک نہیں پہنچی لیکن علی وزیر اور محسن داوڑ کی رکنیت کی منسوخی کے لئے الیکشن کمیشن میں پٹیشن بھی دائر کر دی گئی ہے کیونکہ ان کے بارے اب کوئی شبہ ہی باقی نہیں رہا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے بھی گرفتار اراکین اسمبلی کو ایوان میں لانے کا مطالبہ آصف زرداری اور سعد رفیق تک ہی محدود رکھا ہے‘ وزیرستان کے ان دو اراکینِ اسمبلی کوکسی نے یاد نہیں رکھا ‘ اور کوئی رکھتا بھی کیسے جب ان لوگوں نے شک کے فائدے کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام اصل طبقاتی مسائل پر صرف1968-69ء میں اٹھے تھے۔ یہ تحریک درحقیقت ایک انقلاب تھا۔ آج اس حکمران طبقے کے زیر عتاب دھڑے موجودہ بحران کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اگر واقعی کوئی تحریک پھٹ پڑی تو اس اپوزیشن کے رہنمائوں کو بہت پیچھے چھوڑ جائے گی۔ پاکستان میں حکمران جس طرح آپس میں دست و گریبان ہیں‘ لینن نے اس کیفیت کو انقلاب کی ابتدائی علامت قرار دیا تھا۔