تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-06-2019

محدود ہوتے جانے کا شوق

انسان اپنے آپ کو اُتنا نہیں پالتا ‘جتنے وہ شوق پالتا ہے۔ اس راہ پر چلتے ہی رہیے تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے‘ جب آپ شوق نہیں پالتے‘ بلکہ شوق آپ کو پالنے لگتے ہیں۔ ہم زندگی بھر یہی تو کرتے ہیں۔ بعض معاملات میں شوق ہمارے حواس پر غالب آجاتا ہے اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا بہت کچھ کرتے رہتے ہیں ‘جو ہمارے کسی کام نہیں ہوتا‘ بلکہ اُلٹا نقصان کا باعث بنتا ہے۔ 
شوق کے معاملے میں لوگ دل کے ہاتھوں شدید بے بسی جھیلتے رہتے ہیں۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوق ‘حواس پر یوں چھا جاتا ہے کہ بہت سے اہم کام ایک طرف رہ جاتے ہیں اور ہم شوق کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے ہی وجود کو داؤ پر لگاتے چلے جاتے ہیں۔ آج کا پاکستانی معاشرہ کم و بیش ایسی ہی کیفیت کا حامل ہے۔ لوگ اپنے میلان‘ صلاحیت اور سکت سے ذرا سی بھی مطابقت نہ رکھنے والے شوق پالتے ہیں اور اس معاملے میں معقولیت کا دامن تھامنے کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اور جب پانی سر سے گزر جاتا ہے‘ تب پچھتاوے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا۔ 
ہر انسان ایک مکمل وجود کے ساتھ اس دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ جب تک وہ اپنے آپ کو محدود کرنے کے بارے میں نہیں سوچتا ‘تب تک وہ بھرپور اور مکمل وجود ہی کا حامل ہوتا ہے۔ ماحول انسان پر خاصا اثر انداز ہوتا ہے۔ انسان ‘جس گھر میں پیدا ہوتا ہے‘ اُس کی سوچ اور ماحول سے بھی وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کے باوجود اپنے آپ کو بھرپور زندگی کے لیے تیار کرنا بہت حد تک انسان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اپنے ماحول کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ غیر معمولی کامیابی اُنہی کے ہاتھ لگتی ہے‘ جو ماحول کی پروا کیے بغیر اپنے لیے کوئی راستہ منتخب کرتے ہیں اور اُس پر چلتے رہتے ہیں۔ ماحول قدم قدم پر رکاوٹ بنتا ہے‘ مگر وہ کسی بھی رکاوٹ کی پروا نہیں کرتے اور منزل کو ذہن نشین رکھتے ہوئے چلتے رہتے ہیں۔ 
کبھی آپ نے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ ہر دور میں کسی بھی انسان کے لیے بھرپور اور مثالی نوعیت کی کامیابی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج رہی ہے؟ حالات چاہے کچھ ہوں‘ کامیابی کبھی آسانی کا معاملہ نہیں ہوتی۔ جو لوگ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں‘ اُنہیں بھی اپنے وجود کو منوانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ کامیاب انسان کی اولاد کے لیے کامیاب ہونا زیادہ مشکل مرحلہ ہوتا ہے‘ کیونکہ قدم قدم پر اُس کا موازنہ اُس کے اپنے والد یا گھر کے دیگر افراد سے کیا جاتا ہے۔ 
بھرپور اور مثالی نوعیت کی کامیابی ہم سے مثالی نوعیت کی محنت بھی تو چاہتی ہے۔ صلاحیت اور سکت کا ہونا کافی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ میں کام کرنے کی لگن کس قدر ہے۔ اس دنیا میں بہت سوں کو قدرت نے غیر معمولی صلاحیت سے بھی نوازا ہے اور سکت بھی بخشی ہے ‘مگر وہ لگن نہ ہونے کے باعث کچھ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ معاملہ کچھ تو تساہل کا ہوتا ہے اور کچھ تذبذب کا۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان کسی بڑے کام کے لیے ذہن نہیں بنا پاتا اور یوں اُس کی زندگی میں الجھنیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ بھرپور کامیابی کے لیے انسان کا اپنے وجود پر کامل یقین لازم ہے۔ ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ اپنے ہی وجود پر کامل یقین رکھنے سے گریز کرتے رہتے ہیں۔ اس کے لیے نتیجے میں شخصیت محدود ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہمیں قدم قدم پر الجھنیں ملتی ہیں اور ہم ہر الجھن کے آگے ہتھیار ڈالتے چلے جاتے ہیں۔ پریشانیاں اور الجھنیں اس لیے نہیں ہوتیں کہ اُن کے سامنے سِپر انداز ہوا جائے۔ اُن سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے۔ دنیا کا ہر کامیاب انسان جب اپنی کہانی سناتا ہے تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں اُس کی زندگی میں جو آسانیاں دکھائی دے رہی ہیں وہ یونہی پیدا نہیں ہوگئیں۔ کوئی بھی بڑی تبدیلی راتوں رات رونما نہیں ہوتی۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ ہمیں زندگی بھر مسائل سے دوچار ہونا اور اُن کا حل تلاش کرنا پڑتا ہے۔ 
یہ بات اپنے ذہن سے جھٹک دیجیے کہ پریشانیاں اور مسائل صرف آپ کے لیے ہیں۔ ہر انسان کو کسی نہ کسی حوالے سے اور کسی نہ کسی سطح پر مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ مسائل حل کیے بغیر کوئی بھی بڑا نہیں بنتا۔ ہم ‘اگر کسی بھی مسئلے کے آگے ہتھیار ڈال دیں‘ تو وہ شیر ہو جاتا ہے اور ہمارے بہت سے معاملات پر حاوی ہوکر ہمیں محدود کرتا چلا جاتا ہے۔ 
دنیا کے ہر انسان کو لامحدود صلاحیت و سکت کے ساتھ خلق کیا گیا ہے۔ قدرت چاہتی ہے کہ ہم پوری شخصی آزادی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور دنیا کو دکھائیں کہ ایک انسان کیا کیا کرسکتا ہے۔ اس معاملے میں کام کرنے کی لگن اور ہدف کے تعین کا کلیدی کردار ہوا کرتا ہے۔ کسی میں کتنی ہی صلاحیت اور سکت ہو‘ جب تک ہدف کا تعین نہ ہو اور کام کرنے کی لگن پروان نہ چڑھے‘ تب تک کوئی ڈھنگ کا کام ہو نہیں پاتا۔ ہم‘ اگر اپنی صلاحیت کو نہ پہچانیں اور اُسے بروئے کار لانے کی لگن اپنے اندر پیدا نہ کریں تو ہمارا وجود سُکڑتا‘ محدود ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس دنیا میں کروڑوں‘ بلکہ اربوں انسانوں کا یہی المیہ ہے کہ جو کچھ قدرت نے اُنہیں مانگے بغیر بخشا ہے ‘وہ اُسے پہچاننے اور اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ صلاحیت اور سکت ہونے پر بھی لوگ activation کی منزل تک نہیں آتے۔ دنیا منتظر ہی رہتی ہے کہ وہ کچھ کریں‘ تاکہ سراہے جائیں ‘مگر وہ کچھ کرنے سے گریزاں ہی رہتے ہیں۔ یہ ہے اپنے وجود کو محدود کرتے چلے جانے کا عمل۔ جو کچھ ہم کرسکتے ہیں‘ جب وہ نہیں کرتے تو وجود کو زنگ لگنے لگتا ہے‘ وہ محدود ہونے لگتا ہے۔ 
ہر انسان کو قدرت کی طرف سے صرف صلاحیت نہیں ملتی ‘بلکہ مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ جس طور ہمیں اپنی صلاحیتوں کو پہچاننا ہوتا ہے‘ اُسی طور مواقع کو بھی پہچان کر اُن سے بخوبی مستفید ہونا ہوتا ہے؛ اگر انسان کسی خاص موقع سے فائدہ اٹھانے کے عمل میں اُس کا حق ادا کرے تو ثمرات منطقی نتائج سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ 
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں‘ جس میں شخصی آزادی کا تصور بہت نمایاں ہے۔ شخصی آزادی کا تصور عرفانِ نفس سے ہٹ کر کچھ نہیں‘ یعنی یہ کہ اگر کوئی کچھ کرنا چاہتا ہے تو لازم ہے کہ اپنی شخصیت کو پہچانے اور اُسے محدود ہونے سے بچائے۔ ماحول میں پائی جانے والی بہت سی منفی باتیں ہمیں بات بات پر ڈرانے کی کوشش کرتی ہیں؛ اگر ہم ڈر جائیں تو محدود ہونے لگتے ہیں۔ ہر طرح کا خوف سب سے زیادہ ذوق و شوقِ عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے خوف کھاتے ہوئے عمل کی منزل سے دور ہوکر خود کو محدود کرتے چلے جاتے ہیں۔ جو کچھ قدرت نے ہمیں صلاحیت اور سکت کی شکل میں عطا کیا ہے ‘زندگی اُس سے مطابقت رکھنے والی لگن کے مطابق عمل چاہتی ہے؛اگر ہم ایسا کریں تو وجود کا حق ادا ہوتا ہے‘ وگرنہ پورا وجود محدود ہوتا چلا جاتا ہے۔ آج کل وجود کو محدود کرنے کا شوق اور چلن عام ہے۔ یہ شوق ہرگز نہ پالیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved