جناب جاوید ہاشمی کی حسِ مزاح بروئے کار آئی: ''لوگوں کے جانے کے بعد میں ہی صدر ہوتا ہوں‘‘ اور مولانا ظفر علی خاں ٹرسٹ کا آڈیٹوریم تالیوں اور قہقہوں سے گونج اٹھا۔ یہ ادریس بختیار کے لیے تعزیتی ریفرنس کی تقریب تھی۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ادریس بختیار کے مداح پاکستان ہی میں نہیں، دنیا بھر میں، جہاں جہاں بی بی سی اور وائس آف امریکہ سننے والے پاکستانی موجود ہیں، پائے جاتے تھے۔ انہوں نے سالہا سال انگریزی صحافت کی۔ آخری برسوں میں اردو کی طرف چلے آئے۔ سیاسی و غیر سیاسی آمریتوں کے ادوار میں جب ٹی وی اور ریڈیو کے علاوہ اخبارات کا بڑا حصہ بھی سرکار کی ملکیت تھا‘ اور ایک آدھ آزاد اخبار کو اپنی آزاد روی کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی تھی، اندرون و بیرون ملک، سیاست سے دلچسپی رکھنے والے پاکستانیوں کو بی بی سی اور وائس آف امریکہ پر ادریس بختیار کی آواز کا انتظار رہتا۔ لاہور کے اربابِ صحافت اور اہلِ علم و دانش بھی ان سے خاص تعلقِ خاطر رکھتے تھے؛ چنانچہ مولانا ظفر علی خاں ٹرسٹ کے زیر اہتمام اس تعزیتی ریفرنس میں اپنے یارِ طرحدار کو خراج تحسین و عقیدت پیش کرنے وہ کشاںکشاں چلے آئے تھے۔ آڈیٹوریم لبالب بھر گیا تھا‘ جنہیں نشست نہ ملی، وہ اڑھائی گھنٹے کی تقریب میں سارا عرصہ کھڑے رہے۔
اطلاعات و نشریات کے صوبائی وزیر صمصام بخاری تقریب کے صدر اور جاوید ہاشمی مہمانِ خصوصی تھے۔ بخاری صاحب کو ایک اور ضروری مصروفیت بھی درپیش تھی۔ ان کی خواہش تھی کہ انہیں آغاز ہی میں ''خطبۂ صدارت‘‘ کے لیے بلا لیا جائے۔ انہیں دعوتِ خطاب دیتے ہوئے ناظم تقریب نے کہا، ان کے جانے کے بعد جاوید ہاشمی تقریب کے صدر ہوں گے۔ ہاشمی صاحب نے اسی مصرع طرح پر گرہ لگائی تھی ''لوگوں کے جانے کے بعد میں ہی صدر ہوتا ہوں‘‘ اور اس پر بے ساختہ داد دینے والے حاضرین کو یاد تھا کہ دسمبر 2000 میں جناب نواز شریف جلا وطنی کے سفر پر روانہ ہوتے ہوئے ڈکٹیٹر کی دست برد سے بچی کھچی اپنی مسلم لیگ کی صدارت کا پرچم جاوید ہاشمی کو تھما گئے تھے‘ اور ہاشمی اس امانت کی حفاظت کا حق ادا کرتے ہوئے ابتلا و آزمائش کے ہر مرحلے سے برضا و رغبت گزرتے رہے۔ اس میں نیب کی تفتیش کے دوران طویل اذیت دہ حراست بھی تھی۔ اکتوبر 2002 کے الیکشن میں وہ ڈکٹیٹر کی اس فہرست میں سب سے اوپر تھے، جن کے سامنے سرخ نشان تھا (اس سے پہلے مسلم لیگ کے بطن سے قاف لیگ بھی نکالی جا چکی تھی) اس کے باوجود نواز شریف والی مسلم لیگ کے جو ڈیڑھ درجن ارکان، قومی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے‘ ان میں جاوید ہاشمی بھی تھے۔ یاد پڑتا ہے، مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے قائد بھی وہی تھے۔ بالآخر آمریت کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور 29 اکتوبر 2003 کو انہیں پارلیمنٹ لاجز سے گرفتار کر لیا گیا۔ یہ مشرف دور میں ان کی دسویں اور سیاسی کیریئر کی تیسویں گرفتاری تھی۔ اس کے بعد ہاشمی پر جو بیتی اس کی کچھ روداد ''ہاں! میں باغی ہوں‘‘ میں بھی موجود ہے ''14 روز تک سورج کی روشنی نہ دیکھ سکا۔ آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی جاتیں اور ہاتھوں میں زنجیریں۔ آنکھوں سے پٹیاں کھول کر بٹھا دیا جاتا اور پہروں نہ ختم ہونے والی بے معنی سوالات کی نشست ہوتی۔ اس کے بعد ننگے اور گیلے فرش پر سونے کی اجازت مل جاتی۔ نومبر کا مہینہ میرے جذبوں کو ٹھنڈا نہ کر سکا۔ اعصاب شکنی کے لیے گاہے بگاہے دیواروں کے ساتھ پٹخنے کی مشق بھی جاری رہتی۔ 14 دن کے بعد اڈیالہ جیل میں ایک ایسے سیل میں بند کر دیا گیا جو گوانتانامو بھیجنے اور واپس آنے والے قیدیوں کے لیے مخصوص تھا۔ تقریباً سوا سال سے اس دشتِ تنہائی میں ہوں۔ صرف سرکاری امور سرانجام دینے والے کارندے سیل کے چاروں طرف موجود ہوتے ہیں۔ بلب لگا دیئے گئے ہیں جو دن رات جلتے ہیں۔ چاروں طرف اونچی ایک خاردار دیوار ہے، اس کے ارد گرد مزید پہریدار ہیں۔ ہر چار گھنٹے بعد پہریدار تبدیل ہو جاتے ہیں۔ داخل ہونے سے پہلے وہ چاردیواری کے آہنی دروازے کو دھماکے سے کھولتے ہیں۔ میں اگر سو رہا ہوں تو جاگ جاتا ہوں اور جاگ رہا ہوں تو چونک جاتا ہوں۔ مگر میں اب شورِ مسلسل کا عادی ہو چکا ہوں۔ اب اگر وہ دروازہ آہستگی سے کھولیں تو کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
ایسے مانوس صیاد سے ہو گئے
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے
خطبہ صدارت میں وزیر اطلاعات و نشریات کا کہنا تھا: تعزیتی تقریب میں وہ کوئی ''سیاسی‘‘ بات نہیں کریں گے۔ میڈیا کو جدید ریاست کا چوتھا ستون قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئے اور نوجوان صحافیوں کے لیے ادریس بختیار کا صحافتی کردار رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حزبِ اقتدار اور حزب اختلاف جمہوریت کی گاڑی کے دو پہیے ہیں، اور ان کے درمیان خوشگوار ربط و ضبط جمہوری سفر کو ہموار اور محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ ادریس بختیار کے صاحبزادے ارسلان بختیار بھی میڈیا پرسن ہیں اور خود کو ''لائق میراثِ پدر‘‘ ثابت کرنے کے لیے پُرعزم۔ ارسلان نے اپنے والد محترم کی یادیں تازہ کیں۔ انوار قمر لاہور کے سینئر صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اپنے مرحوم بھتیجے پر اِن کا مضمون بھی خوب تھا۔ شاہد ملک بی بی سی میں ادریس کے کولیگ رہے، اپنے دوست کے لیے وہ ایک دلگداز کالم لکھ کر لائے تھے۔ نواز رضا، سعود ساحر اور اسلم خان اپنے ہمدمِ دیرینہ کو خراج تحسین پیش کرنے اسلام آباد سے آئے تھے۔ فرخ سعید خواجہ اور تاثیر مصطفیٰ نے ٹریڈ یونین میں ادریس کے فعال اور بھرپور کردار کا ذکر کیا۔ ممتاز ماہرِ ابلاغیات پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کا کہنا تھا: ادریس عموماً یہ سوال کرتا کہ رائٹسٹوں کی انگریزی کمزور کیوں ہوتی ہے؟ سلمان غنی کا ایک فقرہ کتنا بلیغ تھا: ادریس بختیار رپورٹنگ کا اعتبار تھے۔ سجاد میر نے آزادیٔ صحافت کے ساتھ صحافیوں کے معاشی تحفظ پر زور دیا۔ لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے ادریس کو ایک ''اپ رائٹ جرنلسٹ‘‘ اور جناب عطاالرحمن نے صحافت کی اکیڈیمی قرار دیا۔ شامی صاحب نے بڑی اہم اور بنیادی بات کہی: رپورٹنگ میں رائٹ، لیفٹ نہیں، سچ یا جھوٹ آتا ہے۔ رپورٹنگ میں غیر جانبداری ہوتی ہے، اس میں کسی نظریے کی آمیزش نہیں ہو سکتی۔ نظریے کے لیے تجزیہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا، ایک دور تھا جب ہم رائٹ والے، رپورٹنگ میں ڈنڈی مارنے کے فن سے بے بہرہ تھے۔ آج کی صحافت اچھا پیشہ ہے، لیکن اچھا کیریئر نہیں... ادریس بختیار اعلیٰ آدرشوں کے ساتھ صحافت میں آئے اور اس کی قیمت بھی ادا کرتے رہے۔
جاوید ہاشمی کا خطاب، تقریب کا دوسرا خطبۂ صدارت تھا۔ جنرل ضیاالحق پاکستانی قوم کے دماغ میں ''جمہوریت کے کیڑے‘‘ کی بات کیا کرتے، کبھی وہ اس کے لیے ''خناس‘‘ کا لفظ استعمال کرتے۔ ہاشمی کا کہنا تھا کہ ان کے دماغ میں یہ ''کیڑا‘‘، یہ ''خناس‘‘ لڑکپن ہی سے موجود تھا۔ کالج میں ان کا پہلا سال تھا، جب وہ طلبہ کے وفد کے ساتھ مری گئے، واپسی پر ایوب خان سے ملنے ان کے گھر پہنچ گئے۔ فیلڈ مارشل سیاسی ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے۔ وہ لمبا سا کوٹ پہنے ہوئے تھے جس پر ''ایفل ٹاور‘‘ کے بٹن تھے کہ فرانس کے ڈیگال، ان کا آئیڈیل تھے۔ نوجوان ہاشمی نے گستاخانہ سوال کر دیا: سنا ہے کہ آپ گالیاں بہت دیتے ہیں۔ ایوب خان نے بڑی سی گالی کے ساتھ کہا: کون کہتا ہے؟ (ایک بار بھٹو صاحب نے بھی اپنی تقریر میں گالی دیدی تھی) ہاشمی کا کہنا تھا کہ آج جو گالیاں ہماری سیاسی لغت کا روزمرہ بن چکی ہیں، وہ ایوب خان کی گالی سے کہیں آگے کی چیز ہیں‘ مطلق العنانیت کے دس سال گزارنے کے بعد بھی ایوب خان کو دکھ تھا کہ انہیں قوم کی خدمت اور ملک کو سنوارنے کے لیے زیادہ وقت نہ ملا۔ ہاشمی نے ایک دلچسپ بات بھی کہی، آج ملتان سے لاہور آتے ہوئے میں اپنے نواسے سے کہہ رہا تھا کہ میں 70 سال کا ہوں، لیکن آدمی عمر سے نہیں، اپنی فکر سے جوان یا بوڑھا ہوتا ہے۔ اور اس اعتبار سے میں آج بھی 35 سال کا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملتان سے لاہور کا سفر اب اڑھائی گھنٹے کا ہو گیا ہے، جیسے ملتان لاہور کا ایک محلہ ہو۔ کبھی اس میں پانچ، ساڑھے پانچ گھنٹے لگ جاتے تھے۔ ایک بار میاں صاحب نے ہنستے ہوئے کہا تھا: یہ موٹروے تو میں نے ہاشمی کے لیے بنائی ہے۔ عمران خان کی تحریک انصاف میں پونے تین سال کا عرصہ گزارنے کے بعد وہ پھر نواز شریف والی مسلم لیگ میں ہیں، لیکن وہ مسلم لیگ میں کہاں ہیں؟ کس جگہ پر ہیں؟