تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-06-2019

دلدل سے نکلنا تو ہے

جب تک سانس ہے تک تب آس ہے۔ توبہ کا دروازہ دم توڑنے تک کھلا رہتا ہے۔ اسی طور آس بھی مرتے دم تک برقرار رہتی ہے۔ اور رہنی چاہیے مگر جب ہر طرف خرابی ہو تو انسان رفتہ رفتہ مایوسی کی طرف بڑھتا جاتا ہے۔ یہ بالکل فطری ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے جو فطری ہے مگر ہمیں اُس کے خلاف لڑنا پڑتا ہے۔ انسان کا حالات و واقعات کے ہاتھوں مایوسی کی طرف بڑھنا فطری ہے مگر اس روش کے خلاف جانا بھی انسان ہی کا کام ہے۔ جس ہستی نے ہمیں روئے ارض پر متعین سانسیں عطا کی ہیں وہی ہمیں آزمائش میں ڈالتی ہے اور پھر یہ بھی چاہتی ہے کہ ہم تمام آزمائشوں میں ثابت قدم رہیں‘ نامساعد حالات کے سامنے سینہ سِپر ہوں۔ 
پاکستانی معاشرے میں خرابیوں کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر معاملہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر بننے کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ خرابیوں کا گراف بلندی کی طرف رواں ہے تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ درستی کے حوالے سے کی جانے والی کوششیں ضرورت سے بہت کم ہی نہیں‘ نیم دِلانہ بھی ہیں۔ معاشرے کی عمومی روش پر نظر دوڑانے سے کبھی کسی بھی بات کا حوصلہ نہیں ملتا۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی معاملات کو سطحی طور پر دیکھنے سے دل مطمئن نہیں ہوتا‘ کچھ کرنے کی تحریک نہیں ملتی۔ کسی بھی معاشرے کی عمومی روش نیم دِلانہ ہی ہوا کرتی ہے۔ معاملات پر طائرانہ نظر ڈالنے سے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا اور دل قدم قدم پر بُجھ سا جاتا ہے۔ معاملات کو سمجھنے کے لیے سطح کے نیچے دیکھنا پڑتا ہے‘ تناظر سمجھنا پڑتا ہے۔ جب تک کسی بھی معاملے کا تناظر سمجھ میں نہ آئے تب تک اُسے درست کرنے کی راہ بھی نہیں سُوجھتی۔ کوئی بھی معاشرہ اس کُلیے سے مستثنیٰ نہیں۔ 
چیلنجز ہر معاشرے کے لیے ہوتے ہیں۔ دنیا ہر آن بدل رہی ہے۔ یہ عمل اب تیز تر ہوگیا ہے۔ بین الریاستی تعلقات کی نوعیت تبدیل ہوچکی ہے۔ خطوں کی سطح پر پائی جانے والے مخاصمت کی فضا کہیں ختم ہوگئی ہے اور کہیں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ بہت سے معاملات میں جو غیر اعلانیہ اور مجموعی طور پر تسلیم شدہ نظام کار فرما تھا وہ اب منتشر ہونے لگا ہے۔ امریکہ اور یورپ کی قوت میں رونما ہونے والی کمی نے اُن کی قیادت میں کام کرنے والے نظام کو کمزور کردیا ہے۔ کوئی ٹھوس اور جامع متبادل نظام اب تک وضع نہیں کیا جاسکا ہے۔ یورپ نے معقول حد تک پسپائی اختیار کرتے ہوئے معاملات کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی ہے مگر امریکی قیادت اب تک نمایاں سرکشی کے ساتھ میدان میں ہے اور پالیسیوں میں معقول تبدیلی لانے پر آمادہ نہیں۔ اور اس کے نتیجے میں‘ ظاہر ہے‘ اضافی بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ 
پاکستان کا شمار اُن معاشروں میں ہوتا ہے جو شدید انتشار کا شکار ہیں۔ ہر شعبے میں خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ اور یہ خرابیاں دن بہ دن زیادہ سے زیادہ شدید اور گہری ہوتی جارہی ہیں۔ معاشرے کی مجموعی عمومی روش یہ ہے کہ کسی بھی خرابی کو دور کرنے کے لیے درکار عزم سے گریز کیا جائے‘ محنت نہ کی جائے اور محض سوچنے یا بولنے تک محدود رہا جائے۔ کسی بھی معاشرے میں رونما ہونے والی کوئی بھی بڑی خرابی اتنی شدت کا جوابی عمل بھی چاہتی ہے۔ سوچنے کے مرحلے سے گزرنے کے بعد عمل کی منزل تک آنا پڑتا ہے۔ یہی ہم سے نہیں ہو پارہا۔ 
سیاست ہو یا معیشت‘ معاشرت ہو یا علم و ادب ...ہر معاملے اور ہر شعبے پر شدید نوعیت کا جمود طاری ہے۔ عوام کا معاملہ یہ ہے کہ اُن کے حواس و عقل پر خطرناک‘ بلکہ ہلاکت خیز نوعیت کی پژمردگی چھائی ہوئی ہے اور خواص کا عالم یہ ہے کہ وہ بے حِسی کی چادر اوڑھ کر دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔ 
اہلِ پاکستان کو اگر بحرانوں کی دلدل سے نکلنا ہے تو اپنے اندر غیر معمولی تحرّک پیدا کرنا ہوگا۔ یہ تحرّک محض باتوں سے پیدا نہیں ہوسکتا۔ خام خیالی کی راہ پر چل کر کچھ بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت کی دنیا ہم سے حقیقت پسندی کا مطالبہ اور تقاضا کرتی ہے۔ آج کے پاکستان کو سب سے زیادہ حقیقت پسندی کی ضرورت ہے۔ عوام خیال و خواب کی دنیا میں رہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ مسائل کو حل کرنے کی ذہنی تیاری سے زیادہ وہ محض خوش فہمی کی دنیا میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ روش عملاً خود کش ہے۔ محض خوش فہمی کا اسیر ہوکر کوئی بھی اپنے معاملات درست اور مسائل حل نہیں کرسکتا۔ 
آج سیاست‘ معیشت‘ معاشرت‘ ادب‘ فن اور دوسرے بہت سے بلکہ بیشتر شعبوں میں حقیقت پسندی کا واضح فقدان دکھائی دیتا ہے۔ عمل پسند رویہ اپناکر کچھ کرنے کے بجائے معاملات کو محض ٹالتے رہنے کی روش کو قبولِ عام کا درجہ حاصل ہے۔ پاکستانی معاشرے کے بیشتر شعبوں میں خرابیاں اس لیے زیادہ ہیں کہ اُنہیں دور کرنے کی کوشش کرنے کا رجحان عشروں پہلے ترک کردیا گیا تھا۔ علم و ادب ہی کی مثال لیجیے۔ اہلِ علم اور اہلِ فن ایک زمانے سے صرف ماضی کو رو رہے ہیں۔ کچھ سیکھنے اور معاشرے کو کچھ دینے کے بجائے وہ حالات کی ستم ظریفی کا ماتم کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ تعلیم‘ صحت اور معیشت کا بھی یہی حال ہے۔ بنیادی سہولتوں کا شعبہ بے نظمی کا شکار ہے۔ دیہی اور شہری دونوں ہی طرح کے علاقے ہر شعبے میں گراوٹ کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ 
کسی نے خوب کہا ہے ؎ 
حل کرنے سے حل ہوتے ہیں پیچیدہ مسائل 
ورنہ تو کوئی کام بھی آساں نہیں ہوتا 
مشکلات میں پھنسے ہوئے معاشرے اپنے آپ کو آزاد اُسی وقت کرا پاتے ہیں جب وہ پوری قوت جمع کرکے ایک نقطے پر لاتے ہیں اور غیر معمولی انداز سے عمل کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔ ہمیں بھی یہی کرنا ہے۔ محض دیکھنے اور سوچنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ بات تب بنے گی جب ہر شعبے میں اصلاحِ احوال کے حوالے سے ذہن سازی کی جائے گی اور عمل پسند رویہ اپنایا جائے گا۔ اصلاحِ احوال کے مختلف مراحل ہوتے ہیں۔ ہر مرحلہ خاص فکر و عمل کا متقاضی ہوتا ہے۔ آج کا پاکستانی معاشرہ جمود سے دوچار ہے۔ تحرّک انتہائی بنیادی ضرورت ہے مگر یہ انتہائی بنیادی ضرورت پوری کرنے سے ہمیں بظاہر کچھ غرض نہیں۔ ہم نے اب تک جمود کو ترک کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ہر معاملے میں خرابی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ مسائل جب حل نہیں کیے جاتے تو پیچیدہ تر ہو جاتے ہیں۔ 
اگر ہمیں بحرانوں کی دلدل سے نکلنا ہے تو بہت کچھ سوچنا ہے اور عمل کی منزل سے بھی گزرنا ہے۔ ایسا کیے بغیر کچھ بھی درست نہ ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ حالات کے گلے میں عمل کی گھنٹی کون باندھے؟ یہ گھنٹی باندھنے کہیں سے کوئی نہیں آئے گا۔ اس مرحلے سے بھی ہمیں ہی کو گزرنا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ زندگی کو نیا رخ دینے کے لیے ہمیں من حیث القوم بھرپور اور موثر عمل کی راہ پر گامزن ہونا ہے۔ محض بحث و تکرار‘ الزام و جوابی الزام اور تنقید و تنقیص سے کچھ نہ ہوگا۔ بظاہر یہ سب کچھ دل بہلانے کے لیے ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ دل بہلانے سے زیادہ یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینے کا دھندا ہے۔ یہ دھندا ترک کرکے ہمیں کامل حقیقت پسندی کے ساتھ عمل نواز طرزِ فکر و عمل اپنانی ہے۔ بحرانوں کی دلدل میں دھنسے رہنے سے بچنے کا یہی ایک معقول اور منطقی طریقہ ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved