ایک بار پھر ''مارو یا مر جاؤ‘‘ کی منزل آچکی ہے۔ کرکٹ کا ورلڈ کپ پوری آب و تاب اور زور و شور کے ساتھ جاری ہے۔ زور لگایا جارہا ہے اور شور مچایا جارہا ہے۔ ہمارے ہاں ؛البتہ زور کم اور شور زیادہ ہے۔ قومی ٹیم نے ورلڈ کپ میں اپنے پہلے پانچ میچوں میں جو کچھ کیا ہے‘ اُس کی بنیاد پر شور مچنا لازم تھا اور تنقید و تنقیص کا شور خاصا زور لگاکر مچایا جارہا ہے۔
وہ زمانے ہوا ہوئے جب کھیل کو صرف کھیل کے طور پر لیا جاتا تھا۔ کسی بڑی فتح پر ایسا جشن نہیں منایا جاتا تھا‘ جیسا جنگ میں فتح پر منایا جاتا ہے اور نہ ہی کسی شکست پر یہ محسوس کیا جاتا تھا کہ کوئی جنگ ہار دی ہے۔ ہمارا معاملہ عجیب ہے۔ ملک کا نصف ہاتھ سے جاتا رہے تو لگتا ہے کھیلوں کے کسی مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اگر کرکٹ کا کوئی میچ ہار بیٹھیں ‘تو ایسا محسوس ہوتا ہے‘ جیسے جنگ کے میدان میں ملک ہار بیٹھے ہیں۔
سرفراز الیون نے ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے سوا ‘کسی کے مقابل فتح نہیں پائی۔ ایک آدھ موقع پر ہاتھ آئی ہوئی فتح کو اپنی غلطیوں کے نتیجے میں جانے بھی دیا گیا۔ ایسے میں ہر طرف سے تنقید کے تیر برسائے جانے کا عمل غیر منطقی ہے ‘نہ حیرت انگیز۔ غیر معمولی تنقید کا سبب یہ ہے کہ لوگ قومی ٹیم سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر بیٹھے تھے۔ یہ بھی قوم ہی کا قصور ہے۔ جب اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے ہاں کرکٹ سے متعلق امور میں کرکٹ سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہوتا ہے‘ تو بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ سرفراز الیون نے اب تک یہی ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کی ٹیم ہے۔ جیسا ملک ہے ویسی ٹیم ہے۔ اس ٹیم کے بارے میں پورے یقین سے کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔ یہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتی ہے۔ انگلینڈ ورلڈ کپ کی مضبوط ترین ٹیم ہے۔ اُسے ہم نے پچھاڑ دیا اور ویسٹ انڈیز سے یوں ہارے ‘گویا کلب لیول کا کوئی معمولی میچ ہو رہا ہو!
ایک بات تو طے ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم‘ اس وقت تشکیل و تہذیب کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ بیشتر سینئر کھلاڑی رخصت ہوچکے ہیں۔ محمد حفیظ اور شعیب ملک بھی چراغِ سَحری ہیں‘ کسی بھی وقت بُجھا چاہتے ہیں۔ ان کے بعد سینئرز میں لے دے کے صرف سرفراز بچے ہیں؛ اگر کوئی بڑا سبب نہ ہو تو‘ عام کھلاڑی کی حیثیت سے‘ وہ ابھی تین چار سال کھیل سکتے ہیں۔
تقریباً پوری ٹیم نئی ہے۔ اس ٹیم کو گرومنگ کی ضرورت ہے۔ سینئرز کا فرض ہے کہ راہ نمائی کا فریضہ انجام دیں۔ وسیم اکرم اور شعیب اختر جیسے باؤلرز کو آگے بڑھ کر محمد عامر‘ وہاب ریاض‘ شاہین آفریدی اور حسن علی وغیرہ کی خامیاں دُور کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
1992ء کے ورلڈ کپ میں بھی یہی ہوا تھا۔ ہم نے ابتدائی پانچ مقابلوں میں صرف تین پوائنٹ حاصل کیے تھے۔ اس کے بعد سیمی فائنل تک تینوں میچ جیتے بغیر چارہ نہ تھا۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ ٹاپ فور میں شامل ہونے کے لیے ہمیں اب باقی چار میچ ہر حال میں جیتنے ہیں۔ اور یہ میچ جیتنے پر بھی رن ریٹ کا مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے‘ یعنی چاروں میچ صرف جیتنے نہیں ہیں ‘بلکہ اچھی طرح جیتنے ہیں۔
ابھی تک کچھ واضح نہیں کہ ٹاپ فور میں بھارت اور انگلینڈ کے ساتھ کون کون ہوگا۔ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ ویسٹ انڈیز اور پاکستان میں مقابلہ ہے۔ 23 جون کو جنوبی افریقا سے مقابلے کے نتیجے کی صورت میں پاکستان کی پوزیشن بالکل واضح ہوجائے گی۔ اب ہارنے کا آپشن ہے ہی نہیں۔ نیوزی لینڈ نے بدھ کو جنوبی افریقا کے مقابل فتح ضرور پائی‘ مگر وہ ایکسپوز بھی ہوگئی۔ ابتدائی میچوں میں بنگلہ دیش‘ افغانستان اور سری لنکا کو ہراکر اُس نے پوائنٹس بٹور لیے۔ بھارت سے میچ بارش کی نذر ہوا۔ جنوبی افریقا جیسی بڑی ٹیم سے ٹاکرا ہوا تو کیویز کی اصلیت بھی سامنے آگئی۔ 242 کا ہدف بھی جان لڑانے سے حاصل ہو پایا۔ کیویز کے باقی چار میچ بھی بڑی اور مضبوط ٹیموں سے ہیں۔
پاکستان کا سامنا ابتدائی مرحلے ہی میں بڑی ٹیموں سے تھا۔ ایسے میں ہماری ٹیم کی کمزوریاں کھل کر سامنے آگئیں۔ خیر‘ کھیلوں کی دنیا میں ایسا ہوتا ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب ہمیںکیا کرنا ہے۔ ایک مسئلہ تو کامبی نیشن کا ہے‘ مگر اس سے بھی بڑا مسئلہ اختلافات کا ہے۔ یہ بات اب کھل کر کہی جارہی ہے کہ قومی ٹیم کے کھلاڑیوں میں مکمل ذہنی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ گروپنگ سے متعلق بھی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ خراب کارکردگی کے باوجود شعیب ملک کا ٹیم میں ہونا بہت سوں کیلئے انتہائی حیرت کا باعث ہے۔ رہی سہی کسر چینلز نے پوری کردی ہے‘ جنہیں کچھ نہ کچھ کہتے رہنے کیلئے کچھ نہ کچھ درکار ہوتا ہے۔ اس وقت قومی ٹیم سے متعلق رائی کے ہر دانے کو پربت بنانے کا عمل جاری ہے۔ بہت سے اینکرز قومی ٹیم کی خرابیوں کو لہک لہک کر بیان کر رہے ہیں۔
قوم ایک طرف تو یہ چاہتی ہے کہ قومی ٹیم کچھ کرکے دکھائے اور دوسری طرف تنقید و تنقیص کے بھی خوب مزے لے رہی ہے۔ ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر نے تنقید کے کنکر مارتے وقت مزے سے کہہ دیا کہ محمد عامر کون سا ورلڈ کلاس باؤلر ہے۔ سرفراز الیون کی کارکردگی سے کوئی کتنا ہی مایوس ہو‘ کسی کھلاڑی کے قد کاٹھ سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا۔ 16 جون کو بھارت سے میچ کے دوران یہ بات سامنے آگئی کہ ورات کوہلی نے طے کرلیا تھا کہ محمد عامر کو پوری سنجیدگی سے‘ ڈھنگ سے کھیلنا ہے۔ اور پٹائی کرنی ہے‘ تو دوسرے باؤلرز کی۔ عامر کے اوورز بھارتی بلے بازوں نے سَر جھکاکر‘ کپتان کی ہدایات کے مطابق کھیلتے ہوئے گزارے۔
اس وقت قومی ٹیم کے پاس دو ہی حقیقی ورلڈ کلاس باؤلرز ہیں ... محمد عامر اور وہاب ریاض؛ اگر اُنہیں تنقید کا نشانہ بناکر اُن کا دل چھوٹا کرنے کی کوشش کی جائے گی ‘تو پھر رہ کیا جائے گا؟ شاہد آفریدی اور وسیم اکرم نے قوم سے کہا ہے کہ اپنی ٹیم پر بے جا تنقید کرنے کی بجائے اُس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے‘ تاکہ وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی حقیقی تحریک پائے۔ یہ نازک مرحلہ ہے۔ سرفراز الیون کو سیمی فائنل تک رسائی کے لیے باقی چاروں میچ ہر حال میں جیتنے ہیں۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے‘ جب وہ یکسُو ہوکر کھیلے اور دوسری طرف قوم بے جا تنقید سے گریز کرے۔
مارو یا مر جاؤ کے مرحلے میں قومی ٹیم کے باقی چار میچوں میں سے ہر ایک یادگار نوعیت کا ہونا چاہیے۔ ہر کھلاڑی کو پورا زور لگانا ہے۔ جب ایسا ہوگا تب کچھ بات بنے گی۔ ورلڈ کپ میں ہمارے امکانات کا مدار کسی حد تک اس بات پر بھی ہے کہ دوسری بڑی ٹیمیں کیا کر پاتی ہیں‘ کہاں تک جاتی ہیں۔ بنگلہ دیش بہت آگے تو نہیں جاسکتی ‘مگر کسی بڑی ٹیم کو تنگڑی دے کر گرا ضرور سکتی ہے‘ جیسا کہ جنوبی افریقا اور ویسٹ انڈیز کے معاملے میں ہوا ہے۔
صورتِ حال بتا رہی ہے کہ سرفراز الیون کے لیے پُرخار راہوں کا سفر شروع ہوچکا ہے۔ اُسے انہی پتھروں پر چل کے جانا ہے۔ اس راہ میں کوئی کہکشاں نہیں ہے۔ قومی ٹیم ہی نہیں‘ قوم کو بھی پُرعزم اور پازیٹو رہنا ہے۔