تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     20-06-2019

جمہوری تجربے میں تاریخی سبق کیا ہے؟

جمہوریت کو آمریت سے جو خطرات لاحق ہوتے ہیں، ان سے ہم سب واقف ہیں۔ ایک طویل تاریخی تجربے کے بعد انسان یہ علم رکھتا ہے کہ جمہوریت پر شب خون کیسے مارا جاتا ہے۔ ہمارے سماج میں وہ کون کون سی جمہوریت دشمن قوتیں ہیں، جو موقع ملنے پر جمہوریت کی بساط لپیٹنے سے گریز نہیں کرتیں۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو، جہاں جمہوریت ہو، اور یہ جمہوریت کسی نہ کسی دور میں آمریت پسند قوتوں کے عتاب یا سازش کا شکار نہ ہوئی ہو۔ ہمارے پاس جمہوریت کے باب میں بنی نوع انسان کا مشترکہ تاریخی تجربہ موجود ہے۔ یہ تجربہ بڑا تلخ ہے۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ بیشتر ممالک میں آمریتوں کی طرف سے اقتدار پر شب خون کا عمل بہت عام رہا ہے۔ مگر سماج میں کچھ دوسری طاقت ور قوتیں بھی رہی ہیں، جو بظاہر جمہوریت کی ہمدرد نظر آتی ہیں، مگر جنہوں نے اپنے مفادات کے لیے ہمیشہ جمہوریت کش اقدامات کیے ہیں۔ کچھ بالا دست طبقات مختلف ادوار میں مختلف شکلوں میں جمہوریت کے خلاف سرگرم رہے ہیں۔ روایتی اعتبار سے جاگیرداری، وڈیرہ شاہی، قبائلی و سرداری نظام کے اندر موجود مراعات یافتہ لوگوں کے مفادات کا جمہوری نظام کے ساتھ تضاد رہا ہے۔ اس تضاد کی کچھ ایسی باریک اور پیچیدہ شکلیں بھی رہی ہیں، جو عام طور پر دکھائی نہیں دیتیں۔
سرمایہ داری کو عام طور پر جمہوریت دوست نظام تصور کیا جاتا ہے، جو جمہوریت کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ مگر سرمایہ داری نظام میں بھی کچھ اشکال ایسی ہوتی ہیں، جس میں اشرافیہ اور بالا دست طبقات کے مفادات کا جمہوریت سے ٹکرائو ہوتا ہے۔ اس تضاد اور ٹکرائو کی شکلیں اتنی پیچیدہ ہوتی ہیں کہ انہیں سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ بسا اوقات جمہوریت کو خود اپنے اندر سے خطرات اور چیلنج درپیش ہوتے ہیں۔ ایک بڑا خطرہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک تسلیم شدہ جمہوری عمل میں عوام کے منتخب شدہ نمائندے مطلق العنانیت کی طرف مائل ہونا شروع ہو جاتے ہیں اورغیر محسوس طریقے سے بتدریج ایک آمرانہ طرز عمل اپنا لیتے ہیں۔ یہ آمریت کی ایک انتہائی پیچیدہ اور خطرناک شکل ہوتی ہے۔ تاریخ میں مختلف اوقات میں بڑی بڑی جمہوریتیں اس طرح کے تجربے سے گزر چکی ہیں۔ 
ترقی پذیر ممالک اور پاکستان جیسی نوخیز جمہوریتیں تو ایک طرف‘ امریکی جیسی جمہوریت بھی کئی بار اس تجربے سے گزری ہے۔ ایک بدنام زمانہ تجربہ انیس سو چالیس کی دہائی میں ہوا۔ اس تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ کے ممتاز تاریخ نویس چالیس اور پچاس کی دہائیوں کو سیاسی جبر اور منتخب آمریتوں کا دور ماننے ہیں۔ امریکہ میں سوویت یونین کا خوف انیس سو سترہ کے بالشویک انقلاب کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ یہ خوف سرکاری سرپرستی میں پھیلایا جاتا رہا۔ چالیس کی دہائی میں یہ خوف اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ یہ دور ''وچ ہنٹنگ‘‘ کا دور سمجھا جاتا ہے۔ یہ سرکاری سطح پر خوف‘ اندیشوں اور شکوک و شبہات کا دور تھا۔ اس دور میں امریکہ کے کئی ممتاز شہریوں، ادیبوں، دانشوروں اور سرکاری ملازمین پر سوویت جاسوس ہونے کے الزامات عائد کیے گئے۔ سیاسی کارکنوں پر جھوٹے مقدمے قائم کیے گئے۔ اس دور کو ''سرخ خوف‘‘ کا دور بھی کہا جاتا ہے۔ اس سرخ خوف کو بنیاد بنا کر امریکہ کے منتخب صدر ہیری ٹرومین نے ایک ایسے حکم نامے پر دستخط کیے‘ جس پر آج کے دور کے جمہوریت پسند امریکیوں کے لیے یقین کرنا مشکل ہے۔ اس حکم نامے کا مقصد اپنے شہریوں کی وفاداری اور حب الوطنی کی جانچ پڑتال کرنا تھا؛ چنانچہ تمام وفاقی سرکاری ملازمین کی سکریننگ کا حکم دیا گیا۔ اس سکریننگ کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ سرکاری ملازم کی ہمدردیاں یا وابستگیاں کن کن سیاسی جماعتوں، انجمنوں یا ٹریڈ یونینز سے ہیں۔ اور یہ وابستگیاں دیکھ کر طے کیا جانا تھا کہ وہ محب وطن ہیں یا نہیں۔
فروری انیس سو پچاس میں امریکی سینیٹر جوزف میکارتھی نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پر عملاً کمیونسٹ پارٹی کا قبضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس کمیونسٹ پارٹی کے ان ممبران کی فہرست ہے‘ جو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں۔ اس کے بعد امریکی سیاست میں میکارتھی ازم کا باقاعدہ دور شروع ہوا۔ سینکڑوں امریکیوں پر کمیونسٹ ہونے یا کمیونسٹوں کا ہمدرد ہونے کا الزام لگا کر ان کے خلاف تحقیقات شروع ہوئیں۔ ان کو کئی سرکاری ایجنسیوں، کمیشنز اور پرائیویٹ کمیشنز کے سامنے پیش کیا گیا۔ میکارتھی ازم کی اس مہم کا بڑا ٹارگٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے پروفیسرز، مزدور یونینز کے نمائندے اور فن کار و ادیب تھے۔ کئی لوگ ملازمتوں سے نکالے گئے۔ کئی فنکاروں کا کیریئر تباہ ہو گیا۔ اور کئی ایک پابندِ سلاسل کر دیے گئے۔
سرخ خوف کا پس منظر یہ تھا کہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ امریکہ کے اندر کمیونسٹ پارٹی اور اس کے ہمدردوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ گریٹ ڈیپریشن کے دوران یہ مقبولیت بڑی تیزی سے بڑھی تھی۔ ملک میں مزدور انجمنیں بہت تیزی سے منظم ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ انیس سو چالیس تک کمیونسٹ پارٹی کے باقاعدہ ممبران کی تعداد پچھتر ہزار سے تجاوز کر چکی تھی۔ عالمی محاذ پر بھی امریکہ پسپا ہو رہا تھا۔ سوویت یونین ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا۔ چین میں ماوزے تنگ کی قیادت میں کمیونسٹ انقلاب آ چکا تھا۔ چین، یونان اور کوریا میں امریکہ اپنے سیاسی حامیوں پر خطیر رقم خرچ کر چکا تھا، مگر امریکہ نواز قوتیں مسلسل پسپائی پر مجبور تھیں۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے کچھ ہائی پروفائل لوگوں پر سوویت جاسوس ہونے کے مقدمے چل رہے تھے۔ روزن برگ جیسے لوگوں کو سوویت یونین کے لیے ایٹمی راز چرانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان حالات میں قدامت پسند سیاست دان بوکھلا گئے تھے۔ وہ عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والوں اور یہاں تک کہ چائلڈ لیبر کے خلاف بولنے والوں کو بھی سوویت ایجنٹ قرار دیتے تھے۔ 
میکارتھی ازم کا بخار اترنے اور سرخ خوف کم ہونے کے بعد ان اقدامات پر امریکہ کے دانشور اور سیاسی حلقوں میں تاسف کا اظہار کیا جانے لگا؛ چنانچہ اس دور میں کئے گئے بیشتر اقدامات کو عدالتوں نے غیر آئینی قرار دے دیا۔ کئی قانون بدل دیے گئے، مگر اس وقت تک کئی معصوم اور بے گناہ لوگ بھاری نقصانات اٹھا چکے تھے۔
اس تلخ تجربے کے بعد با شعور امریکیوں نے میکارتھی ازم کو ایک سنگین غلطی تسلیم کیا۔ امریکہ میں ''وچ ہنٹنگ‘‘ کا عمل ختم ہوا۔ آزادیٔ فکر و عمل کو تحفظ دیا گیا۔ اظہارِ رائے اور انجمن سازی کا حق مکمل طور پر دوبارہ تسلیم کیا گیا۔ مخالفین کو ان کے سیاسی نظریات کی بنیاد پر انتقامی کارروائی اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے کا رواج ختم ہو گیا۔ چالیس اور پچاس کی دہائیوں میں ہو بہو یہی عمل امریکی امداد اور آشیرباد سے تیسری دنیا کے کئی ممالک میں دہرایا گیا۔ میکارتھی ازم کے اس دور میں ہی پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین اور لیبر یونین پر پابندی لگائی گئی تھی۔ امریکہ میں تو یہ سلسلہ بند ہو گیا، مگر دنیا کے کچھ دیگر ممالک میں یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس کی کئی شکلیں اور روپ تیسری دنیا کے ممالک میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ بعض ممالک میں عوام کے منتخب نمائندوں کا طرزِ عمل آمریتوں سے بھی سخت ہے۔ اس سخت گیری کا ایک اظہار میڈیا پر پابندی ہے۔ سوشل میڈیا اور ابلاغ کے دوسرے ذرائع پر غیر ضروری کنٹرول ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ میڈیا اپنی بات کہنے کے لیے آزاد ہے، مگر وہ سب کچھ کہنے کے باوجود وہ بات کبھی نہیں کہتا جس سے ارباب اختیار پر تنقید کا کوئی پہلو نکلتا ہو؛ چنانچہ جمہوریت میں منتخب نمائندوں کی طرف سے آمریت پسند رویّے اپنانے کا خطرہ حقیقی ہے، جس سے ہر وقت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ جنوری انیس سو تینتیس میں جرمنی میں نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی نے عام اور آزادانہ انتخابات میں اکثریتی نشستیں جیتی تھیں۔ پھر یہ منتخب لوگ کس تیزی سے نازی ازم اور فاشزم کے راستے پر چل پڑے؟ یہ منتخب لوگوں کا آمریت کی راہ پر چل پڑنے کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔ اس عمل میں ایک تاریخی سبق ہے، جسے ہر وقت یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved