تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     01-05-2013

ایک ووٹر کا امتحان

بھٹو کا ووٹر آج کہاں کھڑا ہے؟ سندھ میں انتخابی مہم اور ٹیلی ویژن چینلز پر پیپلز پارٹی کے اشتہارات سے اس سوال کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ پنجاب میں اس کی صورت حال امید افزا نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ پنجاب کی صورت حال سندھ کے بر عکس ہے۔ پیپلز پارٹی کی مقبولیت کے گراف میں حالیہ زبردست کمی بجا لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھٹو کا سحر کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی سے چند ہفتے قبل بالکل درست کہا تھا کہ ’’ قبر میں لیٹ کر بھی میں اس ملک پر حکومت کروں گا‘‘۔ آج تیس سال سے زائد کا عرصہ گذرجانے کے بعد بھی اُن کا کہا ہو ا ہر لفظ حقیقت بن کر سامنے کھڑا ہے۔ کئی دفعہ ایسے مواقع آئے کہ حکمرانی کا محور بھٹو کی ذات ہی رہی۔ 1970ء سے پاکستان کا اقتدار دو ہی طاقتوں کے ہاتھ میں رہا ہے‘ ایک طرف بھٹو کا ووٹ تھاتو دوسری طرف اینٹی بھٹو ووٹ۔ کبھی ایک کامیاب ہوتا رہا تو کبھی دوسرا۔یہ حقیقت ہے کہ بھٹو نے اس ملک کے عوام کے ذہنوں اور دلوں میں اس طرح گھر کیا کہ اگر اُسے چاہا گیا تو دیوانگی اور جنون کی حد تک۔ اس کے برعکس اگر وہ نفرت اور غصے کا نشانہ بنا تو مخالفین نے انتقام کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے اُسے پھانسی چڑھا دیا اور وہ تختہ دار پر جھول کر بھی تاریخ میں امر ہو گیا۔ بھٹو کی پھانسی پر ایک طرف غم کے اندوہ بادل چھا گئے تو دوسری طرف مٹھائیاں بھی بانٹی گئیں اور گھی کے چراغ بھی جلائے گئے۔ پھانسی پانے والے بھٹو کی جماعت کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی حکمران متبادل لیڈروں کی پشت پناہی کرتے رہے۔ آئی جے آئی بنوائی گئی اور سرکاری خزانے سے بھٹو کی مخالف جماعتوں میں رقمیں تک بانٹی گئیں۔ بھٹو خاندان کو اپنے سیا سی مخالفین کی جانب سے جان کا خطرہ لاحق رہا۔ اُسے کردار کشی کے سب سے نچلے درجے پر کھینچا گیا اور کوشش کی گئی کہ زیادہ سے زیادہ اینٹی بھٹو ووٹ پیدا کر کے متبادل قیادت کو دلوایا جائے۔ آج بھٹو کی اسی پیپلز پارٹی کی حالت اس قدر پتلی ہے کہ ’’ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے‘‘ والی کیفیت ہے۔ اگر کہا جائے کہ پیپلز پارٹی بہت سی جگہوں پر موجود ہی نہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ 2008ء کے انتخابات میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا سانحہ تازہ تھا ،لاہور شہر میں پی پی کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد نا قابلِ یقین حد تک کم تھی، اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت کو گئے ہوئے بارہ سال کا طویل عرصہ گزر چکا تھا،پارٹی کا سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر اور اس کا بیٹا شکست کھا گئے۔ گویا بی بی کی شہادت بھی لاہور کے ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکی۔ آج انتخابی میدان کا جائزہ لیں تو پیپلز پارٹی کی مقبولیت 2008ء کے مقابلے میں بھی انتہائی کم ہو چکی ہے۔ نصف سے زائد پنجاب (خصوصاً شمالی و وسطی پنجاب) میں کئی وجو ہات کی بنا پر پیپلز پارٹی سمٹ کر رہ گئی ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ ایک علیحدہ اور طویل موضوع ہے جو اس وقت زیر بحث نہیں‘ اسے کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ میرا آج کا موضوع گیارہ مئی کو ملک میں ہونے والے انتخابات اور بھٹو کے ووٹرز ہیں۔ دوسرے تمام پہلوئوں کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے توپنجاب میں اصل مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کے درمیان ہے۔ صرف جنوبی پنجاب کے چند اضلاع کی پندرہ بیس نشستوں میں بھٹو کا ووٹر پریشان ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرے۔ ان انتخابات کے بارے میں میری پیپلز پارٹی کے بہت سے تجربہ کار صحافیوں، بنیا دی اراکین اور بھٹو کی نسل در نسل حمایت کرنے والوں سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف بھٹو ہے تو دوسری طرف عمران خان اور نواز شریف ہیں‘ اگر جیالوں کی نظر سے ان دونوں کا بھٹو کی ذات کے حوالے سے موازنہ کیا جائے تو بھٹو کے پیروکاروں کو عمران خان سے کوئی شکوہ شکایت نہیں کیونکہ نہ وہ بھٹو کے عدالتی قتل میں شریک تھا ،نہ دوسرے سیاستدانوں کی طرح بھٹو کی پھانسی کی رات چراغاںکرنے والوں میں اور ہی مٹھائیاں بانٹنے والوں میں شامل تھا بلکہ اپنی تقریروں میں وہ ہمیشہ ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم کے بارے میں کلمۂ خیر کہتا رہا ہے‘ اس لیے بھٹو کا وہ ووٹر جو جانتا ہے کہ لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، راولپنڈی سمیت پنجاب کے چند دوسرے شہروں کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اگر پیپلز پارٹی کا امیدوار پانچ سے دس ہزار سے زائد ووٹ لینے کی پوزیشن میں بھی نہیں تو کیا ان کے لیے یہ بہتر نہیں ہوگا کہ وہاں وہ اپنا ووٹ بھٹو کے قتل پر چراغاں کرنے والوں‘ مٹھائیاں بانٹنے والوں‘ محترمہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کرنے والوں کے خلاف استعمال کرے۔ پیپلز پارٹی کے ووٹرزکو 1993ء کے بعد ایک بار پھر موقع ملا ہے کہ وہ ووٹ کی طاقت سے بھٹو کی پھانسی کا بدلہ چکا دیں۔ اگر آج وہ خود یہ بدلہ لینے کی پوزیشن میں نہیں تو کیا ہوا‘ دشمن کے دشمن کی مدد تو کی جا سکتی ہے۔ بھٹو کا ووٹر اب تک بھٹو کے مخالفین کے چہروں کو نہیں بھولا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا بھٹو کی قبر پر ہر سال رونے والے‘ ہر سال چار اپریل کو بھٹو کی پھانسی پر خون کے آنسو بہانے والے گیارہ مئی کو اپنے ووٹ سے اس کا حساب چکائیں گے؟اگر بھٹو کے جیالوں نے بھٹو کے قاتلوں کے خلاف یہ موقع کھو دیا تو پھر انہیں بہت انتظار کرنا پڑے گا۔ بھٹو کے ووٹر نے اگر بھٹو کی روح سے شرمندگی سے بچنا ہے تو انہیں بھٹو خاندان کے ازلی مخالفین کو ناکام بنانے کے لیے بہتر متبادل کے طور پر عمران خان کی تحریک انصاف کا انتخاب کرنا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved