تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     19-06-2019

صحت …(1)

صحت زندگی کا وہ شعبہ ہے ‘ جس میں مجھے گہری دلچسپی ہے ۔ میں نے اس سلسلے میں بہت کچھ پڑھا اور لکھا۔میرے پاس میڈیکل سائنس کی کوئی ڈگری نہیں ہے۔ اس لیے احتیاطاً میں نے تین چوٹی کے ڈاکٹر حضرات کو میڈیکل سائنس پر اپنے کالم بھیجے۔ جب اتنے بڑے ماہرین نے ان پر مہر تصدیق ثبت کر دی‘ تو مجھے گہرا اطمینان حاصل ہوا ۔
سوال یہ ہے کہ اگر آپ بیمار ہیں تو کس کے پاس جائیں ؟ ایلو پیتھی ‘ ہومیو پیتھی‘ حکما‘ خصوصاً طب یونانی کے ماہرین اور سب سے بڑھ کر طبّ ِ نبویؐ ‘ جس میں ہمیں روحانی تسلّی بھی حاصل ہوتی ہے ۔ سرورِ کائنات ؐ انسانی تاریخ کی سب سے ذہین اور ہدایت یافتہ ہستی ہیں ۔ آپ اندازہ اس سے لگائیں کہ آپؐ نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ آپؐ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے ۔ اس کے باوجود‘ اگر یہ سوال کیا جائے کہ کسی ایک شخص کا نام بتائیے ‘جو کرّہ ٔ ارض پہ سب سے زیادہ شدت اور سب سے لمبی مدت کے لیے اثر انداز ہوا ہو تو حضور ؐ کے علاوہ اور کسی کا نام نہیں لیا جا سکتا ۔رسالت مآبؐ کو کسی بھی معاملے میں اللہ کی طرف سے براہِ راست رہنمائی حاصل تھی ۔آپؐ کی ایک دعا یہ تھی کہ اے اللہ مجھے اشیاء کی حقیقت کا علم عطا فرما۔ یہی وجہ تھی کہ آپؐ نے کئی مواقع پر بیماروں کو علاج بتایا اوروہ اس علاج سے صحت یاب ہوئے ۔ اصل میں‘ جس ہستی کو اشیاء کی حقیقت کا علم مکمل طور پر حاصل ہے‘ اسے تو بخوبی علم تھا کہ فلاں شخص کو کس عنصر کی ضرورت ہے اور عنصر کس چیز میں پایا جاتا ہے ۔
یہاں کئی سوالا ت بھی پیدا ہوتے ہیں ۔اس زمانے میں تشخیص (Diagnosis)کے لیے درکار اہم ٹیسٹ موجود نہیں تھے۔ آج ہم گلے سے کیمرہ اندر ڈال کر دیکھ لیتے ہیں ۔ ایکس ریز سے ٹوٹی ہوئی ہڈی دیکھ لیتے ہیں ۔ بی پی آپریٹس سے بلڈ پریشرچیک کر سکتے ہیں ۔ ایسی مشین ایجاد ہو چکی ہے ‘ جس سے شوگر کی صرف موجودہ مقدار ہی نہیں‘ بلکہ پچھلے کئی ماہ کی اوسط بھی معلوم کی جا سکتی ہے ۔ دل کے کئی قسم کے ٹیسٹ ہیں ‘ جن میں ایکو بھی ہے ۔آواز کی لہروں سے اہم ٹیسٹ کیے جاتے ہیں ‘ اسی طرح خوراک کی نالی اور آنتوں کے مختلف ٹیسٹ موجود ہیں ۔ خون کی شریانوں میں چربی (کولیسٹرول) کی مقدارماپی جا سکتی ہے ۔ یہ معلوم کیا جا سکتاہے کہ شریانیں سکڑتو نہیں رہیں اور خون کا دبائو (پریشر) بڑھ تو نہیں رہا ۔ اسی طرح گردے کے مختلف ٹیسٹ ہیں ‘ جن سے با آسانی معلوم ہو جاتاہے کہ گردے کس حد تک خون کی صفائی کر پا رہے ہیں ۔ اسی طرح سے ایم آر آئی ہے ۔ ریڑھ کی ہڈی کے ایک ایک مہرے اور کھوپڑی کی ایک ایک ہڈی کا جائزہ لیا جا سکتاہے ۔ اور تو اور ماں کے پیٹ میں بچّے کی نشو و نما کو مکمل طور پر مانیٹر کیا جا سکتاہے۔ قبل از وقت معلوم کیا جا سکتاہے کہ بچّہ صحت مند ہے یا اس میں کسی قسم کی کوئی بیماری پائی جاتی ہے ۔ یورپ میں بچّے کو پیدا ہونے کے بعد مکمل سکریننگ سے گزارا جاتاہے ۔ اس سے ابتدا میں ہی پتا چل جاتاہے کہ اسے کوئی بیماری لاحق ہے یا نہیں ۔ 
یہ ٹیسٹ اور یہ ٹیکنالوجیز اُس دور میں موجود نہیں تھیں۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہمارے پیارے نبیؐ نے سفر اور جنگ کے لیے گھوڑا استعمال کیا ۔ اس لیے کہ اس دور میں گاڑی اور جہاز موجود نہیں تھے ۔ آج ترکی اور پاکستان جیسے مسلمان ممالک کی افواج جنگ کے دوران گھوڑے استعمال نہیں کرتیں‘اسی طرح عام مسلمان بھی دورانِ سفر گھوڑے استعمال نہیں کر رہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ گاڑی اور جہاز ایجاد ہونے کے بعد گھوڑے پر مہینوں کے سفر کا کوئی فائدہ نہیں ۔ 
الٹرا سائونڈ ‘ ایکو ‘ایکس رے‘ اینڈوسکوپی اور دیگر تشخیصی ٹیکنالوجی اس وقت تک ایجاد ہی نہیں ہوئی تھی ۔ اور یہ بے حد افادیت والی ٹیکنالوجیز ہیں ‘ جس سے بیماری کی اصل صورتِ حال آپ کے سامنے واضح ہو جاتی ہے ۔آپ ‘غزوہ ٔ خندق کو پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے رسالت ما ٓب ؐ کا ارادہ باہر نکل کر جنگ کرنے کا تھا۔ حضرت سلیمان فارسیؓ نے جب خندق کھودنے کی تجویز دی ‘تو حضوراکرم ؐ نے اسے پسند فرمایا ۔ عربوں کے لیے یہ ایک نئی جنگی ٹیکنالوجی تھی ‘ جس سے نمٹنے کا کوئی طریقہ اور تجربہ ان کے پاس نہیں تھا۔ اس سے سرکارِ دو عالم ؐ کے initiativeلینے کی خوبی کا بھی پتا چلتاہے ۔ 
میڈیکل سائنس آج جس عروج پہ نظر آرہی ہے ‘ یہ پچھلے پچاس ہزار سال میں کرّۂ ارض پہ مجموعی انسانی تجربے اور علم کا نتیجہ ہے ۔ ہر انسانی نسل نے ایک قدم آگے رکھا۔ آپ نے توانائی کو ایک شکل سے دوسری شکل میں استعمال کرنا سیکھا اور لوہے کو مختلف شکلوں میں ڈھالنا سیکھا تو جہاز بنالیا ۔ آج لوگ پیدل حج پہ نہیں جاتے ‘بلکہ جہاز پر جاتے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ اتنی ترقی یافتہ میڈیکل سائنس سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے تو یہ کس قدر حیرت کی بات ہے ۔ 
مزید برأں یہ کہ حضورؐ اور صحابہ اکرامؓ نے موبائل فون استعمال نہیں کیے ‘بلکہ دوستوں اور دشمنوں سے خط کتابت کی ۔ آج ہم سب موبائل فون استعمال کر رہے ہیں ۔ آج ہم میں سے کتنے ہیں ‘ جو کہ خط لکھتے ہیں ۔ اس کے باوجود صحت کے شعبے میں لوگ مجموعی انسانی علم سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے ۔
دوسری طرف یہ بھی ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ بہت سے لوگوں نے اپنی چیزوں کو بیچنے کے لیے مذہب کو استعمال کیا۔ اپنے شہد اور اپنی کھجور کے ساتھ ''اسلامی‘‘ کے لفظ کا اضافہ کر کے اسے بیچنا شروع کیا ۔ آج بہت سے لوگ اپنا کاروبار چلانے کے لیے اپنی اشیاء اور خدمات کو اسلام اور رسالت مآب ؐ کے نام کے ساتھ جوڑتے ہیں ۔جو لوگ کسی بیماری کا اسلامی بنیادوں پر علاج کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ‘ جب آپ ان میں سے اکثر سے بات کریں تو عجیب انکشاف ہوتاہے کہ انہیں یہ علم ہی نہیں کہ گردہ اور جگر کس طرح سے کام کرتے ہیں ۔خون کی کتنی بڑی شریانیں کہاں کہاں سے گزرتی ہیں ۔ انسان کا جسم کن بنیادی اصولوں کی بنیاد پہ کام کرتا ہے ۔ جب انہیں ان چیزوں کا علم ہی نہیں تو وہ اس کا علاج کرنے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں ؟یعنی ان میں سے اکثر افراد بہت کم پڑھے لکھے ہیں ۔
لگ بھگ یہی صورتِ حال حکیموں اور طبِ یونانی والوں کی ہے ۔ یونان ایک زمانے میں سپر پاور تھا‘ جس طرح کہ آج امریکہ ہے ۔اس زمانے میں ٹی بی لاعلاج تھی ۔ آج ٹوٹے پھوٹے سرکاری ہسپتالوں میں ٹی بی کے بہت سے مریض شفایاب ہو جاتے ہیں ۔ایک زمانہ تھا کہ پولیو لا علاج تھا ۔ آج ویکسی نیشن کی وجہ سے یہ دنیا سے تقریباً ختم ہو چکا ہے ۔ یونان والوں کے اکثر نظریات کی طرح ان کا طریقِ علاج بھی متروک ہو چکا ہے ۔ 
اب میں آ پ کو اصل بات بتاتا ہوں کہ طبِ یونانی/حکیموں وغیرہ کی طرف لوگ کیوں آتے ہیں ۔ انہیں ایک cureچاہیے ۔ لوگ معجزوں کی تلاش میں بلند بانگ دعوے کرنے والے حکیموں کی طرف جاتے ہیں ۔ وہ دنوں میں وزن گرانا چاہتے ہیں ۔ وہ ان بیماریوں کا علاج ہنگامی بنیادوں پر کرنا چاہتے ہیں ‘ ایلو پیتھی جنہیں لاعلاج قرار دے چکی ہے ۔ ہم دیکھ سکتے ہیںکہ ایلو پیتھی میں کینسر کا علاج کس قدر تکلیف دہ اور مہنگا ہے ۔ جب بازار میں سائیکل پر پھکی بیچنے والا صرف ایک پڑیا سے کینسر ٹھیک کردینے کا دعویٰ کرے تو کون اس طرف متوجہ نہیں ہوگا ؟ (جاری )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved